• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو شاعری میں محبوب کا وہی مقام ہے جو کسی سیاسی پارٹی میں بانی جماعت کا، اُس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا،اُس کے ایک اشارہ ابرو پر عاشقوں کی فوج اور جاں نثاروں کی جماعت کَٹ مرنے کو تیار رہتی ہے۔محبوب کی ناز و ادا اور عِشوہ گری کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا، عُشاق اُس پر جان چھڑکتے ہیں اور محبوب کا قُرب حاصل کرنے کیلئے دیوانہ وار پھرتے ہیں۔ محبوب چاہے تو عاشق کو اپنے دیدار سے فیض یاب کردے اور چاہے تو اُس سے نظریں پھیر لے، محبوب سے پُرس نہیں کی جا سکتی ،محبوب پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا،وہ جتنے مرضی یو ٹرن لے اسے کوئی غلط نہیں کہہ سکتا ، وہ چاہے تو رقیب کے ساتھ مے پیے اور چاہے تو نامہ بر کےساتھ فلرٹ کرے، کسی عاشق کی مجال نہیں کہ اُس کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھے کہ تمہارا نظریہ عشق کیا ہے، اگر جلوت میں رقیب کو برا بھلا کہتے ہو تو خلوت میںنامہ برکو مذاکرات کا پیغام کیوں دیتے ہو؟ غالب کہیں کہیں موقع پا کر اُس سےسوال کر لیتا ہے مگر اِس انداز میں کہ محبوب کو برا نہ لگے۔ملاحظہ ہو:’’میں مضطرِب ہوں وصل میں خوفِ رقیب سے...ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں ۔‘‘یعنی میں تو اِس لیے مضطرِب ہوں کہ کہیں ہماری ملاقات کے دوران رقیب نہ آجائے مگر اے محبوب تم کیوں فکر مند ہو، کیا تمہارے دل میں بھی چور ہے ؟یوں لگتا ہے جیسے غالب نے یہ شعر ایوان ِصدر میں بیٹھ کر کہا تھا!

اردو شاعری کا دوسرا دلچسپ کردار عاشق ہے، پاکستانی ووٹر کی طرح اِس بیچارے کی بھی کوئی زندگی نہیں، اِس کے صرف فرائض ہیں حقوق نہیں ۔ یہ محبوب پر منحصر ہے کہ کبھی کبھار اُس پر ترس کھا کر اپنی محفل میں بلا لے اور وہاں بھی عاشق کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے غیر کے ساتھ چہلیں کرتا رہے۔یہ عاشق کی ڈیوٹی ہے کہ وہ محبوب کو ہمہ وقت اپنی وفاداری کا یقین دلاتا رہے،اُس کے حسن و پیراہن کی تعریف کرے، گاہےگاہے محبوب کو خط لکھے اورآشفتہ سری میں اُس کے گلی کوچے کا طواف کرتا رہے۔’’وائے دیوانگی ِ شوق کہ ہر دم مجھ کو...آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا۔‘‘ اِس کے ساتھ ساتھ عاشق رقیب پر بھی نظر رکھتا ہے اورنامہ برکوبھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ کہیں عاشق کا خط پہنچاتے پہنچاتے وہ خود ہی محبوب پر لٹّو نہ ہوجائے ۔’’تجھ سے توکچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم.... میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔‘‘اِس سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اردو شاعری کا محبوب خاصادل پھینک واقع ہوا ہے مگرسچے عاشق کو لفٹ نہیں کرواتاکیونکہ محبوب جانتا ہے کہ عاشق اپنے عشق کے ہاتھوں مجبور ہے ،اگر اسے صحبت میسر نہ بھی آئی تو پھربھی وہ اُس کے درپر ہی پڑا رہے گا ،کسی دوسرےکو ووٹ نہیں دے گا۔

رقیب کو آپ اردو شاعری کا ولن سمجھیں، محبوب کی نظرِ التفات رقیب پر ہی رہتی ہیں اور اِس کا عاشق کو بے حد قلق رہتا ہے ،عاشق مختلف ذریعے سے اپنا مدعا محبوب کے سامنے پیش توکرتا ہے مگر رقیب کی بزم میں اُس کا بس نہیں چلتا ۔’’اُس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالب...ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے۔‘‘محبوب اور رقیب کا قُرب دیکھ کرعاشق آہیں بھرتا ہے اور اپنی بد نصیبی پر ماتم کرتا ہے۔کبھی کبھار عاشق جی کڑا کرکے محبوب سے رقیب کے تعلق کی بابت پوچھ بھی لیتا ہے مگر یہ ہمت غالب کے سوا کسی میں نہیں ۔’’کہا تم نے کہ ’کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی؟... بجا کہتے ہو،سچ کہتے ہو،پھر کہیو کہ ’’ہاں کیوں ہو؟‘‘اِس شعر میں عاشق نے جب محبوب سے پوچھا کہ تم غیر سے کیوں ملتے ہو تو محبوب نے جواب دیا کہ اِس میں کوئی ایسی بات نہیں ، He is just a friend، اِس پر عاشق نے طنزاً کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو ذرا پھر سے کہو تاکہ سب سُن لیں۔اصل میں غریب عاشق کا کوئی قصور نہیں ،اُس کے ساتھ کبھی کسی نے وفا ہی نہیں کی ،لہٰذا اُس کا ہر کَس و ناکَس پر شک کرنا قابل فہم ہے ۔عاشق خلوص نیت کے ساتھ محبوب کی وفا کا دم بھرتا ہے اور اسے یقین دلاتا ہے کہ اُس کا شوق ِ شہادت کبھی ماند نہیں پڑے گا ، وہ تو قتل گاہ میں عریاں شمشیر دیکھ کر بے حال ہوجاتا ہے کہ آج محبوب کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوگی ۔’’عشرتِ قتل گہِ اہل ِتمنا مت پوچھ...عید ِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا۔‘‘مگر محبوب اِس قدر کٹھور ہے کہ سچے عاشق کو ٹھکرا کر کوچہ رقیب میں سر کے بل جاتا ہے۔

ناصح کو آپ اردو شاعری میں سول سوسائٹی یامیڈیا کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں، یہ عاشق کو نصیحتیں کرتا ہے اور اسے سمجھاتا ہے کہ کچھ عقل سے کام لو،کیوں اپنی زندگی ایسے پتھر دل محبوب کے پیچھے برباد کرتے ہو،تمہارا یہ مقام تو نہیں کہ اُس کی ہر بات پر لبیک کہو، کچھ دماغ سے کام لو،سوچو،سمجھو، دیکھو، کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ محبوب تم سے زیادہ رقیب سے گفتگو کرنے میں دلچسپی رکھتاہے،شاید وہ رقیب کو طاقت کا منبع سمجھتا ہے۔لیکن اِن پند و نصائح کا عاشق پر کچھ اثر نہیں ہوتااور وہ اُلٹا سوال کرتا ہے۔’’حضرتِ ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش ِ راہ... کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟‘ یعنی ناصح کی کسی دلیل کا اثر عاشق پر نہیں ہوسکتا کیونکہ اُ س کے دماغ میں وہ ’چِپ‘ ہی نہیں لگی جو اسے محبوب سے بیزار کرسکے۔ویسے بھی عاشق کا خیال ہے کہ اُس کے محبوب نے آج تک کس سے وفا کی ہے جو رقیب سے نبھائے گا!’’رشک کہتا ہے کہ اس غیر سے اخلاص حیف...عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا؟‘‘مجھے اِس قسم کےعاشقوں سے ہمدردی ہے مگر فی الحال اِن کا چمن ویران ہے،بھیڑ کسی اور مے خانے میں لگی ہے ،بلبلیں نغمہ سرا تو ہیں مگر دوسرے گلستاں میں ۔ عاشق ،محبوب ، رقیب اور غیر اُس گلستاں میں بھی ہیں مگر فی الحال وہاں کسی کو شوق شہادت نہیں ، وہ شامِ تنہائی کاٹ چکے، اب انہیں ساقی کا انتظار ہے جو اُن کی تشنہ کامی کا مداوا کرے گا۔’’میں اور بزم ِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں...گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟‘‘اب انتظار ساقی کا ہے، دیکھئے اِس مرتبہ وہ کس کے سامنے جام رکھتا ہے!

تازہ ترین