• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک پھر کہا تصدیق کرالیتے ہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے،پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک پھر کہا تصدیق کروا لیتے ہیں، چیف جسٹس دستیاب ہیں ان سے پوچھے بغیر ہی ا نکوائری کمیشن کیلئے ججوں کا انتخاب کیا گیا، مفادات ٹکراؤ کے مفروضہ پر ججوں کو بنچ سے الگ ہونے کیلئے نہیں کہا جاسکتا، جسٹس منیب نے کہا کہ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں، وزراء نے پریس کانفرنس کر کے پبلک کیا، انہیں برطرف کرنا چاہئے تھا ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس میں مفادات ٹکراؤ کے اصول کا اطلا ق ہوتا ہے، عدالت عظمیٰ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے بنچ پر اعتراضات کی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا بنچ پر اعتراض سے متعلق اٹارنی جنرل کے نکتے کو نوٹ کرلیا اسکا جائزہ لیکر سوچیں گے اور فیصلہ کرینگے ،مفادات کے ٹکراؤ کے مفروضے پر ججوں کو بنچ سے الگ ہونے کیلئے نہیں کہا جاسکتا مقدمے میں سب سے اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے ججوں پر اس طرح اعتراض کرکے مقدمے سے الگ ہونے کیلئے کہا جائیگا تو عدلیہ کی آزادی کہاں جائیگی یہ ایک آئینی ایشو ہے چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی فورم ہے جس کے پاس انتظامی اختیارات ہیں چیف جسٹس دستیاب ہو تو یہ اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا تاہم اگر وہ دستیاب نہ ہو تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر ہوتا ہے اور حلف کا اہتمام بھی کیا جاتا ہےتب جا کر وہ چیف جسٹس کے اختیارات استعمال کرسکتا ہے، چیف جسٹس دستیاب ہیں ان سے پوچھے بغیر ہی ا نکوائری کمیشن کیلئے ججوں کا انتخاب کیا گیا کسی انکوائری کمیشن کیلئے جج دستیاب ہے یا نہیں اسکا فیصلہ چیف جسٹس آفس کا آئینی فورم کریگا،اٹارنی جنرل صاحب انتظامیہ عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے اور عدالتی فیصلے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھے کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کیساتھ کیا خوب انصاف کیا ہے کہ پہلے آڈیوز کو لیکر ججوں کی تضحیک کی گئی انہیں بدنام کیا گیا پھر کہا گیا کہ اب آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں ان آڈیوز کا مقصد کیا تھا؟کس نے پلانٹ کیں کیا حکومت نے میڈیا ہاؤسز اور پیمرا سے معلوم کیا ہے ،حقائق جاننے کیلئےوسائل استعمال کئے ہیں ؟ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کیا یہ درست ہے کہ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں اور وزراء نے پریس کانفرنسز کر کے انہیں پبلک کیا ہے وزیر داخلہ نے آڈیوز لیکس سے متعلق پریس کانفرنس کی ہے کیا یہ انکی وزارت سے متعلقہ معاملہ تھا آڈیوز کی تحقیقات کئے بغیر کیا میڈیا پر انکی تشہیر کی جاسکتی ہے آڈیوز کے درست ہونے یا نہ ہونے سے پہلے ہی حکومت نے پبلک کرکے اپنا فیصلہ سنادیا۔

اہم خبریں سے مزید