• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی نوجوان ڈنکی کا ڈنک جھیلنے کے لیے تیار کیوں رہتے ہیں؟

کراچی ( ڈاکٹرسہیل محمود) یونان کے ساحل پرکشتی کے ذریعے ڈنکی لگانے والے 300 پاکستانیوں کی المناک موت نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی معاشرے میں دولت کی غلط تقسیم اور عدل اجتماعی کے ناکارہ و پیچیدہ نظام کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔اپنے معاشی و شماجی حالات سے چھٹکاراپانےکی خواہش لیے نوجوان رشتہ داروں ،دوستوں اور ایجنٹوں کے دکھائے ہوئے خوابوں کے سرابوں کے پیچھے جانے کیلئے نہ صرف اپنے خاندانوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ایجنٹوں کو تھما دیتے ہیں بلکہ اس سفر میں اپنی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ان نوجوانوں میں زیادہ تروسطی و بالائی پنجاب، کشمیراور ہزارہ کے وہ دیہاتی نوجوان ہوتے ہیں جو اپنے علاقے کے جاگیردار کے تسلط سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاکر باہر جاکر سرمایہ اکٹھا کرنے اورکم ازکم معاشی لحاظ سے اپنے علاقے کے چوہدری کے برابر آنے کیلئے یہ خطرہ مول لیتے ہیں۔ ایجنٹوں کا نیٹ ورک ملکی اور غیر ملکی کارندوں پر مشتمل ہوتا ہے جو جعلی دستاویزات بنانے سے لیکر ان نوجوانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنےتک کسی اخلاقی و قانونی بندش کی پرواہ نہیں کرتے۔ ڈنکی لگانے والوں کو سب سے پہلا خطرہ پاک ایران بارڈر پر پیش آتا ہے جہاں دونوں ممالک کے سرحدی محافظ ان کی سرکوبی کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جو لوگ بچ کر غیر قانونی طریقے سے ایران پہنچ جاتے ہیں وہ ترکی کی سرحد پار کرتے ہوئے ترک فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں جو ترکی میں داخل ہوجاتے ہیں وہ یونان کی سرحد اور اسکے پانیوں میں زندگیاں گنوا بیٹھتے ہیں، کچھ عرصے سے ایران اور ترکی نے اپنی سرحدوں پر غیر قانونی آمدو رفت روکنے کیلئے خصوصی انتظامات کیے ہیں تو ایجنٹوں نے خانہ جنگی کے شکار لیبیا اور چاڈ جیسی افریقی ریاستوں کو اپنا بیس کیمپ بنا لیا ہے اور یہاں سے ہوا بھری کشتیوں کےذریعے بحرروم کی طوفانی موجوں سے گزر کریونان اور اٹلی پہنچانے کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ان یورپی ریاستوں کی بحریہ اور سرحدی محافظ اپنی سمندری سرحدوں کی حفاظت پر مستعد ہوتے ہیں اور بیشتر اوقات ان کشتیوں کی نشاندہی ہوجاتی ہے جنہیں واپس جانے کیلئے کہاجاتا ہے مگر وہ سمندر میں ہی کھڑی رہتی ہیں اور ایجنٹ انہیں بے یارومددگار بحرروم کی خطرناک موجوں کے حوالے کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔یونان کے ساحل پر رشتے داروں، دوستوں کے دکھائے ہوخوشحالی اورآزادی کے سراب کے پیچھے جانے والے ڈنکی لگاتے پاکستانی شہری صرف اپنی جانیں ہی اس سفر میں داؤ پر نہیں لگاتے بلکہ اپنی اور اپنے خاندان کی محنت کی جمع پونجی ایجنٹوں پرلٹابیٹھتے ہیں۔ان ایجنٹوں کو بسااوقات ملکی ایجنسیوں کی اسپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے۔ غیرملکی ایئرپورٹوں پران ایجنٹوں کی جانب سے دی گئی جعلی دستاویزات کی وجہ سے نکال باہر کیاجاتا ہے۔ ایران ترکی اور یونان کی سرحدوں پر جانوں کو خطرہ ہوتا ہےاور سرحد کے دشوارگزار راستوں پر سرحدی محافظ ہی مار دیتے ہیں۔ ان راستوں پر جابجا انسانی ڈھانچے پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کشتیوں پر گنجائش سے زیادہ افراد سوار کرائے جاتے ہیں۔ کھانا پینا نہ ہونے کے باعث مسلسل بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ یورپی ممالک میں یہ غیر قانونی تارکین وطن پہنچ بھی جائیں تو غلامی سے بدتر زندگی سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے چند ہی شہری اپنے پاؤں پر کھڑا ہوپاتے ہیں۔ان غیر قانونی تارکین وطن میں سےہر ایک کی الگ کہانی ہے۔
اہم خبریں سے مزید