• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکم ہوا کہ آپ دو گھنٹے میں پہنچ جائیں۔ میں نے گھڑی دیکھی، باہر ٹریفک کارش دیکھا اور عرض کی’عالی جاہ ڈیڑھ گھنٹہ تو مجھے گاڑی شہر سے باہر نکالنے میں لگ جائے گا،باقی کا حساب خود لگا لیں۔ دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔پھر آواز آئی ’آپ میرے ایئرکرافٹ پر آجائیں‘۔ میں نے چونک کر دوبارہ کنفرم کیا۔ جواب بھی دوبارہ کنفرم ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد اُن کی گاڑی آگئی اور میں والٹن ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔یہ لگ بھگ بیس پچیس سال پہلے کی بات ہے۔مجھے ایئرکرافٹ چلانے کا شوق تو تھا لیکن بیٹھنے کا موقع پہلی دفعہ مل رہا تھا۔ اس چھوٹے سے جہاز کی چار سیٹیں تھیں۔ میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی پائلٹ صاحب بھی بیٹھ گئے۔ میں نے جہاز کی حالت دیکھ کر احتیاطاً پوچھ لیا’ہم پہنچ جائیں گے ناں؟‘۔ انہوں نے کچھ بولنے کی بجائے اثبات میں سرہلایا اورجیب سے بھنے ہوئے چنوں کا ایک پیکٹ نکال لیا جو کون کی شکل میں گول کیا ہوا تھا۔ کون انہوں نے جہاز کے ایک بٹن کے ساتھ اٹکائی اور ایک چنا اوپر کی طرف اُچھال کر منہ پورا کھول لیا۔ چنا سیدھا اُن کے منہ میں گرا۔ انہوں نے فخریہ نظروں سے میری طرف دیکھااور بولے’بس دو منٹ اور، ایک سواری اور ہے‘۔ میں نے سہم کر کھڑکی سے دیکھا ، چالیس پینتالیس کی عمر کے ایک موٹے سے صاحب ہانپتے کانپتے جہاز کی طرف آرہے تھے۔ میں نے پائلٹ کی طرف دیکھا، اُس نے مسکرا کر سرہلادیا۔ تھوڑی دیربعد ہم نے پائلٹ کی ہدایت پر ہیڈ فون کانوں سے لگالیے۔ پائلٹ نے ’فلائنگ گیئر‘ لگایا اورلمحوں میں ہم تین سواریاں فضا میں تھیں۔ جہاز کی پرواز اتنی نیچی تھی کہ کئی گھروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے مجھے وہ بچے بھی صاف نظر آرہے تھے جو ہمیں دیکھ کر منہ چڑا رہے تھے۔میں نے جہاز کے ڈیش بورڈ کی طرف نگاہ ڈالی جس میں عجیب و غریب بٹن لگے ہوئے تھے۔اچانک ایک بٹن کی طرف نظر پڑتے ہی میں الجھن میں پڑ گیا۔ یہ بٹن نہیں تھا بلکہ بٹن کی جگہ کو بال پوائنٹ پین کی کیپ سے بٹن بنا کر سہارا دیا گیا تھا۔ اسی اثنا میں پائلٹ نے جہازکاکوئی بٹن دبایا اور موسیقی آن ہوگئی۔پورا جہاز طوفانی آوازمیں اکرم راہی کا گیت نشر کرنے لگا۔ایک تو جہاز کی اپنی آواز، اوپر سے درد بھرے گیت۔میں نے پائلٹ کی طرف دیکھ کر خوشگوار منہ بنایا گویا بہت انجوائے کر رہا ہوں۔ میرے تاثرات دیکھتے ہوئے اس نے آواز مزید بلند کردی۔ پیچھے جو صاحب بیٹھے تھے وہ کسی بت کی طرح ساکت تھے۔ یکدم موسیقی بند ہوگئی۔ پائلٹ نے میری طرف دیکھا ’کیسا لگ رہا ہے سفر؟‘۔ میں نے انگوٹھا لہرایا’بہت شاندار...لیکن یہ آپ نے بٹن کی جگہ بال پوائنٹ کی کیپ کیوں پھنسائی ہوئی ہے؟‘۔ پائلٹ نے گال کھجائے’اصل میں اس کا یہ بٹن خراب ہوگیا تھا، مکینک کو دکھایا تو اس نے کہا کہ یہ نیا بٹن ڈالنا پڑے گا، اب مکینک ذرا اپنے گائوں گیا ہوا ہے اس لیے وقتی طور پر بال پوائنٹ کی کیپ لگا لی ہے۔‘ میں نے اثبات میں سرہلایا’تو کیا یہ بٹن بہت ضروری ہوتاہے؟‘۔ پائلٹ جلدی سے بولا’بہت ضروری، یہ نہ ہوتو جہاز اڑ ہی نہیں سکتا‘۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔’اور اگر یہ پین کی کیپ نکل جائے تو ؟؟؟‘۔ پائلٹ نے کانوں کو ہاتھ لگائے’اللہ نہ کرے، کیسی باتیں کررہے ہیں۔‘ یہ سنتے ہی میرا جسم سُن ہونا شروع ہوگیا۔ میں جیسے ہی کنکھیوں سے پین کی کیپ کی طرف دیکھتا، مجھے لگتا کہ وہ تھوڑا تھوڑا باہر کو سرک رہی ہے۔میں نے جلدی سے دھیان بٹانے کے لیے اردگرد کی چیزیں دیکھنا شروع کر دیں۔ میری سیٹ کے نیچے پیروں کے پاس سلانٹی کے دو خالی ریپر گرے ہوئے تھے۔ ایک طرف پسینہ پونچھنے والا چھوٹا تولیہ لٹک رہا تھا۔ٹشو کا ڈبہ پائلٹ صاحب نے جہاز کی چھت کے ساتھ الٹا کرکے لٹکا رکھا تھا۔جہاز کی ونڈ اسکرین پر ایک طرف سفر کی دُعا اور دوسری طرف قبرستان میں داخل ہونے کی دعا تحریر تھی۔مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ پائلٹ صاحب سے آکسیجن کی کمی کی شکایت کی تو سامنے سے نظریں ہٹائے بغیر چنے کا پھکا مارتے ہوئے بولے’شیشہ کھول لیں...اچھی ہوا آئے گی‘۔ میں نے ایک جھرجھری سی لی اور اُنہیں آگاہ کیا کہ اس جملے کے بعد مجھے ڈھیر ساری آکسیجن مل گئی ہے ۔ جہاز دس پندرہ منٹ اڑتا رہا، پھر اچانک پیچھے سے خاموش سواری کی منمناتی ہوئی آواز آئی’لیاقت ! نماز کا وقت ہورہا ہے‘۔ لیاقت نے آواز سنی اور ایک نظر نیچے کی طرف ڈالی۔ اللہ جانتا ہے مجھے ایسا ہی لگا جیسے وہ جہاز روکنے لگا ہے۔کچھ دیر جہاز یونہی چلتا رہا، اتنے میں جہاز نے کچھ ہچکولے لیے۔ پائلٹ نے سامنے ڈیش بورڈ پر نظر ڈالی۔ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا’بھائی جان خیریت ہے ناں؟‘۔ چنے کا آخری پھکا مارتے ہوئے بے نیازی سے بولا’بے فکر رہیں، اتنا پٹرول ہے کہ پہنچ ہی جائیں گے‘۔ میرا جسم خوف سے کانپنے لگا’پپ پہنچ ہی جائیں سے کیا مراد ہے؟‘۔ اُس نے ایک قہقہہ لگایا۔’ایک نہ ایک دن تو مرنا ہی ہے‘۔ میںنے بے بسی سے کہا’وہ تو ہے لیکن آپ کیوں وسیلہ بننے پر تلے ہیں‘۔اُس نے برا سا منہ بنایا’لیجئے ہم پہنچ گئے‘۔میں نے نیچے دیکھا، یہ دوسرے شہر کا ایئر پورٹ تھا ۔ کافی کھلا میدان تھا ۔ جہاز نیچے اترنا شروع ہوا۔پہلے تو لگا کہ پائلٹ صاحب سیدھا زمین میں دے ماریں گے، لیکن انہوں نے کمال مہارت سے لینڈنگ فرمائی۔ایک جھٹکا تک نہیں لگا بلکہ پورا انجر پنجر ہل گیا۔میں نے بمشکل سیٹ بیلٹ اتاری اور جلدی سے نیچے اترنے لگا۔ جونہی میں باہر نکلا، پائلٹ کی آواز آئی’ایک منٹ سر...پلیز آپ کے پاس پین ہوگا؟ میں نے جیبیں کھنگالیں اور اپنا بال پوائنٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے بال پوائنٹ کی کیپ اتاری اور باقی کا پین مجھے واپس کرتے ہوئے بولا ، شکریہ۔ میں نے جلدی سے گردن اندر کرتے ہوئے جہاز کے ڈیش بورڈ پر نگاہ ڈالی، پہلے والے پین کی کیپ ٹیڑھی ہوکر گر چکی تھی۔

تازہ ترین