• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب چیزیں فطری ڈگر سے ہٹ کر اسکرپٹ پر چلیں تو ایسے میں انقلاب تو کیا ارتقا کی امید بھی بےمعنی ہے! پھر وہی سوچ، وہی سَرابوں کا تسلسل، مژدۂ خوبی تعبیر نہ بادِ سکُوں خیز... پھر یہ بھی کہ کوئی واقِفِ حالات سب ہیں اور سب صاحبِ اِدراک، لیکن منزل سے سب بے خبر۔

جب تک پاکستان میں ایک طبقہ مکمل دانشورانہ و منصفانہ انداز سے نہیں سوچے گا ، اس ضمن میں سیاسی و مذہبی و علاقائی تعصبات کو بھی بالائے طاق رکھنا پڑے گا ،تب جا کر پاکستان کے معاشی، تعمیری ، زرعی، تعلیمی اور معاشرتی حالات ٹھیک ہونگے۔ بھلے ہی اس طبقہ کی بات میڈیا سنے نہ اقتدار کی راہداریاں مگر اسے بولنا ہوگا، کتنے دن اربابِ اختیار نہیں سنیں گے ؟ نیوٹرل طبقہ شرفا کے ایون فیلڈ سے العزیزیہ تک کا جائزہ خود لے اور خود سمجھے کہ پانامہ کہانی سے اقامہ تک کی اصل کہانی کیا تھی، اس پر ملک و ملت کے کتنے اخراجات آئے اور کتنا وقت ضائع ہوا؟ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے سرے محل کی داستان کیا تھی؟ آصف علی زرداری کو ٹین پرسنٹ کس نے اور کیوں کہا؟ کہنے والوں نے بعد میں زرداری صاحب سے کیسے راہ و رسم رکھے؟ کس کس سیاسی مخالف نے کب سرخ قالین بچھایا، کب معافی مانگی اور آخر آصف زرداری سےمعافی مانگنے کی وجہ کیا تھی؟ یہ بہت سادہ سوالات ہیں۔

عمران خان نے کیسےاور کب سیاسی بلندیوں کو چُھوا ؟ اس عروج کے محرکات کیا تھے اور آج اسکا زوال تراشنے میں کون پیش پیش ہے اور کیوں ؟ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے اور اسے کامیاب بنانے کی ذمہ داری آخر آصف علی زرداری ہی کو کیوں دی گئی تھی؟ مولانا فضل الرحمٰن ، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم کی سیاست کا ماضی قریب کیا ہے؟ آج کی فکری نشست میں ماضی بعید کو ذرا چھوڑ دیجئے کہ ماضی قریب اچھی طرح فوکس ہو سکے !

یقیناً قارئینِ باتمکین کا سوال یہ ہو گا کہ فکر کرے کون ؟ اس کا بڑا سادہ سا جواب یہ ہے کہ قانون دان، میڈیا ماسٹرز اور اساتذہ غور کریں! اور غور بھی ، غور کرنے والوں کی طرح کریں جو سطحی ہو نہ جذباتی، محققین والا فکر ہو !اگر یہ فکر اور تحقیق کرنے سے مذکورہ بالا طبقہ قاصر ہے تو پھر ترقی، انقلاب حتٰی کہ ارتقا والا کیڑا بھی مار ہی دیجئے۔

امریکہ کے سائنا کالج برائے ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور میڈیا سے وال اسٹریٹ جرنل آج بھی ان امریکی صدور کی رینکنگ کو حالیہ تناظر میں بھی تازہ کرتا رہتاہے جو ان کے مائی باپ اورمعمار ہیں، گر ان کا گریڈ یا رینکنگ اوپر نیچے چلا جائے تو وہ اسے کفر سمجھتے ہیں نہ ملک دشمنی، جائزے کیلئےپروفیسرز، جونیئر و سینئر محققین، بش پسندوں اور اوباما پسندوں کو بھی بٹھایا جاتا کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک تعصب غبار بھی نکل جائے پھر سارے ڈیٹا کو جدول کر کے سامنے لایا جاتا ہےکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ،کل ابراہم لنکن و روز ویلٹ کا جو بائیڈن سے موازنہ اور ریگن کا ٹرمپ سے موازنہ ہونا ہی ہونا ہے۔ استاد ، قانون دان اور میڈیا نے اس پر کام کرنا ہی کرنا ہے چاہے کوئی ہنسے یا روئے، پینٹاگون بھی خوش ہو یا ناخوش مفکر نے فکری دریچے بند نہیں کرنے اور نہ فراست کو تعصب کی بھینٹ چڑھنے دینا ہے!

دو دن قبل ہمیں انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پنجاب یونیورسٹی) کی تیسری سالانہ’’قومی کانفرنس برائے تحقیقِ تعلیم‘‘ میں حاضری کا اعزاز ملا تو ہم نے میزبان پروفیسر ڈاکٹر شاہد فاروق چوہدری اور قائدین و حاضرین سے اپنے موضوع’’ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سربراہان کی تقرری اور حکومتی ترجیحات‘‘کے تناظر میں دست بستہ فریاد کی کہ سارا قصور حاکمین اور بیوروکریسی ہی کا نہیں ، ان دونوںکی ٪33 ، ٪33 کے علاوہ ٪33 خرابیوں کے ذمہ دار آپ معزز وائس چانسلرز اور پروفیسرز بھی ہیں۔ اور میں اس عظیم اور قدیم ادارے کو کہتا ہوں تحقیقِ تعلیم میں پہلے اسی پر ہی ریسرچ کر کے دیکھ لیں، سیاسیات ، تاریخ اور لا کالج ملٹی ڈسپلن کی روح سے مشترکہ تھیسس/ مقالہ کرکے دیکھ لیں پھر حکومت اور میڈیا کے سامنے تو رکھیں! کوئی تو ہو جو ہماری وحشتوں کا ساتھی ہو !

خیر، آنے والے عام انتخابات، اگر واقعی آ جاتے ہیں تو ان سے قبل جو میاں نواز شریف کو ریلیف ملا ہے اس پر ناقد کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ قصہ کیا ہے، کیا کسی ماضی کی غلطی کا ازالہ ہے یا کوئی نیا نظریہ ضرورت ؟ ناقد اسے کسی عرفان صدیقی کی دانشوری میں نہ دیکھے کہ وہ تو جماعت کی حمایت ہی میں لب کشا ہونگے۔ جب درسگاہوں میں سیاسی امور اور جمہوری رویوں کا قحط ہو گا تو لیڈر شپ سیاسی تو نہیں پھر الاماشاءاللہ بشیر میمن ہی سے لیڈر ہوں گے ، اور یہ بشیر میمن اور احسن اقبال یا رانا مشہود سے ایک جیسی جہاندیدہ اور عوامی قیادت نہیں ہو سکتے، رانا مقبول اور راؤ رشید سے کب اچھے لیڈر پہلے ثابت ہوئے تھے؟ بشیر میمن یا منشی صاحب آنے والے الیکشن کے حوالے سے سندھ یا پنجاب میں لیول پلینگ فیلڈ کی مانگ سامنے رکھیں تو لطیفہ کے علاوہ اسے کیا سمجھا جاسکتا ہے؟

تعبیر، تعمیر اور 18ویں ترمیم کے خُم و ساغَر اداس ہیں !قوم کیلئے اگر یہ سب بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت سے تجدیدِ عہد کو تقویت بخشتے ہیں یا آصف زرداری کے وژن کے مطابق کوئی میثاقِ معیشت تراش کر آگے چلتے ہیں تو فطری ڈگر پر اسکرپٹ سے ہٹ کر بات لگے گی۔ اور پیپلزپارٹی کے 56ویں یوم تاسیس پر کوئٹہ میں 18 ویں ترمیم پر ان کا فرم اور کنفرم اسٹینڈ اچھا لگا جو محض جمہوریت نہیں جمہوری خودمختاری کی بات ہے، بے شک زرداری کے حصہ میں سیاسی بَرزَخ کی مسافت ہی آئے... بہرحال انہیں چاہئے کہ وہ ایم کیو ایم ، مولانا فضل الرحمٰن ، جناب سراج الحق، پی ٹی آئی قیادت کے علاوہ بلوچ اور پختون قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے در وا کریں کہ انتخابی اتحاد ہی کیلئے نہیں انتخابی وقار، لیول پلینگ فیلڈ اور میثاقِ جمہوریت و میثاقِ معیشت کے علاوہ مژدۂ خوبی تعبیر اور بادِ سکُوں خیز کیلئے!

تازہ ترین