• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات منائی گئیں۔ ویسے تو تھوڑی سی سمجھ رکھنے والا ہر شخص یہ سوچ سکتاہے کہ یونیورسٹی کو قائم ہوئے توابھی صرف چودہ سال ہوئے ہیں کیونکہ وزیراعظم نوازشریف نے یونیورسٹی کے 12ویں کانووکیشن میں نہ صرف بطور مہمان خصوصی شرکت کی بلکہ باہر نکلے تو ڈاکٹر نواز شریف بن چکے تھے۔ ہمیں شاید یہ بحث نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ’’بڑے شہروں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے‘‘ اور میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم ڈاکٹر نواز شریف نے اس تقریب میں اپنی تقریرکے دوران یہ جو فرمایا کہ ’’ہم ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کریں گے اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے‘‘ تو عملی طور پر یہ کر دکھایا کیونکہ انقلاب تو گھر سے شروع کر دیا اور یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ قانون کی ڈگری لے کر بزنس میں پنجہ آزمائی کر رہے تھے اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر خزانہ بن گئے، پھر وزیراعلیٰ اور اب تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خیال آیاکہ میرے گائوں جاتی عمرہ میں رہنے والا یہ شخص دراصل بہت بڑے فلاسفر ہیں اس لئے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی سے نوازا گیا ۔ میرا ذہن تو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا مگر مجھے پھر خیال آیا کہ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تھے تو انہیں ترکی کی ایک یونیورسٹی نے صحافت میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا۔ انہوں نے صحافت میں ایم اے کیا ہوا تھا کبھی بھی عملی صحافت میں نہیں آئے، اب اگر نواز شریف کو فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا ہے تو کونسی اچنبھے والی بات ہے۔ البتہ یہ ایک روایت بن جائے گی کہ اب ملک کا جو بھی وزیراعظم ہوگا اسے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ضرور ملا کرے گی ۔ میں سمجھتا ہوں اگر یہ روایت قائم ہو گئی تو ایک طرح سے سیکڑوں ایسے ممبرانِ اسمبلی جن کو جعلی ڈگریوں کے مقدمات کا سامنا ہے انہیں بھی تحفظ مل جائے گا جس طرح غیر قانونی حراست کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ اس کے بعد ممبران کو جعلی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوگی وہ میٹرک کے بعد ڈائریکٹ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے سکیں گے چونکہ بقول سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ وہ جعلی ہو۔ ویسے تو میرے بیٹے احمد فرقان نے بھی مجھے مشورہ دیا ہے کہ بابا آپ نے 14سال پہلے ایم فل کیا تب سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ، آپ کو تو ابھی تک ڈگری نہیں ملی، 29سال آپ نے صحافت میں گزار دیئے اب آپ وزیراعظم بننے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکے۔
اس سے پہلے کہ میں بھی ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائوں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ڈاکٹر کی ڈگری میں کتنی طاقت ہوتی ہے کیونکہ میاں نواز شریف جب ڈاکٹر نواز شریف بن گئے تو انہوں نے لکھی ہوئی تقریر کرنے کے بجائے برجستہ خطاب شروع کر دیا اور کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ مجھے ڈگری دی گئی ہے یا میں اسے خرید رہا ہوں چونکہ وائس چانسلر اب 9ارب روپے مانگ رہے ہیں۔ وائس چانسلر نے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے نام لئے ہیں حالانکہ میں کرکٹ ٹیم کا بہترین کھلاڑی ہوا کرتا تھا،میرا نام چھوڑ گئے۔ میری خواہش ہے کہ آج پھر طالب علم بن جائوں اور پرانی کینٹین پر بیٹھ کر چائے پیوں۔ ڈاکٹر نواز شریف سے گزارش ہے کہ جب آپ کو کرکٹ کھیلنے اور کھانے پینے سے ذرا سی فرصت ملے تو اس بات پر غور کیجئے گا کہ گورنمنٹ کالج جس کی بہت اچھی روایات تھیں۔ تعلیم کے میدان میں صرف اس کی مثال دی جاتی تھی آج جی سی یونیورسٹی میں 16ہزار طلبا و طالبات ہیں مگر معیار کی بُری طرح لینڈ سلائیڈنگ ہورہی ہے ۔ 4فیکلٹیزمیں صرف ایک ڈین ہے ۔ 23شعبوں میں صرف 6پروفیسر ہیں جن میں سے چند دنوں بعد ایک ریٹائرہو جائیں گے ۔ پروفیسروں کی36اسامیوں میں سے 29خالی پڑی ہیں، ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی 60سیٹوں میں سے 50خالی پڑی ہیں، اس وقت صرف دس ایسوسی ایٹ پروفیسر کام کر رہے۔ معیار کی حالت یہ ہے کہ 23شعبوں میں سے 17ایسے ہیں جن کے چیئرمین اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ فیکلٹی کی تعداد کو پورا کرنے کے لئے ڈیلی ویجز پر لوگوں کو رکھ کر کام چلایا جا رہا ہے۔ پروفیسروں اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کی تعداد پوری نہ ہونے کی بنا پر اسسٹنٹ پروفیسر ایم فل کی کلاسوں کو پڑھا رہے ہیں۔ وائس چانسلر کی تدریس میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ سال میں صرف ایک سلیکشن بورڈ ہوا ہے۔ کئی بار اشتہار دیئے گئے مگر اہل لوگوں کو منتخب کرنے کے بجائے نااہل اور ہائر ایجوکیشن کے معیار کے برخلاف ڈیلی ویجز پر لوگ رکھ لئے گئے۔ یونیورسٹی کی تین اہم ترین اسامیاں رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات اور خزانچی کتنے عرصہ سے کسی مستقل تقرری کے منتظر ہیں مگر یہاں اپنی پسند کے ایسے افراد کو ایڈیشنل چارج دے دیا گیا ہے جو ہائر ایجوکیشن کے طے کردہ رولز پر قطعی طور پر پورا ہی نہیں اترتے، رجسٹرار کی اسامی پر جونیئر ترین اسسٹنٹ پروفیسر جو 2008ء میں اسسٹنٹ پروفیسر بنے انہیں مکمل پروفیسر بنا کر تعینات کر دیا گیا حالانکہ وہ ٹینورٹریک کی بنیاد پر بھرتی ہوئے اور ہائر ایجوکیشن کی شرائط کے مطابق ٹینور ٹریک کا کوئی بھی پروفیسر ایسے کسی انتظامی عہدے کا اہل ہی نہیں ہو سکتا۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ یہ چیز نہ تو گورنر کے نوٹس میں لائی گئی اور نہ ہی منظوری لی گئی ۔ ان کی تقرری کا مقصد مبینہ کرپشن کو فروغ دینا ہے ۔برصغیر کی عظیم درس گاہ کو تباہی پر پہنچانے کا فول پروف انتظام کیا گیا ہے اور جناب ڈاکٹر نواز شریف آپ کے کالج کی بربادی کے لئے کالج کے اندر ایک مافیا کام کر رہاہے۔ اس لئے خدارا اس طرف توجہ دیں اور دنیا میں آپ کے پاس دکھانے کے لئے اگر کوئی تعلیمی ادارہ ہے تو اسے بچا کر رکھیں، نہیں تو آپ کی تعلیم سے دوستی کا بھرم کھل جائے گا۔ اگر فرصت ملے تو سوچئے گا ضرور ڈاکٹر نوازشریف !کیونکہ مجھے تو یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ وائس چانسلر کہیں مولانا طارق جمیل کی اس بات پرانہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری نہ دے دیں کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے اور ہر تقریب میں گانا گایا کرتے تھے انہیں یہ کم بخت گانے آج بھی یاد ہیں۔
تازہ ترین