• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللّٰہ خیر کرے، اب تو منہ سے آمین نکلنے سے پہلے ذہن میں یہ سوال آگیا کہ ہم پر رب کریم و رحمٰن و رحیم آخر کتنا فضل و کرم فرمائیں، ہمیں کتنی مہلت دی جائے اور ہمارے کرتے دھرتوں کی رسی کتنی دراز کی جائے؟ اس سوال کا جواب آئے بغیر، ملک کے بالائی نظم اور طبقے میں مچی تباہ کن دھماچوکڑی کے غالب ماحول میں دوسرا سوال فوراً یہ آگیا کہ ہمیں اپنی خیر مقصود بھی ہے؟ ہر لمحے ملکی بحران کی ذہن میں بسی تشویش میں ٹھک سے جواب آیا، وہ (خیر) نہیں ہے، وگرنہ ملک میں جو اور جتنا ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا۔ اس جواب کی شدت اور حساسیت کا اندازہ قارئین خود کرلیں۔ گویا خیر کی دعا کے سوا اب کوئی چارا بھی تو نہیں سو اللّٰہ خیر کرے، آمین ثم آمین۔ اللّٰہ بہتر جانتا ہے کہ ناچیز کے ڈھیٹ قلم میں ہرحال اور بحران میں مایوسی پھیلانے سے مکمل گریز اور حوصلہ قائم رہا۔ اب اس کوشش کی سکت بھی جواب دے رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب اپنی لکھت میں نصف صدی سے اختیار کئے اس انداز صحافت کو جاری رکھنے سے دروغ گوئی، حقائق سے نظریں چرانے، قارئین کو بے وقوف بنانے اور گند کو تحریر کے تانے بانے میں دبانے کا مجرمانہ سا احساس ہوتا ہے۔ ہم تو خود سچ اور اصل کےفقدان میں کلمہ حق بلند کرنے کے نشے میں بیوقوف بنتے رہے، اب جو پوری قوم کو بنانے والوں کی اپنی طاقت کے بھرم اور اس کے وسیلے کی بند کمرے میں کھلی حقیقت عام ہوئی تو اس تذبذب نے گھنٹوں گھیرے رکھا، واقعی اصلیت یہ ہی تھی جو طاقت و اختیار کے مرکز و محور کے منہ سے اگلی، یا بہ آسانی سے سمجھ نہ آنے والی فنکاری ہے، جسے اس وقت کیوں عام کرنے والوں کی مخصوص محفل میں عام کیا گیا، آنے والے وقت نے تو ثابت کیا کہ جو بیان کیا وہ لغو تھا)۔ پھر یہ سوال کہ (یہ اہم بھی تھا یا ہے) تو موجود گمبھیر سیاسی و اقتصادی صورتحال میں اسے کیوں منکشف کیا گیا؟ اور اب دو ’’شرکائے محفل‘‘ کے عام کرنے کا مقصد کتنا محدود اور کتنا وسیع ہے؟ یقین ہے کہ جواب جو بھی ہوگا، اس سے سوال ہی سوال پید ا ہوں گے۔ یقیناً امور ریاست و حکومت کی کلاسیفائیڈ انفارمیشن کا ڈی کلاسیفائیڈ ہونا بھی ایک قومی ضرورت تو ہوتی ہے۔ جیسے ’’تاریخ کی درست ترتیب‘‘ اور اس سے بھی زیادہ الٹ مقاصد کی گنجائش عشروں پہلے کے خفیہ حالات حاضرہ کے اب عام کرنے میں بھی پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ خاکسار کی ذاتی رائے میں اس کہانی کےسارے بالوں کی کھال اترنی چاہئے لیکن موجود ماحول میں نہیں۔ یہ تو وقت سچ اور جھوٹ کی بحث اور اس سے نکلتی پروپیگنڈے سے زیادہ بحران کے حل پر مذاکرات و قومی مکالمے کا ہے کہ ملکی تاریخ کا بدترین بحران جو پھیلتا پھیلتا وہاں تک پہنچ گیا ہے جہاں فرشتوں اور آزاد پرندوں کے پر بھی جلتے تھے۔ اب ایسا کچھ نہیں۔ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا۔

پاکستانیو! سنو اور سوچو! اس انتہا کے برے اور پیچیدہ وقت میں ہماری سب سے بڑی قومی ضرورت مکمل آشکار نہیں ہے؟ لیکن جھوٹ ، مکاری اور بدنیتی کو پوری طاقت ’’شعوری‘‘ کوشش اور سُرسرمایے سے بزور پروپیگنڈہ اور ابلاغی آلودگی سے اتنا غالب کیا جا رہا ہے کہ روز روشن کی طرح عیاں قومی ضرورت جو پاکستان کوآئی سی یو سے نکال کر وارڈ کمرے میں لانے اور اپنانے کا لازمہ ہے، لیکن اسے دھماچوکڑی اور مکدر دھواں پھیلا کر قوم کی نظروں سے اوجھل کرکے اصل کو چھپانے اور قوم کو کنفیوژ کرنے پر پورا زور لگایا جارہا ہے ۔ قوم بھی کنفیوژ ہونے کے لئے تیار ہے نہ اپنی لی گئی پوزیشن تبدیل کرنے کو۔ یوں اب دولت راج ٹولوں کا اتحاد حسب ضرورت آئین و قانون کو خود تشریح کرکے، اسے عدالتی فیصلوں کی شکل میں لانے اور اس پر عمل درآمد کے لئے تلا ہوا ہے۔ سنگل اپوزیشن پارٹی کے مقابل یہ 13 جماعتی حکومتی اتحاد، جس کا عوام سے اور ان کی مشکل و محال ہوئی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں، جن کا ہے وہ انہیں دبانے، مٹانے اور ان کے خلاف ہر حربہ و ہتھکنڈہ اختیار کرنا جائز ہی نہیں سمجھتے بلکہ فل اسکیل پر استعمال کر رہے ہیں۔ یوں جمہوریت کا راستہ روک کر جگہ جگہ فسطائیت کے کنٹینر کھڑے کئے گئے ہیں۔ملک میں آئینی و سیاسی عمل کو جس طرح ہارس ٹریڈنگ اور عوام دشمن ٹولوں کی متحدہ ادھوری اسمبلی اور لنگڑی بطخ مانند تشکیل حکومت سے روکا گیا ہے، اس کے مقابل آئین پاکستان پر مسلسل حملوں کے باوجود ساڑھے 22 کروڑ عوام کی تائید و حمایت قائم دائم ہے۔اس کے تحت وزیراعظم اور وزراء پابند ہیں کہ وہ متعلقہ اداروں کے لازمی تعاون سے الیکشن کا انعقاد کرائیں۔ نہیں تو وہ آئین اور اسے بنانے والے عوام کے مقابل و متحارب لڑائی کے مرتکب ہیں۔ یہ اپنی لی گئی اس قابل مذمت پوزیشن پر بمعہ (اب غیر آئینی ہوگئی) نگراں حکومتوں کے ساتھ اڑے رہنے کو طریق سیاست و حکومت بنا بیٹھے۔ حالت خوف میں منتظر ہیں کہ انہیں ٹیلر میڈ قانون سازی کے بعد اسی قانون کے سہارے ملنے والی قیادت نصیب ہونے تک آئینی و انتخابی عمل کو معطل رکھا جائے۔ یہ اپنی ہی جماعتوں کے آئین اور اپنے پیشے کی حرمت کا مکمل پاس کرنے والے نامور وکلا کی رہنمائی کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں بلکہ ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر چکے۔ خود عوام چوکس اور منتظر ہیں کہ انہیں عوام کو آئین میں دیئے گئے حق کے مطابق کب اور کیسے حالات میں تشکیل حکومت کے لئے ووٹ کا حق ملتا ہے کہ وہ جلد سے جلد فیصلہ کریں کہ انہوں نے دال روٹی بھی تنگ ہوئی زندگی کو آسان کرنے کے لئے اسی ناکام ترین اور خودغرض حکومت کو چلانا ہے، اکھاڑی حکومت کو واپس لانا ہے یا کوئی اور آپشن آزمانا ہے؟۔

تازہ ترین