• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سامری کی پیدائش و پرورش: شاہی نجومی کی پیش گوئی نے تختِ شاہی پر براجمان فرعون کے بدصُورت چہرے کو مزید بھیانک کردیا تھا۔ درباری و مصاحب ہاتھ باندھے، سرجُھکائے بادشاہ کے کسی خوف ناک حکم کے منتظر تھے کہ اچانک پُرہیبت دربار کے وحشت زدہ ماحول میں فرعون کی غضب ناک آواز گونجی ’’بنی اسرائیل کے تمام نوزائیدہ اور پیدا ہونے والے لڑکوں کو ذبح کردیا جائے، کوئی لڑکا زندہ باقی نہ بچے۔‘‘ حکمِ شاہی کی فوری تعمیل کے لیے دریاریوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ 

اسرائیلی بستیوں کے گلی کُوچوں میں فرعونی سپاہی گھر گھر تلاشی کے دوران معصوم بچّوں کو ذبح کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب بنی اسرائیل کی بستی میں دو بچّے پیدا ہوئے، اُن میں سے ایک کی ماں نے اللہ کے حکم پر اپنے لختِ جگر کو ایک ٹوکری میں لٹا کر دریا کی موجوں کے حوالے کردیا اور یوں وہ بچّہ فرعون کے محل کے اندر پہنچ گیا۔ دوسرے بچّے کی ماں نے فرعونی سپاہیوں کے ڈر سے بچّے کو پہاڑ کے ایک غار میں بند کردیا۔ حُسنِ اتفاق دونوں بچّوں کا نام موسیٰ تھا۔ 

فرعون کے محل میں پہنچنے والا بچّہ، موسیٰ بن عمران علیہ السلام تھے، جن کی پرورش محل کے عالی شان ماحول میں فرعون کے ہاتھوں ہوئی، جب کہ دوسرے بچّے کا نام موسیٰ بن ظفر تھا۔ پہاڑ کے بند غار میں اُس کی پرورش حضرت جبرائیل امین ؑ نے کی۔ اللہ کے دشمن، فرعون کی سرپرستی میں پلنے بڑھنے والا بچّہ نبوت کے عظیم منصب پر فائز ہوا، جب کہ روح الامین حضرت جبرئیل کے ہاتھوں پروان چڑھنے والا بچّہ بدی کی علامت بن کر تاریخ میں بُرے الفاظ سے یاد کیا جانے لگا۔

سامری کون تھا؟: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’مشہور یہ ہے کہ سامری کا نام موسیٰ بن ظفر تھا۔ ابنِ جریرؒ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ سامری پیدا ہوا، تو فرعون کی طرف سے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کے حکم پر عمل درآمد جاری تھا۔ اس کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعونی سپاہی اُسے بھی قتل کردیں گے، لہٰذا بچّے کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے کی مصیبت سے یہ بہتر سمجھا کہ اسے جنگل کے ایک غار میں رکھ کر اوپر سے بند کردے۔ (کبھی کبھی اس کی خبر گیری کرتی ہوگی) اُدھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل امین ؑ کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کردیا۔ 

وہ اپنی ایک انگلی پر شہد، ایک پر مکھن، ایک پر دودھ لاتے اور اس بچّے کو چٹا دیتے، یہاں تک کہ وہ غار ہی میں پَل کر بڑا ہوگیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ نہ صرف خود بلکہ بنی اسرائیل کو بھی کفر میں مبتلا کردیا۔ پھر قہرِ الٰہی میں گرفتار ہوا۔ بعض روایت کے مطابق سامری آلِ فرعون کا قبطی تھا، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پڑوس میں رہتا تھا اور ان پر ایمان لے آیا تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے، تو وہ بھی ساتھ ہولیا۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی کے ایک قبیلے سامرہ کا رئیس تھا۔ قبیلۂ سامرہ ملکِ شام کا معروف قبیلہ ہے۔ 

حضرت سعید بن جبیرؒ نے فرمایا کہ سامری، فارسی تھا اور کرمان کا رہنے والا تھا۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا، جو گائے کی پرستش کرنے والی تھی۔ وہ کسی طرح سے مصر پہنچ گیا تھا اور بظاہر دینِ بنی اسرائیل میں داخل ہوگیا تھا، مگر اس کے دل میں نفاق تھا۔ (قرطبی) حاشیہ قرطبی میں ہے کہ سامری ہندوستان کا ہندو تھا، جو گائے کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لایا، لیکن بعدازاں کفر کی طرف لوٹ گیا۔ یا پہلے ہی سے اس نے منافقانہ طور پر ایمان کا اظہار کیا؟ واللہ اعلم۔ (معارف القرآن، جِلد ششم، صفحہ 134)۔

فرعون عبرت کا نشان بن گیا: فرعون بحیرۂ احمر میں غرق ہوچکا تھا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بہت سے لوگوں کو اُس کے غرق ہونے کا یقین نہیں آتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا نے اُس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’آج ہم تیری لاش کو (پانی سے) نکال لیں گے، تاکہ تُو اُن کے لیے نشانِ عبرت ہو، جو تیرے بعد ہیں اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔‘‘ (سورۂ یونس، 92)۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر: حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے ساتھ بحیرۂ احمر پار کرکے وادیٔ سینا کی جانب چلے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آسمانی کتاب دینے کا فیصلہ فرمایا اور اُنھیں تیس راتوں کے لیے کوہِ طور پر بلالیا، جنہیں مزید دس راتوں کے اضافے کے ساتھ چالیس راتیں کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر جانے سے پہلے اپنے بھائی، حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ وہ بھی اللہ کے نبی تھے۔ 

حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ و نصیحت فرماتے رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے فرمایا ’’اے بنی اسرائیل! تم لوگ جب مصر سے نکلے تھے، تو تمہارے پاس فرعونی قوم کا بہت سا زیور، امانت اور عاریت کے طور پر محفوظ ہے، جب کہ تمہارے اپنے پاس بھی بہت سا زیور موجود ہے۔ قبطیوں کا سونا چاندی تم لوگوں پر حلال نہیں ہے اور نہ ہی اسے واپس کیا جا سکتا ہے، چناں چہ میرا مشورہ ہے کہ اس حرام کے مال سے ہم سب کو جان چھڑوالینی چاہیے۔‘‘ پھر انہوں نے ایک گہرا گڑھا کھودا اور سب کے زیورات اس گڑھے میں دفن کروادیئے۔

سامری نے بچھڑا تیار کرلیا: سامری جادوگر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، چناں چہ جب رات کے آخری پہر قوم گہری نیند سوگئی، تو وہ خاموشی سے اُس جگہ پہنچا اور تمام زیورات اکٹھا کرکے اپنی کھولی میں لے آیا اور اسے پگھلا کر گائے کا ایک بچھڑا بنانے میں مصروف ہوگیا۔ سامری نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹّی بھی اس میں شامل کردی۔ یہ مٹّی اس نے چپکے سے اُس وقت لی تھی، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام بنی اسرائیل کو دریا پار کروا رہے تھے۔ بچھڑا جب تیار ہوگیا، تو اس کی خاصیت یہ تھی کہ جب اس میں ہوا داخل کرتے، تو یہ بیل کی آواز نکالتا۔ 

اس مصنوعی آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گم راہ کیا اور بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد سامری کے مکرو فریب کا شکار ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ’’پھر اس (سامری) نے اس کے لیے ایک بچھڑا بنا دیا، یعنی بچھڑے کا بُت۔ جس کی گائے کی طرح آواز بھی تھی، پھر کہنے لگا کہ یہی تمہارا معبود ہے اور موسیٰ ؑکا بھی، لیکن موسیٰ ؑ بھول گیا ہے۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 88)۔ سامری کے کہنے پر اسرائیلی بچھڑے کو سجدہ کرنے لگے۔ ایسے میں حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں سمجھانے اور بچھڑے کی عبادت سے روکنے کی بڑی کوشش کی۔ 

جیسا کہ قرآن ِ مجید میں ہے، (ترجمہ) ’’اے میری قوم کے لوگو! اس بچھڑے سے تو صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، پس، تم سب میری تابع داری کرو اور میری بات مانتے چلے جاؤ۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 90)۔ اسرائیلیوں کو سونے کا یہ گؤسالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون علیہ السلام کے وعظ و نصیحت کی بھی کوئی پروا نہیں کی اور بچھڑے کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے جواب دیا، (ترجمہ) ’’ہم تو موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس آنے تک اِسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 91)۔

سامری کے بچھڑے کی پوجا: کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی کہ ’’اے موسیٰ (علیہ السلام!) سامری نے تیری قوم کو گم راہی میں ڈال دیا ہے۔‘‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، (ترجمہ) ’’(اے موسیٰ ؑ!) ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا ہے اور انہیں سامری نے بہکادیا ہے۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 85) باری تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو یہ اطلاع دی، تو وہ سخت غم و غصّے میں آگئے، کیوں کہ اُن کی قوم نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ اُن کی کوہِ طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت کرتے رہیں گے، لیکن نہ تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی کا انتظار کیا اور نہ ہی حضرت ہارون علیہ السلام کی بات مانی۔ اس کے برعکس وہ سامری جادوگر کی ہدایت پر بچھڑے کی پوجا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن کی قوم کو بدعہدی اور گؤ سالہ پرستی سے آگاہ فرمایا۔

قوم کی بدعہدی پر بھائی سے ناراضی: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب توریت کی تختیاں لے کر کوہِ طور سے واپس ہوئے، تو دیکھا کہ قوم سامری کے بچھڑے کی پرستش میں مصروف ہے۔ یہ دیکھ کر آپ کو سخت تکلیف پہنچی، فوراً تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اُنھیں اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا کہ ’’اے میرے ماں جائے! ان لوگوں نے مجھے بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کرڈالتے۔ تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ۔‘‘ (سورۂ اعراف، 150) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی سے فرمایا ’’اے ہارون! انہیں گم راہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے میرے پاس آنے سے روکے رکھا؟ کیا تُو بھی نافرمان بن بیٹھا۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 92, 93) اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہایت غصّے کی حالت میں اپنے بھائی کی داڑھی اور سر پکڑ کر جھنجھوڑا اور پوچھا۔ جس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، (ترجمہ) ’’ہارون (علیہ السلام) نے کہا، ’’اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ۔ مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ نہ فرمائیں کہ تُو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 94)۔

سامری سے سخت لہجے میں بازپُرس : بھائی ہارون علیہ السلام سے باز پُرس کے بعد اب باری تھی سامری کی، جو سر جھکائے قریب ہی کھڑا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سامری کی جانب متوجّہ ہوئے اور سخت لہجے میں پوچھا ’’سامری! تیرا کیا معاملہ ہے؟ تُونے قوم کو بُت پرستی پر کیوں لگایا؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’میں نے ایسی چیز دیکھی، جو اوروں نے نہیں دیکھی، تو میں نے فرشتے کے نقشِ پا سے (مٹّی کی) ایک مٹھی بھرلی۔ پھر اسے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دیا۔ اس طرح میرے دل نے اس بات کو میرے لیے اچھا سمجھا۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 96,95)۔ حضرت جبرائیل امین ؑ کو دیکھنے کے تعلق سے ایک روایت یہ ہے کہ جس وقت بنی اسرائیل دریا پار کررہے تھے، تو حضرت جبرائیل امین ؑ ان کی مدد کے لیے اپنے گھوڑے پر سوار وہاں موجود تھے۔

 دوسری روایت یہ ہے کہ دریا پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر آنے کی دعوت دینے کے لیے حضرت جبرائیل امین ؑ گھوڑے پر سوار ہوکر تشریف لائے تھے۔ ایک روایت حضرت ابنِ عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ سامری کی پرورش خود حضرت جبرائیل امین ؑ کے ذریعے ہوئی تھی، جس وقت اُس کی ماں نے اُسے غار میں بند کردیا تھا۔ حضرت جبرائیل امین ؑ روزانہ اسے غذا دینے آتے تھے، وہ اُن سے مانوس تھا اور اُنہیں پہچانتا تھا، جب کہ دوسرے لوگ نہیں پہچانتے تھے۔ (بیان القرآن) سامری کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈالی کہ حضرت جبرائیل امین ؑ کے گھوڑے کے قدم جس جگہ پڑتے ہیں، وہاں کی مٹّی میں حیات و زندگی کے خاص اثرات ہوتے ہیں، یہ مٹّی اٹھالی جائے۔ چناں چہ سامری نے وہ مٹّی اٹھالی۔ 

یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ سامری نے حضرت ہارون علیہ السلام سے بھی دُعا کروائی تھی کہ مَیں اپنے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ اس میں ڈالتا ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ یہ دُعا کردیں کہ جو میں چاہتا ہوں، وہ ہوجائے۔ حضرت ہارون علیہ السلام اس کے نفاق اور گؤسالہ پرستی سے واقف نہ تھے، لہٰذا دُعا کروادی اور اس نے وہ نشانِ قدم کی خاک اس میں ڈال دی، تو حضرت ہارون علیہ السلام کی دُعا سے اس میں حیات کے آثار پیدا ہوگئے۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیعؒ، صفحہ 404)۔

عبرت ناک سزا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری کے لیے جو سزا تجویز کی، اُسے قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا ہے۔ (ترجمہ) ’’کہا، اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تُو کہتا رہے کہ ’’مجھے نہ چُھونا‘‘ اور ایک اور بھی وعدہ تیرے ساتھ ہے، جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ اور اب تُو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا، جس کا تُو اعتکاف کیے ہوئے تھا، ہم اُسے جلا کر، ریزہ ریزہ کرکے دریا میں اُڑا دیں گے۔‘‘ (سورۂ طٰہ، 97) اور پھرا ایسا ہی ہوا، وہ ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ ساری عُمر یہی کہتا رہا کہ ’’مجھ سے دُور رہو، مجھے نہ چُھونا۔‘‘ اس لیے کہ اُسے چُھوتے ہی چُھونے والا اور سامری دونوں شدید بخار میں مبتلا ہوجاتے۔ 

اس لیے جب وہ کسی انسان کو دیکھتا، تو فوراً چیخ اٹھتا ’’لا مساس‘‘ پھر وہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں اُس نے جانوروں کے ساتھ حیوانوں کی طرح زندگی گزاری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا۔ گویا دنیا میں لوگوں کو گم راہ کرنے کے لیے جو شخص جتنا زیادہ مکر و فریب، جھوٹ، فراڈ اختیار کرے گا، دنیا و آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔(قصص ابنِ کثیرؒ، ص 426)

سامری نام ہے یا قومیت: تفسیرِ ماجدی میں مولانا عبدالماجد دریابادی تحریر کرتے ہیں کہ بعض محقّقین کے نزدیک السامرہ بنی اسرائیل کے قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا اور سامری کا تعلق اس قبیلے سے تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں کہ ’’قیاس یہ کہتا ہے کہ سامری سے مراد سمیری قوم کا ایک فرد ہے اور سمیری کا عربی میں قدیم نام سامری تھا۔ سمیری قبائل کا اصل وطن عراق تھا، مگر یہ لوگ دُور دُور تک پھیل گئے تھے۔ مصر سے اُن کے تعلقات ایک ہزار سال قبلِ مسیح سے تھے۔ 

معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس قوم کا ایک فرد بنی اسرائیل میں مقیم تھا۔ خود قرآن نے بھی اسے ’’السامری‘‘ کے نام سے پُکارا، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ نام نہیں قومیت کی جانب اشارہ ہے۔ یعنی وہ شخص اسرائیلی نہیں، بلکہ سامری تھا، لیکن بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل آیا۔‘‘ (ترجمان القرآن، جلد 2،صفحہ 465,464)۔