• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب ہمیں یہ یقین کرنا ہوگا کہ امیری اور غریبی کا امتیاز صرف قدرت کی طرف سے ہے۔اس لئے نہ غریبی کوئی لعنت ہے نا ہی امیری کوئی طعنہ۔ ابھی تازہ ترین دو واقعات ہوئے ہیں۔ ایک میں سات ہزار ڈالر فی کس خرچ ہوئے اور تعداد سینکڑوں میں تھی دوسری طرف ڈھائی لاکھ ڈالر اور تعداد پانچ یعنی اکائی میں تھی۔ سات ہزار ڈالرز خرچ کرنے والوں نے غیرقانونی اور گھر والوں کو مکمل معلومات فراہم کئے بغیر سفر اختیار کیا جب کہ دوسری طرف ڈھائی لاکھ ڈالرز خرچ کرنے والے ساری قانونی تقاضے پورے کرکے گھر والوں کو تمام معلومات فراہم کر کے روانہ ہوئے۔ دونوں گروپوں کے لوگ لقمہ اجل بنے، یعنی پانی میں ڈوب گئے۔ لیکن غیر قانونی طور پر جانے والوں کے لئے لوگوں کی ہمدردیاں ہیں کہ وہ روزگار کی تلاش میں گئے جب کہ قانونی طریقہ استعمال کرنے والوں کو پیسہ کی زیادتی اور پیسے کی بربادی کا مسلسل طعنہ دیا جارہا ہے۔ ان میں سے دو افراد جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ان کے گروپ کا بزنس پاکستان میں سب سے بڑا ہے اور یہ the best employer in Pakistan کہلاتے ہیں۔ جہاں ملازمین کا بہترین خیال رکھا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں اس گروپ کا بڑا حصہ ہے۔ اگر کوئی بزنس مین منافع کمانے کے بعد اپنے تمام ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد اگر اپنی تفریح پہ ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ کر سکتا ہے تو اس کا مثبت پہلو بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان میں کما کر، مکمل ٹیکس دے کر، ملازمین کو مطمئین کرکے، کئی فلاحی کاموں میں پیسہ لگا کر اگر کوئی پاکستان سے باہر اتنی بڑی رقم خرچ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ "پاکستان میں بہت کچھ رکھا ہے ، یہاں کمانے کے بہترین مواقع ہیں، یہ بڑا زرخیز ملک ہے ،لوگوں کو سمیٹتا ہے"۔صرف سوچ بدلنے اور نظریہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف سات ہزار ڈالر جو کہ پاکستانی روپے میں صرف اکیس لاکھ روپے بنتے ہیں کیا کسی غریب کے لئے جمع کرنا آسان ہے؟ یقینا نہیں یہ غریبوں کے لئے ممکن نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو بچپن سے بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا، بہترین مستقبل صرف پاکستان سے باہر ہے، یہاں روزگار کے مواقع نہیں ہیں، بہتر یہ ہے کہ سنہرے مستقبل کے لئے پاکستان سے باہر چلے جائو۔ جو بچے یہ سن سن کر پرورش پاتے ہیں تو جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی ماں باپ سے پیسے طلب کرتے ہیں اور قانونی اور غیرقانونی دونوں طریقوں سے ملک کو خیرباد کہتے ہیں۔ قانونی طریقہ وہ اختیار کرتے ہیں جن کے پاس "بہترین تعلیم یا بہترین پیسہ" ہوتا ہے جب کہ معمولی تعلیم اور اور نسبتا کم پیسے (غریب نہیں) والے غیرقانونی طور جاتے ہیں کیوں کہ یہ یورپ جاکے سنہرے مستقبل کے لئے پہلے کسی پیڑول پمپ پر، کسی اسٹور پر، کسی فلیٹ پر چوکیداری کا کام کرتے ہیں جس میں بیت الخلاء (bathrooms) کی صفائی بھی شامل ہے۔ فقیروں کے محلے میں چھپ چھپ کے رہتے ہیں کیوں کہ work permit ان کے پاس نہیں ہوتا۔ بڑی مشکلوں سے ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا پاتے ہیں۔ کیوں کہ گھر والوں کو بھی تو کچھ بھیجنا ہوتا ہے۔ ہاں کپڑے جینز اور جیکٹ ہی پہنتے ہیں جو تصویروں میں امیری کا ہی تاثر دیتے ہیں۔ کبھی ان تارکین وطن سے پوچھیں کہ وہ کتنی مشکل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ان سے بات کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے دکھ میں ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کتنی مشکل زندگی گزار رہے ہیں اور کتنی مشقت سے پیسہ کماتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے اپنی سوچ کا زاویہ بدل دیجئے پاکستان اتنا بھی برا نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں مثبت سوچ اپنائیں اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان میں بہت کچھ رکھا ہے اور ہمارا کوئی دشمن نہیں ہم خود اپنے دشمن ہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین