• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین عدلیہ کی الماریوںمیں سر پٹخ رہا ہے۔ روپیہ سر بازار رُسوا ہورہا ہے۔ مہنگائی نے 23 میں سے 22 کروڑ سے نوالے چھین لیے ہیں۔ یہ تو سیاسی، آئینی، اقتصادی بحران ہیں جو سب کو دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان کے خاتمے کیلئے کوششیںبھی ہورہی ہیں ۔ان شاء اللہ 8 فروری کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت انتخابات ہوجائیں گے تو بحران ہر چند مکمل طور پر دور نہیں ہونگے لیکن رائے عامہ کی مدد سے ان کی شدت کم ہوجائے گی۔ بے روزگاری ،مہنگائی غربت،نچلے طبقے کیلئےزیادہ پریشان کن ہیں۔امیر طبقوں، جاگیرداروں، کارخانہ داروں، اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کیلئے تشویش کا باعث نہیں ہیں ۔کیونکہ ان کی آمدنی ان کے اخراجات سے زیادہ ہے۔ ریاست کی طرف سے بھی انہیں مراعات ملتی ہیں۔ لیکن ایک بحران ایسا ہے جس نے امیر، متوسط، غریب تینوں طبقوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ امیر گھرانوں کیلئے زیادہ کرب انگیز ہے۔ وہ اگر چہ بظاہر اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ لیکن یہ دیمک کی طرح ان خاندانوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔ نفسیاتی عوارض لاحق ہورہے ہیں۔ نہ صرف سکون آور دوائوں بلکہ نشہ آور ممنوعہ اشیا کا بے دریغ استعمال بڑھ رہا ہے۔ ان خاندانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔

یہ ہے اخلاقیاتی بحران۔ جس میں ابتدا جھوٹ سے ہوتی ہے۔ ماں باپ اولاد سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اولاد والدین سے۔ پھر اپنی غیر اخلاقی حرکات پر پردہ ڈالنے کیلئے مسلسل کذب بیانی کی جاتی ہے۔ امارت دولت کی فراوانی، آسائشوں کی بہتات میں ممنوعات سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں اعلیٰ مراتب، پوش علاقوں میں محلات، کروڑوں روپے کی گاڑیاں ان تکالیف کا ازالہ کردیں گی۔ جاگیردار،سرمایہ دار، اعلیٰ درجے کے بیورو کریٹ، فوجی افسر، کارپوریٹ ایم ڈی، سی ای او اکثر گھرانے ان حقیقی ابتلائوں سے دوچار ہیں۔ یہ کشمکش ہے، روایتی مشرقی طرز زندگی کی اور تیزی سے راسخ ہوتے مغربی رہن سہن کے درمیان۔ اقبال نے تو کہا تھاکہ’’ تمہاری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خود کشی کرے گی... جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔‘‘ لیکن یہ تہذیب درسگاہوں، ناولوں، فلموں،ڈراموں، سوشل میڈیا پر وڈیوز کے ذریعے مشرقی اقدار کو خود کشی پر مجبور کررہی ہے۔ اقبال کی یہ پیشنگوئی بھی پوری ہورہی ہے’’ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا.. عام دیدار یار ہوگا.. سکوت تھا پردہ دار جس کا.. وہ راز اب آشکار ہوگا‘‘ اعلیٰ طبقے کی شادیوں دعوتوں میں بھی دیدار عام ہے۔ فیشن ماہرین بھی سراپا نگاری میں مصروف ہیں۔

اب یہ اخلاقی گراوٹ پوش بستیوں کی سرحدیں پار کرکے متوسط طبقوں کی رہائش گاہوں بلکہ ذہنوں میں بھی داخل ہورہی ہے۔ اقتصادی پریشانیوں سے گھروں کے کفیل دو دو تین ملازمتیں کررہے ہیں۔ سرمائے کی تقسیم مساوی نہیں ہے۔ باپ بڑے بھائیوں کو گھر چلانےکیلئے 24 گھنٹوں میں سے اٹھارہ بیس گھنٹے کام پر جانا لازمی ہوگیا ہے۔ وہ گھر کی دیکھ بھال،بچوں کی تربیت کب کرے گا، میں اس لیے درخواست کرتا ہوں کہ آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ بیٹھیں ہفتے میں دو تین گھنٹے تو اپنی آئندہ نسلوں کو دیں، یہ آپ کے قلعے ہیں، ان کی فصیلوں کی حفاظت آپ کا فرض ہے۔ آپ صرف روپے کمانے کی مشین نہیں ہیں، ایک گھرانے کے سربراہ ہیں۔ صدیوں سے مستحکم ایک سماجی روایت کا ستون ہیں۔ یہ ثقافتی تسلسل آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی تربیت میں روایات سے انحراف ہورہا ہے۔ بڑے گھرانوں میں آیائیں دوسری تہذیبوں سے آرہی ہیں۔

ایک طرف تو والدین چاہے امیر ہوں یا غریب، اپنی مصروفیات کی بنا پر بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دے پاتے۔ کہیں کاروبار، کلب کی سرگرمیاں ،کہیں متوسط،غریب طبقے کی نئی نئی نوکریاں پھر عالمی سطح پر سوشل میڈیا پر عریانی اور سماجی بے باکی کے مقابلے۔ والدین نہیں دیکھ رہے کہ اسکول،کالج، ہوسٹلوں میں کیا ہورہا ہے۔ ایک دو چینل ڈراموں میں بتا بھی رہے ہیں۔ اسکول کالج کے اساتذہ کی اپنی محرومیاں۔ ن۔م راشد کے الفاظ میں ارباب وطن کی بے حسی کا انتقام بھی لیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر زندگی سے بھاگ کر درسگاہوں میں آتے ہیں۔

دوسری طرف مغرب خاص طور پر امریکہ کی جانب سے مشترکہ خاندانی نظام کے خلاف شعوری اور غیر شعوری مہم۔ ہالی وڈ اپنی فلموں کے ذریعے سانجھے کنبے کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ پھر بالی وڈ(بھارت) کی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ثقافتی یلغار، معاف کیجئے،ترکی کے ڈرامے بھی اس مہم کے تحت مسلمان ملکوں میں چلائے گئے، یہ سارے ارطغرل نہیں ہوتے۔

ایک اور اہم عنصر یہ ہے کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے سیاسی ڈسپلن تہ و بالا کردیا گیا۔ سیاست میں غلط بیانی کو عام کیا گیا، اصولوں پر سودے بازی کو مفاہمت، کہیں سیاسی حکمت عملی کا نام دیا گیا۔ صاف صاف کہا گیا کہ وہ جھوٹا اعلان سیاسی بیان تھا۔ مطلب یہ کہ منافقت، مصلحت، کذب سیاست کی پہچان ہے۔ سب سے زیادہ تہذیبی، اخلاقی انحطاط کا سبب یہ سیاسی رویہ بنا ہے۔ اب گھر گھر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اسے سماجی روایت بنالیا گیا ہے۔اسی رویے نے پھر جرائم، قانون شکنی کو نظر انداز کرنے، غلط کاری پر چشم پوشی کو رواج دیا ہے۔چشم پوشی عدلیہ بھی کررہی ہے، انتظامیہ بھی، اسٹیبلشمنٹ بھی، علمائے دین بھی۔ بچوں سے جھوٹ بلوایا جاتا ہے۔ نوکروں کو اپنے جرائم میں شریک کیا جاتا ہے۔ وہ بے چارے یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ گھر کا چولہا بھی تو جلانا ہے۔ یہ جواربوں کھربوں کے ڈاکے ہیں۔ کیا یہ بڑے لوگ چھوٹے لوگوں کے بغیر ڈال سکتے ہیں۔ ڈرائیور، منشی، خانساماں سب شریک ہوتے ہیں۔ مجرموں کو سہولتیں دی جارہی ہیں۔ پہلے یہ صرف جیل اور حوالات تک محدود رہتی تھیں۔ اب یہ گلوبل ہوگئی ہیں۔ حمیت تیمور کے گھر سے چلی گئی ہے۔ ہیبت اور دبدبہ بھی بک رہے ہیں۔

اخلاقی طور پر بڑے گھروں میں ایسی نقب لگ رہی ہے کہ ان کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بڑی درسگاہوں، اسکولوں، کمپنیوں میں ہمارے آئیڈیل اب واشنگٹن، لاس اینجلز، لندن،مانچسٹر، دوبئی، پیرس ہیں۔ محلے کے کریانہ اسٹور آپ کی شرم رکھتے تھے۔ شاپنگ مال مال و دولت دنیا کی تماشا گاہیں ہیں۔

سیاسی اقتصادی بحران تو الیکشن کے بعد عوام کے مینڈیٹ سے ختم ہوجائیں گے۔ اس میں عالمی ادارے بھی معاونت کریں گے، مگر اخلاقی بحران پیدا کرنے میں تو عالمی طاقتیں بھی برابر کی شریک ہیں۔ یہ بحران پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ ، کے پی کے، بلوچستان ، گلگت بلتسان آزاد جموں و کشمیر سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ کیا آپ اپنے بچوں بچیوں کے اسکول کالج سے پکنک اور خاص طور پر دوسرے شہروں میں جانے پر نظر رکھتے ہیں۔

فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

تازہ ترین