ندیم میرا دوست ہے اور اس سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کا ذکر کرتا ہے اور اگر میں اسے اپنے جواب سے مطمئن نہ کر پائوں تو وہ مجھے فوراً طعنہ دیتا ہے کہ تم نے انگلینڈ کے اتنے بڑے تعلیمی ادارے سے گریجویشن کی ہے اس کے باوجود تمہیں یہ معلوم نہیں کہ میرے مسئلے کا حل کیا ہے۔ مثلاً اس کا کہنا ہے کہ اس کے دو بیٹے ہیں وہ ہر وقت ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول پر لڑتے رہتے ہیں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹی وی کے ریموٹ کا کنٹرول اس کے پاس ہو۔ بلکہ چھوٹا بیٹا جواب کافی باتیں کرتا ہے۔ لیکن جب بہت چھوٹا تھا اس نے جو پہلا لفظ بولنا سیکھا وہ ’’موٹ‘‘ یعنی ریمورٹ تھا۔ ندیم کا کہنا ہے کہ میں جب بھی کوئی پسند کا پروگرام یا خبریں سننا چاہوں تو نہیں دیکھ پاتا۔ میں نے اپنے دوست کو اس کا سیدھا سا حل بتایا کہ ایک اور ٹی وی خرید لو۔ تو دوست نے بتایا کہ یہ بھی کرکے دیکھ لیا ہے میں نے کمپیوٹر کی ایل سی ڈی کے ساتھ ڈیوائس لگا کر اسے ٹی وی کی شکل دے لی تھی۔ تو معلوم ہوا کہ بچے تو بچے میری اہلیہ ان سے زیادہ ڈراموں کی شوقین ہے اور جب بھی میں ایل سی ڈی کے سامنے بیٹھتا تو میری اہلیہ نے کسی بھی ڈرامے کی تعریف کرتے ہوئے فوراً اس کا مطلوبہ چینل لگا دینے کی فرمائش کر ڈالی اور وہ ساتھ ساتھ ڈرامہ دیکھتی اور ساتھ ساتھ کسی بھی غمگین سین پر ڈرامے کے کردار سے خوب ہمدردری جتاتی یا مجھے کہتی دیکھا لوگوں کی بیویاں کیسی ہوتی ہیں ۔ندیم کی یہ ساری کتھا اور اس قسم کے مسائل کا واقعی میرے پاس کوئی حل نہ ہوتا۔ لیکن گزشتہ روز میرے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے اس سے بھی عجیب صورتحال بیان کردی ہے اور مجھ سے حل پوچھا ہے اس کا کہنا ہے کہ میری بیوی میرے بیٹے کو تاکید کرتی رہتی ہے کہ جب بھی کھانا کھانے لگو، کتاب پڑھنے لگو یا ہوم ورک کرنے لگو تو بسم اللہ پڑھا کرو۔ میں نے کہا یہ تو بہت ضروری ہے بہت اچھی بات ہے۔ مائیں چاہیں تو اپنے بچوں کو گھر سے ہی نہ صرف اچھے اخلاق سکھا سکتی ہیں بلکہ ان کی بہت بہتر تربیت کرکے اچھی قوم دے سکتی ہیں۔ اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے لیکن مسئلہ کچھ اور ہے۔ میں نے کہا کہ وہ کیا ہے تو دوست نے کیا میرا بیٹا جو ابھی چار سال کا ہے بسم اللہ پڑھنے کی بجائے یہ گانا شروع کردیتاہے۔
ماڑا ہے تو ماڑا سہی یار جو ہے
کج وی ہوے ساڈا پیار جو ہے
کیوں ماہی دا کیوں ڈھولے دا گلہ کراں
میں تا ست واری بسم اللہ کراں
ہائے ست بسم اللہ کراں
یعنی وہ بسم اللہ پڑھنے کی وجہ سے پورا گانا شروع کردیتا ہے۔ کیونکہ اس نے ٹی وی پر یہ گانا اتنی بار سنا ہے کہ اسے جب بھی بسم اللہ پڑھنے کو کہو وہ سمجھتا ہے یہ پورا گانا ضروری ہے۔ واقعی یہ بڑی عجیب صورتحال ہے۔
اس نے مجھے ایک دوسری بات بھی بتائی کہ ایک نامی گرامی سیاست دان ایک پروگرام میں دوسرے سیاست دان کو جو اس شو میں تو موجود نہ تھا لیکن کچھ روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے بارے میں کچھ ریمارکس دیے تھے جس پر شو کے میزبان نے اس سیاسی شخصیت سے تبصرہ کرنے کو کہا تھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ تو ہے ہی ’’بدشکلا‘‘ تو میرا بیٹا پوچھنے لگا بابا یہ بدشکلا کیا ہوتا ہے۔میںنے ڈر کر صرف اتنا ہی کہا کہ بیٹا یہ اچھا لفظ نہیں ہوتا کہ کل نہ جانے بچہ مجھے ہی بدشکلا کہنا شروع کردے ۔اس وقت ہمارے چینلز بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور ان پر ایسے الفاظ جو بچوں کے اخلاق بگھاڑ دیں یا ان کی تربیت کو ٹریک سے اتاردیں تو اس حوالے سے ہم سب کو ملکر ایک پالیسی ترتیب دینی چاہیے اور اس کے لیے جو ذمہ دارادارے ہیں انہیں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور شو کے میزبان یا پروڈیوسر ایسے الفاظ بولنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں جو بحرحال ٹی وی اسکرین پر نہیں بولے جانے چاہیں۔
twitter:@am_nawazish