• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابی فہرستوں کی تکمیل اور بروقت حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اب انتخابات پر شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔صورتحال بالکل واضح ہوگئی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ 16 دسمبر تک انتخابی شیڈول بھی متوقع ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ الیکشن شیڈول انتخابات سے 54 روز پہلے جاری ہوگا۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 6نشستیں کم ہوگئی ہیں۔ جنرل نشستوں کیلئے 266اور صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593حلقے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے 5 اگست 2022کو حلقہ بندیاں کی تھیں مگر پھر ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کی وجہ سے اسے قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔ حتمی حلقہ بندیوں کے مطابق اسلام آباد کی تین جنرل نشستیں ہوں گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، صوبائی اسمبلی کی 297، سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 اور صوبائی اسمبلی کی 130، خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 ، صوبائی اسمبلی کی 115 اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16اور صوبائی اسمبلی کی 51 جنرل نشستیں ہوں گی ۔ اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342نشستیں کم ہو کر 336رہ گئی ہیں جس کی وجہ قبائلی علاقوں کا انضمام ہے۔ 2018میں فاٹا کی آزاد حیثیت تھی اور اس کی 12نشستیں تھیں 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا اور اس کی نشستیں 6 کردی گئیں۔1336شکایات اور تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد نئی حلقہ بندیوں میں معمولی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ ووٹرز کی کل تعداد کے بجائے آبادی کے لحاظ سے حلقہ بندی کا ایک مقصد این ایف سی سمیت دیگر وسائل کی تقسیم بھی ہے۔ ابھی تک ایم کیو ایم کے سوا کسی سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن کی طرف سے کی جانے والی ان حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ چیف الیکشن کمشنرنے ایم کیو ایم کے خدشات سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اب اگر کسی کو حلقہ بندیوں پر اعتراض ہوگا تو اسے الیکشن کمیشن کے بجائے عدالتوں کا رخ کرنا پڑیگا۔

تازہ ترین