(نعیم ہاشمی کی 47 ویں برسی پر خصوصی تحریر)
مجھے بحیثیت ایک مصنف فلم انڈسٹری کے ریگ زار میں قلمکاری سے آبیاری کرتے پچاس برس بیت گئے، آج جب میں اور میری تنہائی زندگی کی کوئی شام اکٹھے گزارنے لگتے ہیں تو ماضی کے بطن سے ایک شخص چپکے سے خراماں خراماں چلتا ہوا میرے پاس آ جاتا ہے۔جھیل سی آنکھیں ، چٹیل میدانوں جیسی پیشانی، میں احتراماً اُٹھنے لگتا ہوں کہ اس ہستی کے لبوں پر رمز اور طنز کے نشترمیں بھیگی ہوئی مسکراہٹ، مجھے بصارت کے دُھندلکوں میں دھکیل کر چند ساعتوں میں ہی میری کمزور بینائی کی حد پھلانگ جاتی ہے۔میں اپنے کرب کے تیشے سے سکوت کی اس برف کو ریزہ ریزہ کر کے اپنی تنہائی سے مخاطب ہوتے ہوئے اسے بتاتا ہوں کہ یہ معتبر و مستند ہستی برصغیر میں فن اداکاری کے امام نعیم ہاشمی ہیں۔ جو اُس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اس کرہ ارض پر ان جیساایک بھی فنکار کمرشلزم کی آندھیوں میں اپنے لہو سے فن کی مشعل جلاتا رہے گا۔ ہاں کمرشلزم کی اندھی دولت اور شہرت کی ہوس وہ دیمک،جو آرٹسٹ کو ایکٹر بننے سے پہلے ہی چاٹ جاتی ہے۔سُن میری تنہائی میرا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے اور اب میں اُس عمر میں ہوں کہ مجھے اپنی عینک کے شیشے ہر برس بدلنے پڑتے ہیں میرا کرب صرف یہ ہے کہ وہ تو تھے نعیم ہاشمی جن کے مطالعہ کی وسعت اتنی زیادہ کہ میں نےانہیں دانشوروں کی محفل میں دیکھا تو اُن کے ہونٹوں سے علم کے لعل برستے دیکھ کر دانشوروں کو حیرت زدہ پایا۔ مشاہدے کی وہ طاقت کہ اپنی آنکھوں کے عدسی شیشے سے علم نجوم کے ماہر دست شناس کو اس کی قسمت کا حال بتا دیا۔ ہر اداکار نے اپنے کردار کے سانچے میں ڈھلنے کےلئے صرف فنی ریاضت کی، لیکن اداکاری کی دُنیا کی جس اکیڈمی کانام نعیم ہاشمی ہے اُنہوں نے اپنے کردار کے لب ولہجے طور اطوار، چال ڈھال ، ذات اور حیثیت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کےلئے روحانی ریاضت کی ، وہ پردہ سمیں پر کسی امام مسجد کے روپ میں آئے تو دیکھنے والے کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ کردار کوئی ایکٹر نہیں، ضرور کوئی امام مسجد ادا کررہا ہے۔دولت اور طاقت کے نشے میں سرشار کسی جاگیردار کے کردار کو نبھایا تو ناظرین نے اس پر نفرت کے تیروں کی بارش کر دی۔ کسی مجبور و بے کس بابل کے روپ میں آیاتو بیٹی سے اس کا لاڈ پیار اور بیچارگی دیکھ کر، صرف ماؤں سے پیارکرنے والی بیٹیوں نے اپنے باپوں سے محبت شروع کردی۔ غرضیکہ بادشاہ، فقیر، جادوگر، پاگل یا جس کردار میں بھی اپنے علم و ہنر سے حقیقت کے رنگ بھرے، اُس کردار کو اَمر کر دیا۔آج فن سے نابلد، مطالعے اور مشاہدے سے محروم، اپنی پستہ قد قابلیت کو چھپانے والاایک قبیلہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شور مچاتا ہے کہ اس فلم انڈسٹری کو اکیڈمیوں کی ضرورت ہے لیکن میرا زاویہ نگاہ کہتا ہے کہ انہیں اکیڈمیوں کی نہیں، دولت کمانے کا نیاذریعہ ڈھونڈنے کےلئے فیکٹریوں کی ضرورت ہے جس نے فن کے اکھاڑے کی مٹی نہیں دیکھی وہ کسی نئے آنے والے کو فن کے داؤ پیچ کیسے سکھائے گا۔نعیم ہاشمی مرحوم نے تو آدھی صدی پہلے اپنے گھر کا تمام اثاثہ بیچ کر”انقلاب کشمیر“ بنا ڈالی اور حکومت وقت نے اس کے دوسرے شوپر ہی اس کو سینما گھروں سے اُتار کر اپنے عتاب سے مرحوم کا سارا خون جگر چوس لیا۔ میں تو رہبروں کے روپ میں اپنے ہی قافلے لوٹنے والے راہ زنوں سے کہوں گا کہ تم تو پہلے ہی فاختاؤں کے ہاتھوں بازوں کاشکار کر رہے ہورحم کرو، آکسیجن ماسک سے مصنوعی سانس لیتی ہوئی اس فلم انڈسٹری پر۔ اس انڈسٹری میں ہنر مندی کے قحط کا رونا کیوں روتے ہو۔ علاؤالدین، اجمل خان، آغا طالش اور ظریف مرحوم کے وارث تم نے لاوارث کر دئیے ہیں۔ آج کے آرٹسٹوں اور آنے والے آرٹسٹوں کو ایکٹر بنانے کےلئے نعیم ہاشمی مرحوم کی ہر فلم ایک نایاب کتاب ہے، کتاب اس لئے کہ ایکٹر کی اداکاری دیکھی نہیں جاتی، صرف پڑھی جاتی ہے، ہر فلم کے کردار میں نعیم ہاشمی مرحوم کی ورسٹائلٹی کردار کی جزئیات سے انصاف پسندی اس کے قالب میں اپنی روح تحلیل کرنا ہی ان کی اداکاری کی معراج تھی۔