• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کوئٹہ کے دورے کے دوران بلوچستان میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لئے زبانی جمع خرچ کے رسمی تکلفات سے ہٹ کر جو ماضی کا معمول تھے بعض غیرروایتی اور دوٹوک اقدامات کا اعلان کیا ہے جن پر خلوص نیت سے عملدرآمد شروع ہو گیا تو صوبے کے حالات میں واضح بہتری کے آثار نمایاں ہوں گے۔ انہوں نے منتخب نمائندوں سے ملاقات کے علاوہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی شرکت کی جس میں امن و سلامتی کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ناراض بلوچوں کو منانے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک بااختیار کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی جو سیاسی قیادت کی مشاورت سے مفاہمتی عمل کا آغاز کرے گی۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ بلوچستان میں امن کے لئے سیاسی، فوجی قیادت مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو ہر صورت میں ختم کیا جائے گا اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے صوبائی حکومت کو زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کئے جائینگے۔ بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے جائیں گے اور پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائینگے۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پولیس اور ایف سی کو مزید فعال بنایا جائے اور ان کی استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جائے۔ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر اسے کبھی اس کے حجم کے مساوی اہمیت نہیں دی گئی۔ حق حاکمیت اور ساحل و وسائل پر اختیار کے حوالے سے یہاں کے عوام ہمیشہ سے احساس محرومی کا شکار ہیں۔ مرکز چونکہ شروع ہی سے تمام سیاسی و اقتصادی اختیارات کا منبع رہا ہے۔ اس لئے صوبوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کے مواقع بہت کم ملے۔ خصوصاً بلوچستان کو پارلیمنٹ میں برائے نام نمائندگی کے باعث اپنے مطالبات منوانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً وہاں مزاحمتی تحریکیں جنم لیتی رہیں۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے مگر اس کے فوائد ابھی تک سامنے نہیں آ سکے کیونکہ مرکز روایتی طور پر آج بھی صوبوں کے اختیارات اور وسائل پر حاوی ہے۔ بلوچستان کو اس حوالے سے سب سے زیادہ شکایات ہیںان شکایات کے ازالے کے لئے لوگوں نے جب بھی احتجاج کا راستہ اپنایا س کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی جس سے معاملہ سنورنے کی بجائے بگڑتا چلا گیا اس طرز عمل کی وجہ سے آج بلوچ نوجوانوں کے ایک طبقے نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکےہو رہے ہیں۔ عوام خوف و ہراس کاشکار ہیں ماضی میں اس مزاحمتی طبقے کو مذاکرات کی میز پرلانے کے لئے زبانی پیش کشیں تو بہت ہوئیں مگر عملی طور پر کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی وزیر اعظم نواز شریف نے ناراض بلوچوں سے بات چیت کےلئے کمیٹی کا اعلان کر کے درست سمت میں ایک صحیح فیصلہ کیا ہے جس طرح طالبان سے بات چیت کے لئے متعلقہ امورمیں مہارت رکھنے والی سنجیدہ شخصیات پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ہے اسی طرح بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بھی سب کے لئے قابل احترام افراد کی کمیٹی بنا دی جائے تو یہ معاملہ بھی یکسو ہو سکتا ہے تاہم اس کے لئے ماحول کو سازگار بنانا ہو گا اس ضمن میں ضروری ہے کہ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کا عمل تیز کیا جائے۔اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان نے شکایت کی ہے کہ وفاقی حکومت صوبے کے لئے مختص کردہ فنڈز بھی جاری نہیں کر رہی ہے۔ اس شکایت کا ازالہ ضروری ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر نہ کی جائے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے اس حوالے سے وزیر اعظم نے سیاسی اور عسکری قیادت کے مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری کی بات کی ہے جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے بلوچستان میں مزاحمت اور ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سیاسی قیادت اور فوج کا ایک صفحہ پرہونا ضروری ہے۔بلوچستان کا مسئلہ بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ اس کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں وفاق کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ اسے صوبائی حکومت کی تجاویز اور مشوروں کو اہمیت دینی چاہئے تاکہ صوبے میں امن و سکون بحال ہو سکے۔

بنگلہ دیش:انصاف یا سیاسی انتقام؟
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف متنازع عدالتی ٹریبونل کے تحت مبینہ طور پر انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر جس طرح موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، دنیا بھر میں اس کے بارے میں فراہمی انصاف کے بجائے سیاسی انتقام کی کارروائی ہونے کا تاثر ابھرا ہے۔ ان کارروائیوں کا سب سے بڑا ہدف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت ہے جبکہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے کئی افراد بھی ان کی زد میں آئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک رہنما عبدالقادر ملا کو پچھلے دنوں پھانسی دی جاچکی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے 90 سالہ سابق امیر پروفیسر غلام اعظم عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت کے قائم کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا تازہ فیصلہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے موجودہ امیر مطیع الرحمن نظامی سمیت14 افراد کو سزائے موت سنائے جانے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر ہی نہیں خود بنگلہ دیش میں بھی ان کارروائیوں کو سیاسی انتقام کا شاخسانہ سمجھا جارہا ہے جس کا اظہار ملک کے طول و عرض میں کئی ماہ سے جاری مسلسل احتجاج کی صورت میں ہورہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بیشتر سیاسی جماعتوں اور عوام کی اکثریت کی جانب سے حالیہ عام انتخابات کا بائیکاٹ حسینہ واجد حکومت کی من مانیوں اور حکمراں پارٹی کی زیر نگرانی ہونے والے انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ معتبر عالمی ذرائع ابلاغ کے توسط سے سامنے آنے والی تفصیلات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انصاف کے لئے نہیں بلکہ حکومت سے سیاسی اختلاف رکھنے والی مؤثر قوتوں کی قیادت کا خاتمہ کرنے کے لئے بنائی جانے والی عدالت ہے۔ لہٰذا عالمی برادری کو سیاسی انتقام کی اس کارروائی کو بند کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے۔ حکومت پاکستان کو اس باب میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ معتوب ٹھہرائے جانے والے افراد پر الزامات جو بھی لگائے جارہے ہوں ان کا اصل اور سب بڑا قصور پاکستان سے وابستگی اور مکتی باہنی کی سرگرمیوں کے دوران پاکستانی حکام کی مدد کرنا قرار دیا جارہا ہے۔

یہ کیسی پنچایت ہے؟
اخبارات کے ذریعے مظفر گڑھ سے 80کلومیٹر کےفاصلے پر واقع گائوں میں انسانیت کے شرف، وقار، حرمت اور عزت کی بے توقیری و پامالی کے ایک ایسے واقعہ کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جس کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ معاشرے کے ٹھیکیدار کہلانے والے عناصر کیسے اپنے گھروں میں چین کی نیند سو رہے ہیں اور حکومتی ایوانوں میں ابھی تک زلزلہ کیوں نہیں آیا۔ 40سالہ مطلقہ خاتون کے ساتھ انصاف کے نام پر درندگی کا مظاہرہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پیش آیا جب دنیامیں انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے ڈنکے پیٹے جارہے ہیں اور ایسے ملک میں ہوا جو خواتین کی عزت و ناموس اورتقدس کے احترام کی سب سے زیادہ تعلیم دینے والے دین کے نام پرقائم ہوا۔ دنیا کاہر قانون اور ہر فلسفہ انصاف یہ کہتا ہے کہ کسی جرم کی سزا صرف خطاکار کو دی جاتی ہے۔ یہ کیسی پنچایت ہے جو ایک خاندان کے کسی ایک فرد کے جرم کی سزا مجرم کو نہیں اس کے خاندان کی ایک کمزورعورت کو دیتی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ اخلاق، شرافت، قانون، دین سب کی دھجیاں تار تار کرکے نئی نسل کے سامنے ان کے بڑوں کی وحشت و بربریت کوقابل تقلید نمونے کےطور پر پیش کیاگیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جاگیرداروں کی نجی جیلوں سے وابستہ کہانیوں کو تو ہم ختم نہ کرسکے مگراپنے قصبوں اور دیہات میں وحشت و بربریت کی داستانوں کو دہرانے لگے ہیں جو قوموں پرنزولِ عذاب کی نشانیوں کاحصہ ہیں۔ پرانے زمانے میں جب پنچایتیں وجودمیں آئی تھیں تو ان کا مقصد معاشرے میں امن و امان قائم رکھنا اور لوگوں کو ان کے دروازے پر انصاف مہیا کرنا تھا۔ اب جبکہ انصاف کی فراہمی کے لئے ملک بھرمیں اپر اور لوئر کورٹس یہ کام بخوبی کررہی ہیں ،حکومت اگر سستا انصاف مہیا کرنے کے لئے پنچائیت سسٹم برقرار رکھنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو ان کے لئے باقاعدہ قانون سازی کرکے ان کی حدود و قیود مقرر کی جانی چاہئیں۔
تازہ ترین