• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

قلب و ذہن میں اِک ہلچل سی…

سنڈے میگزین پڑھا، بہت پسند آیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے کی دوسری قسط میں بھی حسبِ روایت خاصی محنت و عرق ریزی دکھائی دی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی منور مرزا کا تجزیہ تھا۔ وہ قوم کی جس دردمندی سے رہنمائی کر رہے ہیں، اللہ اُنہیں اجرِعظیم عطا فرمائے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ’’ہیپاٹائٹس فِری پروگرام 2030ء: پاکستان کوسوں دُور‘‘ بہت ہی عُمدہ اور معلوماتی تحریر تھی۔ ڈاکٹر رانا محمّد اطہر نے ڈینٹل ہسٹری کے جو چند حقائق بیان کیے، اُن کا بھی جواب نہ تھا۔ 

پھر’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں لاہور کی بیکریوں سے متعلق شان دار تحریر پڑھ کر خُوب لُطف اندوز ہوئے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’چڑھتےسورج کی سرزمین، جاپان‘‘سے متعلق شاہان القریش کی تحریر دل چسپ تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں موسمِ گرما کی چُھٹیوں اور مہمان داری کے حوالے سے اچھا درس دیا گیا۔ اکرم سہیل کی کاوش بھی اچھی رہی۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں میرا پیغام شامل کیا، آپ کا بے حد شکریہ۔ ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ کا جواب نہ تھا، ظاہر ہے، آپ نے جو لکھا تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں مدثر اعجاز کی ’’وراثت‘‘ خوب رہی، تو نئی کتابوں پر اختر سعیدی کا تبصرہ بھی خاصا ماہرانہ و مدبّرانہ ہوتا ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو بس جیسے قلب و ذہن میں اِک ہلچل سی مچا دیتا ہے۔ ہاں، شبینہ گل انصاری کی غزل اور’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ سلسلے کا بھی جواب نہ تھا۔ (اشوک کمار کولہی، گوٹھ جکھراڑی، کوٹ غلام محمّد)

ج: ’’آپ کا صفحہ‘‘ نہ ہوا، کوئی مژدۂ جانفرا ہوگیا۔ سچ، کبھی کبھار تو آپ لوگوں کی ایسی جذباتی باتیں پڑھ کے ہنسی چُھوٹ جاتی ہے کہ اِدھر تو اب صرف بجلی، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا سُن کر ہی قلب و ذہن میں ہلچل سی مچتی ہے۔

قصبے کی حالت، کراچی جیسی

’’سنڈے میگزین‘‘ نے پوری کوشش کی ہے کہ اپنی پیاری مادری زبان اُردو کے ذریعے (جو مُلک کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے) معاشرتی زندگی اور قلب و اذہان کے سنوار میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ شاباش ’’سنڈے میگزین‘‘۔ قربِ قیامت کے ایک بڑا فتنے، مسیح الدّجال سے متعلق بہت زبردست معلومات فراہم کی گئیں۔ منور قلم کے مالک، منور مرزا کا کہنا صد فی صد سچ ہے کہ بائیس کروڑ آبادی کے لیے تین ارب ڈالرز کچھ بھی نہیں۔ ہم ایک ہوکر ہی وطن کو مثلِ جنّت بنا سکتےہیں۔ ’’ہیپاٹائٹس فِری پروگرام 2030ء : پاکستان کوسوں دُورہے‘‘ پڑھ کر دل دُکھ سے بَھر گیا۔ اپنی مثال آپ لکھاری، ڈاکٹر عزیزہ انجم کا قلم پارہ لُطف دے گیا۔ 

رؤف ظفر ’’لاہور کی بیکریاں‘‘ سامنے لائے۔ پاکستانی قوم ویسے ہی کھانے، پینے کی رسیا ہے، بیکریز دیکھ کر تو رال ٹپکنے لگی ہوگی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں نرجس ملک کا قلم حسبِ روایت خُوب ترنگ میں نظر آیا کہ ؎ تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے۔ ’’چڑھتے سورج کی سرزمین، جاپان‘‘ سے متعلق پڑھ کر تو اپنا ہی محاسبہ کرتے رہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اُمّ ایمان کے بہت پیارے پاپا، اشفاق حسین اورمحمّد محسن شاد کی صابروشاکر والدہ، رحیم النساء بیگم کی کہانیاں لاجواب تھیں، توشبینہ گُل انصاری کی غزل، اکرم سہیل کی مزاحمتی ادب سے متعلق تحریر اور شفق رفیع کے مرتّب کردہ پیغامات بھی سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے اور اب باری سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ 

اس بار ناچیز ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ تخت پر سوار رہا، بے حد شکریہ۔ اور آخری بات یہ کہ اِن دنوں پھر رحمتِ خداوندی ٹُوٹ کر برس رہی ہے مگرہمارے حُکم رانوں کی بدولت یہ رحمت، زحمت ہی بنتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارا جھڈو ایک ٹائون ہے، جہاں ٹاؤن کمیٹی بھی موجود ہے، مگر قصبے کی حالت دن بہ دن کراچی جیسی ہی ہوتی جارہی ہے۔ صفائی اور سہولتوں کا شدید فقدان، غریب سخت پریشان اور عوامی خدمت پر مامور عملہ گویا چیلۂ شیطان ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: آپ اگر اپنے قصبے کے حالات کو کراچی کے حالات سے تشبیہ دےرہےہیں، تو یہ کراچی کے کرتا دھرتائوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ یہ شہر میٹرو پولیٹن، کاسمو پولیٹن ہے پاکستان کا سب سے بڑا (سب سے زیادہ ریونیو دینے والا) اور دنیا کا بارہویں نمبر پر بڑا شہر ہے۔ اس کے باوجود اگر اِسے کسی قصبے کی بدانتظامی کی مثال کے طور پر پیش کیا جائے تو صاحبانِ اختیار کے لیے اِس سے زیادہ ذلت کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

وقت، صفحات کا زیاں

جریدے میں میرا پسندیدہ سلسلہ ’’غزلیات‘‘ ہے۔ ہمیشہ ہی سے نظمیں، غزلیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ آپ کے باقی تمام سلسلے توبہت اچھے اور معلوماتی ہیں، مگر مجھے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا مقصد سمجھ نہیں آتا۔ کہنے کا مطلب ہے کہ اگر والدین یا کوئی بھی دوسرا رشتہ اپنی ذمّے داریاں، فرائض اچھے طریقے سے نبھا رہا ہے یا نبھا چُکاہے، تو اِس میں کیا بڑی بات ہے یا شاید آپ نے یہ سلسلہ اِس لیے شروع کیا ہے کہ ہر کسی کو لکھنےکا موقع مل سکے اور رسالہ خُوب بکے، کیوں کہ اس موضوع پر لکھنا انتہائی آسان کام ہے اور پھر جب آپ کے پاس اِس سلسلے کے لیے متعدّد تحاریر آتی ہوں گی، تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ شاید یہ بہت مقبول، پسندیدہ صفحہ ہے، جب کہ میرے خیال میں یہ صرف وقت کا زیاں ہے۔ 

مَیں نے کئی بار پڑھا، بس یہی لکھا ہوتا ہے ’’امّاں ہمارا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ابّا نماز کی پابندی کرتےتھے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ ایک طرف توشکوہ ہے کہ صفحات کم ہیں، دوسری طرف ایک پورا صفحہ غیرضروری باتوں سےبَھرا ہوتا ہے۔ ہاں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے بارے میں ضرور کہوں گی کہ ہمیشہ سبق آموز ہوتا ہے اور شُکر ہے کہ اب جِنوں، پریوں کی کہانیاں بھی شایع نہیں ہورہیں۔ اور ہاں، ایک بات اورکہ اگر کوئی آپ کو اچھے القاب سے پکارتا ہے، تو ضروری نہیں یہ خوشامد ہی ہو، آپ واقعی اپنی تحریروں کے لیے بہت خُوب صُورت الفاط کا چنائو کرتی ہیں۔ اُمید ہےکہ نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کریں گی۔ (مسز ثوبیہ ممتاز، چکلالہ، راول پنڈی)

ج: مسز ثوبیہ! کیا ہمارے ہی آس پاس ایسے اَن گنت لوگ موجود نہیں کہ جو اپنے فرائض اور ذمّےداریاں سِرے سے نبھانا ہی نہیں جانتے، کُجا کہ احسن طور پر۔ تو اگر چند ایک اچھے لوگوں کو اُن کی زندگی یا بعد از وفات کچھ خراج پیش کردیا جائے، تو اِس میں کیا قباحت ہے۔ اوّل تواس سلسلے کےآغاز کےوقت جریدے کی سرکولیشن میں اضافے جیسی کوئی بات قطعاً ذہن میں نہیں تھی۔ دوم، اگر ایسا ہو بھی، تو کیا غلط ہے، ہم میگزین بیچنے ہی کے لیے چھاپتے ہیں۔

اور ہاں، ہمارے یہاں کسی بھی سلسلے کی پسندیدگی کا پیمانہ اُس کے لیے موصول ہونے والی تحریریں یوں نہیں ٹھہرتیں کہ ہمارے پاس تو لگ بھگ ہرسلسلے ہی کے لیےاگلے کئی ہفتوں کاوافرمواد موجود ہوتا ہے، تب ہی توباری آنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے۔ آپ کو یہ سلسلہ نہیں پسند، تو دیگر سے مستفید ہولیا کریں، لیکن جواِس سلسلے ہی کی خاطر کچھ لکھ پڑھ رہے ہیں، اُن پرمعترض بھی نہ ہوں کہ فی زمانہ(سوشل میڈیا کے اس گند خانے میں) یہ بھی بہت غنیمت ہے۔ رہی آپ کی حوصلہ افزائی تو خط سےبھی زیادہ لمبی ہوگئی ہے، مزید کیا کریں۔

ہاتھ ہلکا رکھا کریں

’’حالات و واقعات‘‘ میں منورا مرزا نے شان دار، بےلاگ تجزیہ کیا۔ روس میں ویگنر ملیشیا کی بغاوت پر اِس سے اچھی تحریر لکھی نہیں جا سکتی تھی۔ ’’متفرق‘‘ میں سید ثقلین علی نقوی نے سیّد ناصر جہاں اور اُن کے بیٹے اسد جہاں پر بہت خُوب صُورت مضمون تحریر کیا ہے۔ ہم اِک عرصۂ درازسےٹی وی پر’’ گھبرائے گی زینب‘‘ سُن رہے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حلیم، چنا پلائو اور دودھ کا شربت دیکھ کر ہماری تو جیسے مراد بَرآئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثاقب صغیر نے ’’ولی‘‘ لکھ کے دل جیت لیا۔ 

ڈاکٹر قمر عباس کاسلام بہترین تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’بیٹی کےآنسو‘‘ انتہائی شان دار حقیقتاً سبق آموز واقعہ تھا۔ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں آپ نے ڈاکٹر حمزہ خان ڈاھا، شہزادہ محمّد نقش بندی، ڈاکٹر ظفر فاروقی اور شری مرلی چند کا نام بھی شامل کردیا۔ خدارا ہلکا ہاتھ رکھا کریں، اب آپ کے اندازِتحریر تک رسائی تو ناممکن ہے۔ اگلا عاشورۂ محرم ایڈیشن بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ ’’متفرق‘‘ میں حیدرآباد دکن پر وحید احمد کی تحریر اچھی تھی۔ سلیم راجا اب تک غائب ہیں، تب ہی شہزادگان تخت پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، اب دیکھیں، وہ کب آکے سلطنت واگزار کرواتے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ’’ہاتھ ہلکا رکھا کریں‘‘ سے کیا مُراد ہے، اب اگر کسی کی تحریر ناقابلِ اشاعت ہے، تو ہم فہرست مرتّب کرتےکیا لکھیں کہ ’’یہ تحریر ہلکے ہاتھ سے قابلِ اشاعت اور بھاری ہاتھ سے ناقابلِ اشاعت ہے‘‘۔

پت جھڑ کے بعد بہار کے مثل

پورے ہفتے کی تھکاوٹ دُور کرنے کے لیے ایک کپ گرما گرم کافی اور ہاتھ میں ’’اتوار جریدہ‘‘ کافی ہے۔ جریدے کا دہانہ کھولتے ہی ’’سنڈے اسپیشل‘‘ سے آمنا سامنا ہوا۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم، ’’پیاراگھر‘‘ سے مستفید ہوتے ہوتے ’’ڈائجسٹ‘‘ تک پہنچی، تو سامنے طارق بلوچ صحرائی کی ’’بڑے گھر کی بہو‘‘ کو موجود پایا۔ 

پڑھ کے آنکھیں بے ساختہ نم ہوگئیں۔ میرے لیے تو یہ افسانہ جیسے پت جھڑ گزر جانے کے بعد بہار کو خوش آمدید کہنے کے مِثل تھا۔ جیسے کسی کُھلی کتاب کے چاندی جیسے اوراق میں کنول کے پھول۔ بے شک، والدین اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہیں اور اُس ذات کی خاص کرم نوازی اور مہربانی ہے کہ مَیں بھی ایک اچھے گھر کی بہو بن چُکی ہوں بلکہ ایک بیٹی اور فرزند کی نعمت سے بھی مالا مال ہوں۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج: مریم! ’’کُھلی کتاب کے چاندی جیسے اوراق میں کنول کے پھول…؟؟‘‘سچ، کوئی دس بارآپ کی یہ تمثیل دہرا کے بھی ہمارے تو ککھ پلّےنہ پڑا۔ بہرحال، اللہ پاک آپ کی گھر گرہستی اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ خوشیوں، راحتوں میں مزید اضافہ فرمائے۔

                              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ربِ کریم کےحضور دُعا ہے کہ اپنی ٹیم کے ساتھ سدا خیروعافیت سے، بہت خوش و خرّم رہیں۔ جی تو چاہتا ہے، خُوشیوں، کام یابیوں، کام رانیوں کی بات کریں، امن و محبّت کی بات ہو، ترقی و خُوش حالی کے ترانے گائے جائیں، مثبت سوچیں، پُرامید ہونے کی کوشش کریں، مگر وہ فؔیض نے کہا ہے کہ ناں کہ ؎ لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجے… اب بھی دِل کش ہے تِرا حُسن، مگر کیا کیجے… اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبّت کے سوا… راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا۔ نہ جانے اس دیس کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ملسل تنزّلی و پس ماندگی ہی کی طرف سفر جاری ہے۔ کس کس بات کو روئیں۔ 

اب وہ یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتیاں ہوں یا معمولی رقم کی خاطر خُودکشی کرنے والے مجبور والدین، اسلامیہ یونی ورسٹی کی شرم ناک و اندوہ ناک کہانی ہو یا گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، پہلےمحض محاورتاً کہا جاتا تھا کہ غربت نہیں، غریب کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اب حقیقتاً ایسا ہی ہورہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں لاعلاج امراض میں مبتلا لوگوں کا رَش لگا ہے، خاص طور پر اپنے ہاتھوں پیدا کردہ امراض ہیپٹائٹس بی، سی کے مریضوں کا، جو گلی گلی، محلے محلے بیٹھے اتائی خُوب پھیلا رہے ہیں۔ 

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم اب تک وبائی امراض کا پھیلائو ہی نہیں روک پائے۔ درحقیقت اس مُلک کی اصل بیماری ’’بے ایمانی اور بددیانتی‘‘ ہے۔ اے کاش! آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیں ڈالرزکےساتھ بھیک میں تھوڑی سی ایمان داری اور امانت داری بھی دے دیں۔ معذرت چاہتی ہوں، مگر کیا کروں، دل بہت دُکھا ہوا ہے۔ اللہ پاک میرے مُلک کو سلامت رکھے، آزمائشوں سے نکال دے۔ ہمارے نوجوان مُلک چھوڑنے کےبجائےمُلک سنوارنےکی بات کریں۔ بہرکیف، فادرز ڈے کا ’’سنڈے میگزین‘‘ ہاتھ میں ہے۔ اِس بارسرِورق سجا سجا سا لگا، ماشاءاللہ ’’پیارے پیارے بچّے اپنے بابا کے ساتھ خُوب جچ رہے تھے۔ 

اُس پر آپ کا بہت حسین الفاظ میں باپ کو خراجِ تحسین پیش کرنا، خصوصاً حمّاد نیازی کے خُوب صُورت اشعار نے تو گویا سونے پہ سہاگے کا کام کیا۔ حسبِ توقع ایک اورخُوب صُورت اورمعلومات سے بھرپور سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ کا آغاز ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ مضمون نگار اور آپ لوگوں کو اجرِعظیم عطا فرمائے۔ رائو محمّد شاہد تو جب آتے ہیں، بس چھا جاتے ہیں۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو اتنے بہترین لکھاری میسّر ہیں۔ راؤ شاہد نے موبائل اور انٹرنیٹ کو والدین سے دُوری کا سبب قرار دیا، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ یہ فراہم بھی تو والدین ہی کرتے ہیں۔ 

شفق نے بیرونِ مُلک مقیم باپوں کی پریشانیوں، قربانیوں کو جس شان دار انداز میں بیان کیا، قابلِ ستائش ہونے کےساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ اے کاش! اپنے دیس میں روزگار کے اتنےمواقع میسّر آجائیں کہ کسی باپ کو اپنے بچّوں کی جدائی برداشت کرنی پڑے، نہ پردیس کے دھکّے کھانے پڑیں۔ نظیر فاطمہ کا افسانہ ’’ادراک‘‘ بھی باپ اوراولاد کے بے لوث رشتے کے گرد گھوم رہا تھا، تو’’پیارا گھر‘‘بھی محبّتوں، شفقتوں کا گہوارہ معلوم ہوا۔ الغرض، آپ نے جس طرح باپ کے ہر رُوپ کو سنہرے الفاظ سے خراج پیش کیا، اُس سے کم از کم اُن ناقدین کی زبانیں تو بند ہوجائیں گی، جنہیں ہمیشہ ’’ماں‘‘ کو زیادہ اہمیت دینے کا گلہ رہتا ہے اور ہاں، نیّر کاشف کی نظم ’’جیون میلے میں بابا‘‘ بھی دل چُھو لینے والی کاوش تھی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں والدۂ یاسر کا بیٹے، بھانجے اور بھتیجے کی اندوہ ناک موت کا واقعہ پڑھ کر بے اختیارآنکھوں میں آنسوآگئے، اللہ تعالیٰ مائوں کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔ 

ہاں، یاد آیا، ہم نے بھی ایک عرصہ پہلے اپنے استادِ محترم سے متعلق ایک تحریر بھیجی تھی، آج تک شائع نہ ہوئی، ایک اور تحریر’’بزرگ افراد، وقت اور توجّہ چاہتے ہیں‘‘ شائع تو ہوئی، مگر ہمارے نام،پتےکےبغیر۔ سوچا ہے، اب آئندہ ہر صفحے پراپنا نام لکھوں گی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی مسندِ اعلیٰ آج کل ’’راجا‘‘ صاحب کی جگہ ’’شہزادہ‘‘ بشیر نقش بندی نے سنبھالی ہوئی ہے۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپورمیرس)

ج: بالکل ٹھیک سوچا ہے آپ نے۔ ہر صفحے پرنہ بھی سہی، کم ازکم ہر تحریر کے ساتھ نام لازماً لکھناچاہیے۔ عموماً لکھاری جب ایک ساتھ زیادہ تحریریں بھیجتے ہیں، تو صرف ایک آدھ تحریر پر نام لکھ دیتے ہیں، تمام پر نہیں، مگر جب وہ چھانٹی کے بعد مختلف صفحہ انچارجز کے پاس جاتی ہیں، تو نام نہ ہونے کے سبب، نام کے بغیرہی شائع کرنی پڑتی ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں کچھ روز کے لیے ایک رشتے دار کے یہاں گئی، تو وہاں دیکھا کہ ہرکام کے لیے اخبارات کے صفحات استعمال ہورہے ہیں۔ کئی بار ’’اقراء‘‘ صفحے کی بےحُرمتی ہوتی دیکھی، تو تہیّہ کرلیا کہ آئندہ کم ازکم اخبار سے اقراء کا صفحہ ضرور علیحدہ کیا کروں گی۔ 

پھر ’’سنڈے میگزین‘‘ کے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اور دیگر اسلامی صفحات کے لیے یہی کوشش کی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِن صفحات کے آگے یا پیچھے کبھی اشتہار ہوتا ہے، تو کبھی ماڈلنگ۔ براہِ مہربانی اِس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ اِس ضمن میں کسی عالمِ دین سے بھی مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ (غزل جاوید، کراچی)

ج: غزل! آپ بہت نیکی کا کام کررہی ہیں۔ اللہ رب العزت آپ کو اِس کا بہترین اجر دے۔ سنڈے میگزین کےصفحات کےلیے ہماری ناقص رائے تو یہی ہے کہ کسی بھی دینی صفحے کی پشت پر اگرکوئی اشتہاروغیرہ ہو تو اُس پر ایک سادہ سفید کاغذ لے کر پیسٹ کرلیا جائے۔ کیوں کہ فی الوقت تو اخباری صنعت کا جوحال ہے، انتظامیہ کو ہماری طرف سے کسی بھی نوعیت کا کوئی اور مشورہ گیا، تو بہترین حل یہ پیش کیا جائے گا کہ ’’بند کردیں۔‘‘ اب وہ صفحہ بھی ہو سکتا ہے، جریدہ بھی، قلم بھی اور زبان بھی۔

* ’’عالمی یومِ والد‘‘ پر میری ٹوٹی پُھوٹی تحریر کو اِس قدرعُمدگی و خُوب صُورتی سے شایع کرنے کا بےحد شکریہ۔ یقین کریں، تحریر پڑھ کر مَیں اور میرے ابّا دونوں رو پڑے۔ میگزین کے تمام ہی سلسلے بہت اچھے، بےحد اُجلے ہیں۔ بہت اچھا لگتا ہے، جب کبھی کبھی اپنے نام پر نظر پڑتی ہے، خواہ وہ ایک ای میل کی اشاعت ہی کی صُورت کیوں نہ ہو۔ اللہ پاک اس میگزین کو سلامت رکھے، ہر ہفتے نہ جانے کتنے دِلوں کو خُوش کرجاتا ہے۔ (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)

ج: فوزیہ! ہماری تو بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ ہر تحریر ہی کو جس قدر بنا سنوار سکتے ہیں، ضرور سنواریں، مگر آپ جیسے چند ایک ہی ہیں، جو ہماری اس محنت کی قدر اور حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk