• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 9نومبر ہے، موجودہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں جنم لینے والے ایک ایسے عظیم انسان کا جنم دن جنہیں دنیاعلامہ اقبال کے نام سے جانتی ہے، برطانوی ہندوستان کے دور کے عظیم مفکر اور شاعر علامہ اقبال کو پاکستان میں شاعرِ مشرق، مصور، پاکستان، مفکرِ پاکستان اور حکیم الامت کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے تو باقی دنیا بھی انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے میں پیچھے نہیں۔ ایران میں علامہ اقبال کو اقبالِ لاہوری کے نام سے پکارا جاتا ہے تو بھارت میں انکے لکھے گئے ترانہِ ہندی کو قومی ترانے کا درجہ حاصل ہے، انگریز سرکار نے انہیں سر کا خطاب پیش کیا،جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ میں انکی رہائش گاہ کے باہر آج بھی نمایاں حروف میں تحریر ہے کہ یہاں پاکستان کے عظیم شاعر اور مفکر کا بسیرہ تھا،برصغیر کی تقسیم کے بعد انکی جنم بھومی سیالکوٹ ایک سرحدی شہر بن گیا توباوجود ہر محاذ پر مخاصمت کے دونوں حریف ممالک اپنی بارڈر چیک پوسٹس پر اقبال کے لازوال اشعار تحریر کرکے انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنکی شاعری برصغیر کے باسیوں کے مابین ایک قدرِ مشترک ہے۔ علامہ اقبال کے چاہنے والے صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں انکے شہرہ آفاق کلام کے ترجمے کیے جارہے ہیں۔ علامہ اقبال کی لازوال شاعری کا بنیادی محور تصورِخودی، خداترسی اورخدمتِ انسانیت ہے، خودی علامہ اقبال کی نظر میں ایک ایسی دولت ہےکہ جس انسان یا معاشرے نے اسے پالیا وہ ترقی و خوشحالی کی بلندیوں پر جاپہنچا۔اسی طرح علامہ اقبال کی تمام تصانیف بشمول’’بانگِ درا‘‘اور’’بالِ جبریل‘‘میں فلاحِ انسانیت کا درس نمایاں ہے۔ انگریز سامراج کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ملک میں انقلابی شاعری کے ذریعے زندگی کے کڑے سفر میں گر کر پھر سے اٹھنے کی نوید سنانا بلاشبہ وہی عظیم شخصیات دے سکتی ہیں جنہیں دھرتی کے اصل مالک پر یقین کامل ہوتا ہے اور جو مخلوقِ خدا سے محبت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے قوم کے مستقبل بچوں کی کردار سازی کیلئے اپنا کردار ادا کیا، انکی بچوں کیلئے نظم’’ 'ایک پہاڑ اور گلہری‘‘سے سبق حاصل ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی اپنی اہمیت ہے اور انسان اپنے بلند کردارسے معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے۔اسی طرح علامہ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘میں ان تمام شیطانی ہتھکنڈوں کواپنی شاعری سے بے نقاب کردیا جس سے سامراجی قوتیں کمزور انسانوں کا خون پیتی ہیں، علامہ اقبال کا غلامی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے برصغیر کے گھٹن زدہ ماحول میں ’’شکوہ‘‘ منظرعام پر آیا تو کچھ حلقوں میں تنقیدکا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن جلد ہی ’’جوابِ شکوہ‘‘کی صورت میں علامہ اقبال نے اپنے ناقدین کوحیرت زدہ کردیا۔ علامہ اقبال نے نہایت کمالِ مہارت، خلوص اور آسان فہم انداز میں سمجھایا کہ قوانینِ فطرت دنیا کے تمام انسانوں اور معاشروں کیلئے ایک ہیں، ہر وہ انسان جو خدا کے بتائے ہوئے رستے پر چلتا ہے وہ مشکلات کا سامنا ضرور کرتا ہے لیکن بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف خدا کی نافرمانی کرنے والوں کا مقدر ناکامی ہواکرتا ہے۔’’ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے، گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے انہوں نے چین اور پاکستان کی آزادی سے برسوں قبل ہی مستقبل میں جھانک لیا تھا، آج اکیسویں صدی کا بے مثال منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری علامہ اقبال کے پیغام کی عملی تفسیر ہے۔اقبا ل نے اپنی شاعری میں شری رام چندر، شری کرشن، گوتم بدھ، باباگرونانک، بھرتری ہری، وشو امتر، سوامی رام تیرتھ وغیرہ جیسی ہندوستان کی عظیم ہندو اور غیرمسلم شخصیات کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔اقبال کے مطابق شری رام ایک اصول پسند، انصاف پرور اور حق پرست حکمران تھے جو اپنے اصولوں پر اس طرح قائم رہتے تھے جیسے ہمالہ کے بلندوبالا پہاڑصدیوں سے اپنی جگہ قائم ودائم ہیں،دنیا بھر کے ہندوؤں کے دِلوں کی دھڑکن شری رام چندر کو علامہ اقبال نے امامِ ہند قرار دیا۔ شری کرشن کی تعلیمات کا خلاصہ نشکا اور کرم ہے یعنی بغیر کسی اجر کے مخلصانہ کام کرو اورپھر نتیجہ بھگوان پر چھوڑ دو۔علامہ اقبال نے ' سرگزشت ِ آدم،سمیت متعدد نظموں میں شری کرشن کی تعریف کرتے ہوئے انکے افکار کو پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال بابا گورونانک کو ایک عظیم پیشوا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے چمن میں وحدت کا گیت گایا۔ علامہ اقبال اپنی شہرہ آفاق تصنیف جاوید نامہ میں بُدھ مت کے بانی گوتم بدھ سے تصوراتی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اظہارِافسوس کرتے ہیں کہ 'قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی،قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانا کی، ’’برہمن سرشارہے ابتک مئے پندار میں...شمع گوتم جل رہی ہے محفل ِ اغیار میں '‘‘۔ آج شاعر مشرق علامہ اقبال کی سالگرہ مناتے ہوئے ہمیں فخر محسوس کرنا چاہیے کہ ہمارے قومی شاعر کا نام پوری دنیا میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے لیکن بطور پاکستانی ہمارے لیے فقط انکی سالگرہ منالینا ہی کافی نہیں بلکہ ہمیں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ آج کا پاکستان علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان کے برعکس ہے،ہم نے اقبال کے فلسفہ خودی کو فراموش کرتے ہوئے کشکول اٹھالیا ہے، آج ہمیں علامہ اقبال کے پیغام سے فکری رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے ایک ایسے پرامن پاکستان کی تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے جہاں کا ہر شہری خودداری، خدمت انسانیت اور فلاح و بہبود کے جذبے سے سرشار ہو۔ہیپی برتھ ڈے ٹو علامہ اقبال....!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین