• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجئے جناب عید الاضحی بھی آگئی ۔گو کہ عید الاضحی ہمیں قربانی کا بہت ہی فصیح اور بلیغ پیغام دیتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس پیغام پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارا مخاطب بھی ایسے افراد ہی ہیں جو اس مقدس تہوار کو نمود و نمائش کا ذریعہ بنا کر اس کے تقدس کو پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم عرصہ دراز سے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ شاید ان افراد کو اس فصیح پیغام کا اندازہ ہی نہیں مگر اب ہمیں اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہو گیا ہے کہ ان افراد کو اسکا اور اک تو ہے مگر خود نمائی اور انا پرستی کا ریلا اس پیغام پر عمل کرنے کی صلاحیتوں کو بہا کر لے جاتا ہے چنانچہ اس سیلابی صورتحال میں انکو کوئی صائب مشورہ دینا وقت کا زیاں ہوگا۔ ویسے بھی جب خدا ہی نے انکی تعمیری صلاحیتوں کو منجمد کر دیا ہے تو یہ فرض ہم پرعائد ہوتا ہے کہ ہم انکے اس اخلاقی دیوالیہ پن میں انکی مدد کریں اور انہیں ایسے مشورے دیں جو انکی تباہی اور بربادی سے بچائو میں ممدو معاون ثابت ہوں۔ چنانچہ کچھ مفت مگر مفید مشورے حاضر ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد صرف عید الفطر کے موقع پر نئے ملبوسات خریدتے ہیں مگر چونکہ آپ کا تعلق صاحب ثروت طبقہ سے ہے اور اگر نہیں ہے تو آپ اس طبقے میں شامل ہونے کو بے چین ہیں، اسلئے آپ عید الفطر کی طرح عیدالاضحی کے موقع پر بھی مہنگے ترین لباس خریدیں اور ان ملبوسات کی خریداری سے قبل مہنگائی میں اضافے کا بار بار رونا روتے رہیں۔ جب آپ مہنگائی ثابت کرنے کے بعد مہنگا ترین لباس خریدیں گے تو آپ اپنی قوت خرید کا اپنے عزیز واقارب کو اندازہ کرانے میں کامیاب ہو جائینگے، ویسے بھی یہ کوئی معیوب عمل نہیں ہے ہم سال بھر مہنگائی کا رونا روتے ہیں مگر کسی تہوار یا کسی تقریب پر بے پناہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ اگلا مرحلہ نماز عید کی ادائیگی کا ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ نماز عید ہمیشہ شہر کے امرا اور اعلیٰ سرکاری افسران کے ساتھ ادا کریں۔ اس سے دنیا اور عاقبت دونوں سنور نے کا امکان ہے نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد اس شخصیت کی طرف لپک کر جائیں جس کے ارد گرد عید ملنے والوں کا ہجوم زیادہ ہو ۔ فورا ًبغل گیر ہو جا ئیں آپ کو عید ملنے کی والوں کی تعداد سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ اس ہجوم میں طاقتور اور اعلیٰ سرکاری شخصیت کون ہے ۔ اب آخری مرحلہ قربانی کا ہے۔ اس باب میں بھی چندا ہم مشورے پیش خدمت ہیں۔ قوی امکان یہ ہے کہ آپ کی سال بھر کی نمود و نمائش کی وارداتوں کے نقش آپکے عزیزو اقارب کے ذہنوں پر اب بھی نقش ہوں مگر چونکہ ان اثرات کو آپ دیر پا بنانا چاہتے ہیں اور یہ خطرہ بھی مول نہیںلینا چاہتے کہ یہ نقوش ماند پڑ جائیں اسلئے قربانی کے ذریعے نمود و نمائش کا طریقہ کا روہی اختیار کریں جو شہر کے اکثر پوش علاقوں میں عرصہ دراز سے رائج ہے اور وہ یہ ہے کہ قربانی بہت مہنگے جانور کی کیجئے، یہ غلطی ہرگز نہ کیجئے کہ ان جانوروں کو گھر کی چار دیواری میں یا گھر کی چھت پر رکھیں اگر ایسا کیا تو آپکی قربانی کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا چنانچہ ان جانوروں کو گھر کے باہر ایک شامیانہ لگا کے رکھیں اور اس شامیانے کو سامنے سے کھلا رکھیں تا کہ آپ کو کم از کم یہ تو اطمینان بلکہ یقین ہو جائے کہ عزیز واقارب اور پڑوسیوں نے یہ قربانی قبول کرلی ہے۔ اگر ایک باور دی مسلح گارڈ اس شامیانے کے آگے بٹھادیا جائے تو اس سے آپ کی شخصیت کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔ اگر قربانی کا یہ جانور رات بھر شور مچاتا رہے اور محلے والوں کو ایک پل بھی سونے نہ دے تو یقین کیجئے آپکے محلے والے کسی غلط فہمی کی بنا پر آپ کو دعا بھی دے سکتے ہیں ۔ قربانی ہمیشہ گھر کے سامنے کروائیں اور جب تک یہ اطمینان نہ کر لیں کہ تمام محلے والوں اور عزیز واقارب کو آپ کی طرف سے کی گئی قربانی کا علم ہو گیا ہے آلائش دروازے پر ہی پڑی رہنے دیں۔ آخری اور اہم ترین مشورہ یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم میں بڑی احتیاط سے کام لیں ۔ آپ کی ذراسی غفلت سے یہ گوشت کسی غریب کے یا کسی ایسے گھر میں پہنچ سکتا ہے جہاں کے مکینوں نے عرصہ دراز سے گوشت کھا یا ہی نہ ہو۔ غریبوں اور یتیموں سے آپ کا کیا تعلق ہے آپ تو مالی دہشت گردی کی وارداتوں میں اتنے مصروف ہیں کہ آپ کے پاس یہ غور کرنے کا وقت ہے نہ فرصت کہ عید قرباں ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اخلاقی قدروں، معاشرتی انصاف قائم کرنے کیلئے بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے ۔ قارئین یقیناً ان مشوروں سے بعض افراد کے ضمیر کی نیند حرام تو ضرور ہوئی ہوگی مگر ان افراد کے ضمیر کو جھنجھوڑنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی مردہ ضمیروں میں جان ڈالنے کیلئے ہی تو دی تھی۔

تازہ ترین