میز کی دوسری جانب بیٹھی شخصیت پنجاب یونیورسٹی سے بطور استاد وابستہ تھی اور ان کے سوال میں ایک اور ہی زاویہ فکر موجود تھا ۔ اگر اب ملک میں دوبارہ کبھی واضح یا پردہ دار مارشل لا نافذ ہوا تو سیاسی جماعتوں کے پاس ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی تیاری اور صلاحیت موجود ہے یا نہیں ؟ آپ نے موجودہ حالات میں ایسا سوال کیوں پوچھا ،کا ان کے پاس سیدھا سادہ سا جواب تھا کہ پاکستان کی سیاست میں وہ تمام عوامل اب بھی اسی طرح موجود ہیں جو ماضی کی فوجی مداخلتوں کے اوقات میں جلوہ فرما تھے ۔ اس لئے اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ کوئی خطرہ سر پر منڈ لا رہا ہے بلکہ ایک امکانی کیفیت کے طور پر اس سوال پر سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو غور کرنا چاہئے ۔ انکےسوال کو اگر آسان کر کے بیان کیا جائے تو وہ یہ پوچھ رہے تھے کہ سیاسی جماعتیں کیا ماضی کی نسبت زیادہ توانا ہو چکی ہیں یا نہیں ؟ میں نےعرض کیاکہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس بات کو واضح کیا جائے کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی کیا وجوہات ہوتی ہیں حالانکہ ہم ماضی کو اگردیکھیں تو یہ حقیقت سامنےہوگی کہ غیر آئینی کسی بھی واضح یا پوشیدہ اقدام کے وقت جس سیاسی قائد کیخلاف اقدام کیا گیا،اسکی عوامی مقبولیت قائم تھی جولائی انیس سو ستتر سے لے کر جولائی دو ہزار سترہ تک کی تاریخ ہمارے سامنےہے ۔
سیاسی جماعتوں میں ایک مؤثر طبقہ اپنے پس منظر کی وجہ سے نظریاتی شخصیات کی جگہ پر برا جمان ہوتا ہے اور وہ تب تک ہی ساتھ ہوتا ہے جب تک ان کے مفادات اس ساتھ سے جڑے ہوتے ہیں جیسے ہی مفادات پر زد پڑے تو ان کے جدا ہونے یا من مانی کرنے میں ذرا دیر نہیں ہوتی ۔ قیام پاکستان سے قبل ہی میاں ممتاز دولتانہ اور نواب افتخار ممدوٹ کے درمیان اختلافات تھے ۔ نواب افتخار پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے اور اس منصب تک پہنچنے کیلئے ان کی حقیقی قابلیت صرف یہ تھی کہ ان کے والد نواب شاہ نواز ممدوٹ کا انتقال انیس سو بیالیس میں بطور صدر پنجاب مسلم لیگ ہوا تھا اور وہ اپنے والد کی جگہ پر پنجاب مسلم لیگ کے صدر بن گئے تھے ۔ ممتاز دولتانہ ان سے اپنے آپ کو بدر جہا بہتر اور قابل سمجھتے تھے ۔ آزادی کے بعد نواب افتخار ممدوٹ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے جبکہ ممتاز دولتانہ ان کی کابینہ میں وزیر تھے مگر دونوں کی رسہ کشی نو زائیدہ ملک میں اس حد تک پہنچ گئی کہ قائد اعظم کو خود مداخلت کرنا پڑی ۔ انہوں نے نواب افتخار ممدوٹ ، ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات کو کراچی بلايا اور تینوں صاحبان کو مستعفی ہونے کا کہا ۔ ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات نے تو فوری استعفے دے دیے مگر ڈاکٹر صفدر محمود کی تحقیق کے مطابق نواب ممدوٹ نے اس پر غور کرنے کیلئے مہلت مانگی اور لاہور چلے گئے ۔ اس ملاقات سے قبل قائد اعظم سے ڈاکٹر ضیاء الاسلام صدر پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن اور طالب علم رہنما شیخ خورشید احمد نے ملاقات کی تھی ۔ انہی ڈاکٹر ضیاء الاسلام نے بتایا کہ جب انکی اس سب کے بعد نواب ممدوٹ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ملتے ہی کہا کہ ’’بابا مجھ سے استعفیٰ مانگ رہا ہے لیکن میں استعفیٰ نہیں دونگا‘‘ اس ایک فقرے سے اس کا آسانی سے تعين کیا جا سکتا ہے کہ ان کی نظریاتی وابستگی کتنی ہوگی اور احترام کتنا کرتے ہونگے ۔ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرا بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بر سر اقتدار آ جاتی ہیں تو ان کے قائد کو بہت تیزی سے عوام سے دور کر دیا جاتا ہے اور جب وہ عوام سے دور ہوجاتا ہے تو لا محالہ ان شخصیات سے بھی دور ہو جاتاہے جو سیاسی جدو جہد میں اسکےپیغام کو عوام تک پہنچانے میں بہت فعال رہی ہوتی ہیں اور ان افراد کی جگہ ایسے نا مانوس چہرے لے لیتے ہیں کہ سب دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے آ گئے۔ خاص طور پر بیورو کریسی کے حاضر اور ریٹائرڈ افراد کو اس میں ید طولی ٰحاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی چرب زبانی سے قربت حاصل کر لیتے ہیں حالانکہ نہ تو ان کا سیاسی جدو جہد سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی وہ سیاسی ذہن رکھتے ہیں مگر وقتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی حیثیت تو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر جیسی ہے کہ ہر راستہ ان کی طرف ہی جاتا ہے ۔ پھر یہ بھی بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح سے پس رہے ہیں اور انکے سامنے کوئی ایسا نعرہ ، لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے ان کی مشکلات میں فوری طور پر کمی لائی جا سکے ۔ ایسا منشور پیش کیا جائے کہ جس پر عوام یہ یقین رکھیںکہ وہ انکے مسائل کے حل کیلئے بہت فعال کردار ادا کرے گا ۔ مثال کے طور پر میں نے حال ہی میں اعلیٰ ترین سیاسی شخصیت کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ کھانے پینےکی انتہائی ضروری اشیا کی قیمتوں کو منجمد کردیا جائے اور اس حوالے سے باقاعدہ حکمت عملی مرتب کی جائے ۔ یہاں تک گفتگو کرکے میں ٹھہر گیا اور اپنے مخاطب کی جانب دیکھنے لگا وہ بولے کہ آپ کی گفتگو سے ایک بات واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں ان مسائل سے ابھی تک جان نہیں چھڑا سکیں جن کی وجہ سے غیر آئینی اقدام کی راہ میں وہ حائل نہیں ہو پاتیںاور ان کی قیادت کو بد ترین مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بات درست تھی مگر ان کے سامنے امید ظاہر کی کہ اگلے عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور امید ہے کہ اب سیاسی جماعتیں اقتدار کی طرف بڑھتے ہوئے ان مسائل پر قابو پانے کی بھی کوشش کریں گی ۔