• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصہ قومِ ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا

شہر ’’حجر‘‘ کی رنگین ،مدہوش اور پُرتعیش رات کا ایک پہر گزر چکا تھا۔ موج مستی، رقص و سُرود، شراب و کباب کی محفلیں عروج پر تھیں۔ محلّات سے بازاروں تک، گھروں سے گلی کُوچوں تک، صحرائوں سے میدانوں تک غیراخلاقی حرکات اور مکروہ دھندوں نے احترامِ آدمیت کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی تھیں۔ مال و دولت کی فراوانی اور نعمتِ خداوندی کی کثرت نے شہر کے باسیوں کو اللہ سے غافل کردیا تھا اور شیطان اُن کی حیوانی خصلتوں پر قابض ہوچکا تھا۔ یہ اُن کا روز و شب کا معمول تھا، حکم عدولی اور نافرمانی اُن کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ 

ہاں، اگر کوئی نئی بات تھی، تو وہ اللہ کے نبی، حضرت صالح علیہ السلام کا یہ فرمان تھا کہ ’’اے میری قوم! تمہارے پاس عیش و عشرت کے لیے صرف تین دن بچے ہیں۔ اس کے بعد تم پر سخت ترین عذاب آجائے گا۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت65)۔ قوم کی اکثریت نے اپنے نبی ؑ کی اس بات کو بھی ماضی کی طرح ہنسی مذاق اور طنزو استہزاء میں اُڑا دیا۔ تاہم، اُن میں سے کچھ ایسے ضرور تھے، جو اپنے نبی ؑکی پیش گوئی سُن کر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوگئے تھے، مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ وقت کا بے رحم پہیّہ نہایت تیزی سے ایک بھیانک صبح کی جانب رواں دواں تھا۔ رات بھر کی موج مستی سے تھکے ہارے لوگ اپنے اپنے گھرجانے کو تھے کہ اچانک انھیں ایک بڑے زور کی چنگھاڑ کی صورت میں عذاب نے آپکڑا۔ (سورئہ ہود،67)۔ 

اس زور دار سخت ترین چیخ نے اُن سب کے کانوں کے پردے پھاڑ دیے اور اُن کے دل پارہ پارہ ہوگئے۔ ابھی چنگھاڑ کا عذاب ختم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ’’ایک شدید ترین زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (سورۃ الاعراف، آیت 78)۔ اور قومِ ثمود کو اللہ نے یوں نیست و نابود کردیا کہ گویا وہاں وہ کبھی آباد ہی نہ تھے۔ (سورئہ ہود، آیت68)۔ یوں اللہ تعالیٰ نے نافرمان اور متکبّر قومِ ثمود کو ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بناکر رہتی دنیا تک کے مغرور، بداعمال اور نافرمان لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی تمہارے لیے سخت ترین عذاب موجود ہے۔

ثمود کی بستی اور حضورؐ کا حکم: حضرت ابنِ عمرؓ اور حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ غزوئہ تبوک کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (قومِ ثمود کی بستی) میں پڑائو کیا، تو صحابہؓ نے وہاں کے کنوئوں کا پانی اپنے برتنوں میں بھرلیا اور اسی سے آٹا بھی گوندھ لیا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے برتنوں میں بھرنے والا پانی انڈیل دیں اور گوندھا ہوا آٹا جانوروں کو کھلا دیں۔ 

پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کنویں سے پانی لیں، جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ (صحیح بخاری،3378-3379) قومِ ثمود جیسی عظیم الشّان قوم کی تباہی و بربادی سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا کیا تعلق تھا؟ اس پر بات کرنے سے پہلے اس بدنصیب قوم کے مختصر احوال سے واقفیت، موجودہ دور کے بنی نوع انسان کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں کی روشنی میں ضروری ہے۔ اے کاش! ہم سب اس واقعے سے کچھ عبرت حاصل کرسکیں۔

بے شمار نعمتوں سے مالا مال سرزمین:سرسبز و شاداب مرغزاروں، ہَرے بَھرے لہلہاتے کھیت کھلیانوں، پھلوں، پھولوں سے لدے باغوں کی سرزمین، کرئہ ارض پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال، حسین و جمیل جنّت نظیر، جس کے باسی اپنے مضبوط وتوانا، قوت و طاقت سے بھرپور طویل القامت جسم و جان کی بدولت دنیا میں منفرد مقام کے حامل، سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر وسیع و عریض عالی شان محلّات تعمیر کرنے کے ماہر اور فنِ سنگ تراشی میں یدِطولیٰ رکھنے والے، اپنے مال و دولت، شان و شوکت، جاہ و جلال، خوش حال اور شاہانہ طرزِ زندگی اور دنیا کی حاصل شدہ ہر نعمت کے سبب حد درجہ خود سر، سرکش و متکبّر ہوچکے تھے۔ 

پہاڑوں کے اندر قلعہ نما محفوظ محلات اُن کی وہ پناہ گاہیں تھیں، جہاں ہمیشہ کے لیے رہنے کے خوش کُن تصوّرات نے اُن کی عقلوں پر کفر کا پردہ ڈال دیا تھا۔ دراصل دولت و ثروت کا غلبہ، لامحدود مراعات اور آسائشیں شیطان کا کام آسان کردیتی ہیں اور قومیں اللہ اور یومِ آخرت سے غافل ہوکر اپنے لیے خود تباہی و بربادی کا راستہ منتخب کرلیتی ہیں اور قومِ ثمود بھی اسی راستے پر گام زن تھی۔

دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو:قدیم جزیرۃ العرب کے شمال مغربی علاقے میں واقع وادی القریٰ میں قومِ ثمود کی حکم رانی تھی، جب کہ ان کے مدِّمقابل جنوب مشرقی عرب پر قومِ عاد قابض تھی۔ قومِ عاد اور قومِ ثمود کا تعلق حضرت نوح ؑکے صاحب زادے، سام بن نوح علیہ السلام سے ہے۔ یہ دونوں قومیں ایک ہی دادا کی اولاد اور دو شخصیات کے نام سے موسوم ہیں۔ طوفانِ نوح ؑکے بعد قومِ عاد ہی وہ قوم تھی، جس نے سب سے پہلے بُتوں کو پوجنا شروع کیا۔ 

اُن کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام تھے، جن کی نافرمانی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد پر تیز آندھی کا عذاب مسلّط کیا اور پوری قوم غرق ہوگئی۔ حجازِ مقدّس سے شام جانے والے قدیم راستے پر ایک شہر آباد تھا، جس کا نام ’’حجر‘‘ تھا، یہ قومِ ثمود کا دارالحکومت تھا۔ آج کل یہ شہر ’’مدائن صالح ؑ‘‘ کہلاتا ہے۔ مدائن صالح کے قدیم علاقوں میں ایک علاقہ ’’العلاء‘‘ ہے۔ مدینۂ منورہ سے تبوک کی جانب سفر کرتے ہوئے بڑی شاہ راہ پر تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر کی مسافت پر یہ علاقہ آج بھی آباد اور بہت پُررونق ہے۔ العلاء شہر ہی سے وادئ ثمود میں داخلے کا راستہ ہے۔ یہاں ایک جدید ریلوے اسٹیشن بھی ہے، جس کا نام ’’مدائن صالح اسٹیشن‘‘ ہے۔ وادئ ثمود کا یہ لق و دق صحرا 18سے 20مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ 

جہاں ہزاروں ایکڑ رقبے پر وہ خُوب صُورت تاریخی عمارات ہیں، جنہیں قومِ ثمود نے سنگلاخ سُرخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر تراشا تھا۔ دوسری جانب نرم میدانی علاقوں میں موسمِ گرما کے لیے عالی شان محلات کے کھنڈرات ہیں۔ ایک ہزار سال قبلِ مسیح کے اُن عظیم فن پاروں کو دیکھ کر آج جدید دورِ کے ماہرِ تعمیرات بھی انگشتِ بدنداں رہ جاتے ہیں۔ سُرخ پہاڑوں کے اندر اس شہرِ خموشاں کی ہزاروں ویران تاریخی عمارتیں اپنے مکینوں کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں کے سبب عذابِ الٰہی کے ذریعے ہونے والی تباہی کی چشم دید گواہ ہیں اور دَورِ جدید کی نافرمان قوموں کو یہ پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ ’’دیکھو مجھے، جودیدئہ عبرت نگاہ ہو۔‘‘

نبی ؑ سے معجزے کی فرمائش: قومِ ثمود ہی میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک خدا ترس اور نیک انسان کو نبوت کے منصب پر فائز فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’اور ہم نے ثمود کی طرف اُن کے بھائی صالح ؑکو بھیجا۔‘‘ (سورۃ الاعراف،73)۔ حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے دن رات کوششیں کرتے رہے۔ ’’اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو۔ اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اُسی نے تمہیں پیدا کیا۔ 

اُس سے مغفرت مانگو اور اُس کے آگے توبہ کرو۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت61)۔ اس کے جواب میں اُن کی قوم کہتی۔ ’’اے صالح ؑ! تم ہمیں ان چیزوں سے روکتے ہو، جنھیں ہمارے بزرگ پُوجتے چلے آئے ہیں، اور جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو، اُس میں ہمیں قوی شبہ ہے۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت 62)۔ حضرت صالح علیہ السلام جوانی کے زمانے سے قوم کو دین کی دعوت دیتے ہوئے بوڑھے ہوگئے۔

چناں چہ ایک دن قوم کے سرداروں نے حضرت صالح ؑسے کہا کہ ’’اگر تم واقعی اللہ کے سچّے رسول ہو، تو ہماری فلاں پہاڑی، جس کا نام کاتبہ ہے، اس کے اندر سے ایک ایسی اونٹنی نکال دو، جو دس ماہ کی گابھن اور قوی و تندرست ہو۔‘‘ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وہ کہنے لگے ’’تم جادو زدہ ہو، تم اور کچھ نہیں، بس ہماری ہی طرح کے آدمی ہو، اگر سچّے ہو، تو کوئی نشانی پیش کرو۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیات153-154)۔ یعنی انہوں نے اپنے نبی ؑسے معجزے کی فرمائش کردی۔

ناقۃ اللہ کا ظہور: حضرت صالح علیہ السلام نے اُن سے عہد لیا کہ اگر میں تمہارا یہ مطالبہ پورا کردوں، تو پھر تو تم سب ایمان لے آئوگے؟ جب سب نے عہد کرلیا، تو حضرت صالح علیہ السلام، اللہ کے حضور سربسجود ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے نبی ؑکی دعا قبول فرمائی۔ اچانک سامنے کی پہاڑی میں جنبش پیدا ہوئی، چٹان کے دو ٹکڑے ہوئے اور اُس میں سے ایک خُوب صُورت، تندرست و توانا گابھن اونٹنی نمودار ہوئی۔پوری قوم نے اس حیرت انگیز معجزے کو اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا، لیکن قوم کے ایک سردار جندع بن عمرو اور اُس کے چند ساتھیوں کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا۔ 

اس موقعے پر حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا۔ ’’اے میری قوم! یہ ناقۃ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی ہے، جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے۔ اب تم اِسے اللہ کی زمین میں چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کا ایذا نہ پہنچائو، ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑلے گا۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت64) اونٹنی اور اس کا نومولود بچّہ سارا دن نخلستان میں چَرتے رہتے۔ قوم سیر ہوکر اونٹنی کا ددھ پیتی، لیکن وہ کم نہ ہوتا۔ 

حضرت صالح علیہ السلام نے کنویں کے پانی کو بھی تقسیم کردیا تھا۔ ایک دن اونٹنی پانی پیتی تھی اور ایک دن ثمود کے لوگ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’صالح ؑنے اپنی قوم سے کہا، ایک دن اس اونٹنی کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک معیّن روز تمہاری باری، لیکن اسے کوئی تکلیف نہ دینا۔ نہیں تو تمہیں سخت عذاب آپکڑے گا۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیات 155-156)۔

اونٹنی کو جان سے مارنے کا فیصلہ:اللہ تعالیٰ قرآن ِمجید میں فرماتا ہے۔ ’’(اے صالح ؑ!) ہم نے اونٹنی کو اُن کی آزمائش کے لیے بھیجا ہے۔ تو تم انتظار کرو اور صبر کرو۔‘‘ (سورۃالقمر، آیت27)۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ قوم کو اونٹنی کی موجودگی کھٹکنے لگی۔ دن بھر آزادی سے گھومنا پھرنا اور اپنی باری پر ایک ہی سانس میں پورے کنویں کا پانی پی جانا، اُن کے لیے پریشان کُن تھا۔ چناں چہ شیطان کے اکُسانے پر انہوں نے اونٹنی کو جان سے مارنے کا فیصلہ کرلیا۔ 

قوم کے سرداروں نے یہ کام دو حسین ترین خواتین کو سونپا۔ اُن عورتوں نے شراب و شباب کے رسیا، دو اوباش نوجوانوں مصرع اور قدار کو اپنی خُوب صُورت بچیوں سے شادی کے عوض ناقۃ اللہ کے قتل پر آمادہ کیا۔ جن کے ساتھ مزید سات اوباش نوجوان بھی شامل ہوگئے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’شہر میں نو افراد کی ایک جماعت تھی، جو ملک بھر میں فساد مچاتے پھرتے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔‘‘ (سورئہ نمل، آیت 48)-

ناقۃ اللہ کا قتل: پھر ایک دن ان شقی القلب 9افراد کی جماعت اونٹنی کے انتظار میں کنویں کے پاس گھات لگاکر بیٹھ گئی، جب کہ قوم کے لوگ اللہ کے عذاب کے ڈر سے چُھپ کر یہ دل خراش منظر دیکھنے لگے۔ حسبِ معمول اونٹنی پانی پینے کے لیے کنویں کے قریب آئی، تو مصرع نامی شخص نے کمان سیدھی کی اور اونٹنی پر تیر چلا دیا، جو اس کی پنڈلی میں پیوست ہوا اور ٹانگ سے خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ یہ منظر دیکھ کر باقی لوگ خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گئے۔ 

اس موقعے پر اُن دونوں عورتوں نے مَردوں کو لعن طعن شروع کردی، جس پر قدار بن سالف آگے بڑھا اور تلوار کے ایک بھرپور وار سے اونٹنی کی کونچیں (پچھلے پائوں کے اوپر کا حصّہ) کاٹ ڈالیں۔ شدید زخمی اونٹنی لاچار ہوکر زمین پر گرپڑی۔گرتے گرتے اس نے ایک زوردار چیخ ماری تاکہ اس کا بچّہ (جہاں کہیں بھی ہو، خبردار ہوکر ظالموں کے چنگل سے بھاگ جائے) محتاط ہوجائے۔ پھر ظالم قدار نے اونٹنی کے سینے پر نیزہ مارنے کے بعد اُسے ذبح کر ڈالا۔ اُدھر اُس کا بچّہ بھاگتا ہوا اونچے پہاڑ پر چڑھا اور چیخیں مارتا ہوا غائب ہوگیا۔ 

اونٹنی کے قتل کے ارتکاب کے بعد قومِ ثمود کے اُن نو افراد نے حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور اُسی رات حضرت صالح علیہ السلام کی گزرگاہ کے ساتھ ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چُھپ کر بیٹھ گئے تاکہ حضرت صالح ؑوہاں سے گزریں، تو اُنہیں قتل کردیں، لیکن اُس رات پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر اس طرح برسے کہ وہ سب ہلاک ہوگئے۔ دوسرے دن جب لوگوں کا گزر ہوا، تو دیکھا کہ وہ نو افراد بڑے بڑے پتھروں کے نیچے مرے پڑے ہیں۔ اس طرح وہ سفّاک لوگ اپنی قوم کے تباہ و برباد ہونے سے تین دن پہلے ہی جہنّم رسید ہوگئے۔ (قصص الانبیاء ابنِ کثیر،148)۔

اللہ کا عذاب اور سامانِ عبرت: اونٹنی کے قتل کے بعد جب کوئی عذاب نازل نہ ہوا، تو قوم نے خوشی کا جشن مناتے ہوئے کہا۔ ’’صالح ؑ! جس چیز سے تم ہمیں ڈراتے تھے۔ اگر تم (اللہ کے) پیغمبر ہو، تو اُس (عذاب) کو ہم پر لے آئو۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 77)۔ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’اے قوم! اب تمہارے پاس صرف تین دن کی مہلت ہے، اور لو، عذاب کی علامات بھی سُن لو۔ کل جمعرات کے روز تم سب کے چہرے سخت زرد ہوجائیں گے۔ پرسوں یعنی جمعے کے روز تم سب کے چہرے سخت سُرخ ہوجائیں گے اور ہفتے کو سب کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔اور وہ تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ 

ان تینوں پیش گوئیوں کے سچ ہونے کے باوجود وہ قوم چہروں کی رنگت کی تبدیلی کو معمولی جادوئی اثرات سمجھتے ہوئے معمول کے مطابق عیش و عشرت میں مصروف رہی، یہاں تک کہ چوتھے دن کی صبح اوپر سے سخت ہیبت ناک چنگھاڑ اور زمین کے شدید زلزلے نے ان سب کو آناً فاناً جہنم رسید کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی بستیوں کو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کدہ بنادیا۔ (معارف القرآن 611/3)۔