بلوچستان اپنے وسیع و عریض رقبے، طویل ساحلی پٹّی، جغرافیائی اہمیت اور معدنی وسائل کے باعث باقی صوبوں کی نسبت زیادہ امتیازی حیثیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ ہر چند کہ اِس صوبے سے غربت وپس ماندگی کے خاتمے، دودھ، شہد کی نہریں بہانے کے وعدے اور دعوے ہر سیاسی جماعت اور ہر دورِ حکومت میں کیے گئے، حتیٰ کہ اِس وقت بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے متعدّد افراد اہم عُہدوں پر فائز ہیں، مگر اس کے باوجود بلوچستان میں مسائل ہی مسائل ہیں۔
یہ مسائل کب حل ہوں گے اور کب صوبے کے مکین ترقّی وخوش حالی کے حقیقی ثمرات سے مستفید ہوں گے، یہ وہ سوالات ہیں، جو نہ صرف بلوچستان بلکہ مُلک بَھر کے عوام کے ذہنوں میں اُبھر رہے ہیں۔ سالِ رفتہ کے دَوران جہاں نگران وزیرِ اعظم کے منصب پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کاکڑ کا تقرّر کیا گیا، وہیں اِن سے قبل چیئرمین سینیٹ کا عُہدہ بھی بلوچستان کے پاس تھا۔
اِسی طرح چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کی سُبک دوشی پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بھی بلوچستان ہی سے ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کی نگرانی کا چارج بھی بلوچستان ہی کو دیا گیا۔ یوں سالِ رفتہ کے دَوران جہاں بلوچستان کے مسائل کی صدائے بازگشت مختلف مواقع پر سُنائی دیتی رہی، وہیں مرکز میں اہم عُہدو ں پر یہاں سے تعلق رکھنے والوں کی تقرّری و تعیّناتی پر بھی بحث جاری رہی۔
بلوچستان میں سال 2023ءکی شروعات سیاسی غیر یقینی سے ہوئی۔ برسرِ اقتدار’’باپ پارٹی‘‘ کے میر جام کمال کو ہٹا کر وزیرِ اعلیٰ بننے والے اِسی پارٹی کے میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف جام کمال اور بعض دیگر ارکان 2022ء کے آخر میں خاصے سرگرم ہوگئے تھے، مگر اُن کی کوششیں کام یاب نہیں ہوئیں، تاہم، 2023ء میں باپ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ان دو سابق وزرائے اعلیٰ میں سے میر جام کمال مسلم لیگ نون کو، جب کہ میر عبدالقدوس بزنجو پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے۔
بلوچستان میں روایتی طور پر موقع دیکھ کر جماعتیں بدلنے والوں کی اُڑانوں کا سلسلہ سال بَھر جاری رہا۔ سالِ نو کے آغاز پر جو ارکانِ اسمبلی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے، وہ محض گیارہ ماہ بعد مسلم لیگ نون کا حصّہ بن گئے۔ 30نومبر کو پیپلزپارٹی نے اپنے56ویں یومِ تاسیس کا مرکزی جلسۂ عام کوئٹہ کے ایّوب اسٹیڈیم میں منعقد کیا۔ یہ میدان شہر کے بیچ میں ہے اور عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اِسے مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے علاوہ کوئی جماعت اکیلے نہیں بَھر سکتی۔
شاید اِسی تاثر کو زائل کرنے کے لیے پی پی پی نے یہاں جلسۂ عام کیا اور میدان بَھرنے کے لیے بلوچستان کے علاوہ سندھ سے بھی کارکنان کو بسز میں بَھر بَھر کر کوئٹہ لایا گیا۔ اِس جلسۂ عام سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹّو زرداری، سابق صدر آصف علی زرداری اور دیگر مرکزی و صوبائی قائدین نے خطاب کیا۔ بلاول اور آصف زرداری نے مسلم لیگ(نون) سے متعلق دِل کی خُوب بھڑاس نکالی اور اسے’’ منہگائی لیگ‘‘ قرا ر دینے کے ساتھ یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ اقتدار میں آکر اٹھارہویں ترمیم رول بیک کرنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(نون) یوں بھی ایک دوسرے کے لیے آگ اور پانی تصوّر کیے جاتے ہیں۔ اِسی لیے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی سُبک دوشی کے چند ہی ہفتوں بعد دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف روایتی انداز میں مورچہ زن ہوگئیں۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹّو سے پہلے میاں برادران بھی کوئٹہ آئے۔
میاں نواز شریف نے اپنی ہم خیال جماعتوں کے وفود سے ملاقاتیں کیں، وہیں اس موقعے پر سابق وزیرِ اعلیٰ، جام کمال خان سمیت دو درجن سے زائد شخصیات نے مسلم لیگ(نون) میں باضابطہ شمولیت اختیار کی۔ 2دسمبر کو محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتون خوا میپ نے ایّوب اسٹیڈیم میں ایک بڑا جلسۂ عام منعقد کیا، تو اُسی روز اس جماعت سے الگ ہونے والے دھڑے نے شہید عثمان خان کاکڑ کے فرزند، خوش حال خان کاکڑ کی قیادت میں ’’پشتون خوا نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کے نام سے نئی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔
اِسی طرح جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان ہوتی بھی گزشتہ برس کے دوران سیاسی سرگرمیوں کے سلسلے میں کوئٹہ آتے جاتے رہے۔کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام نے ایّوب اسٹیڈیم میں، بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہاکی گراؤنڈ میں اور عوامی نیشنل پارٹی نے چمن میں بڑے بڑے جلسے کیے۔ انتخابات کے پیشِ نظر قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے عوامی رابطہ مہم، کارنر میٹنگز اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
تاہم مبصّرین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ روایتی سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے پاس بلوچستان کے سلگتے مسائل کے حل سے متعلق کوئی مؤثر حکمتِ عملی یا منشور نہیں ہے، اِس لیے موسمی سیاست دانوں کی اِدھر اُدھر کی اُڑانوں، سیاسی جماعتوں کے بلند بانگ دعووں میں بلوچستان کے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں۔ محمود خان اچکزئی، سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، خوش حال خان کاکڑ، مولانا محمّد خان شیرانی، مولانا عبدالواسع اور اصغر خان اچکزئی نے عوامی رابطہ مہم کے تحت کئی جلسے جلوس کیے۔
سالِ رفتہ کے دَوران بلوچستان میں بدامنی، بد ترین ٹریفک حادثات، معاشی بندشوں اور توانائی بحران کے خلاف حسبِ سابق احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، تو صوبے میں امن وامان کی صُورتِ حال مخدوش ہی تھی۔مختلف علاقوں میں خودکُش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اِس بار بلوچ کے ساتھ پشتون علاقوں میں بھی خودکُش حملوں، ٹارگٹ کلنگز اور بم دھماکوں کے واقعات رُونما ہوئے، جن میں سیکیوریٹی فورسز اور سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ ان واقعات کی ذمّے داری کالعدم بلوچ آزادی پسند تنظیمیں بی ایل اے، بی ایل ایف اور کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش قبول کرتی رہیں۔
پھر ایک طرف چمن بارڈر پر طالبان کے ساتھ سیکیوریٹی اہل کاروں کی جھڑپیں ہوئیں، تو دوسری طرف ژوب بارڈر پر بھی حملے ہوئے۔ ژوب ہی میں فوجی چھاؤنی پر حملے اور امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق کے قافلے پر خودکُش حملے کا واقعہ رُونما ہوا، جب کہ ژوب اور کوئٹہ کے بیچ، مسلم باغ کے علاقے میں ایف سی قلعے پر بھی حملے کا واقعہ پیش آیا۔ پسنی کے قریب ساحلی شاہ راہ پر فوجی کانوائے پر حملے میں متعدّد سیکیوریٹی اہل کاروں کی جانیں گئیں، جب کہ دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ میں پیش آیا، جہاں بارہ ربیع الاوّل کے جلوس پر خود کُش حملے میں ساٹھ افراد شہید ہوگئے۔
بدامنی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات پر مختلف جماعتیں شدید تنقید کرتی رہیں، جب کہ سرکاری حکّام ان واقعات میں بیرونی مداخلت کو اہم محرّک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سیکیوریٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوّث عناصر کے خلاف آپریشن کیے، جن میں کئی شدّت پسند ہلاک ہوئے اور ان کے ٹھکانوں سے اسلحہ وگولا بارود برآمد کیا گیا۔ بلوچستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ بھی بدستور موجود رہا اور اُن کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی ہوتا رہا۔ بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد جعلی مقابلوں میں قتل کیے جارہے ہیں۔
اُن کے مطابق ایسا ہی ایک واقعہ تربت میں بالاچ بلوچ کے قتل کا ہے، جسے اہلِ خانہ کے مطابق سیکیوریٹی فورسز نے گھر سے اُٹھایا اور جب گھر والوں نے عدالت سے رجوع کیا، تو اُسے عدالت میں پیش کیا گیا،مگر دو دن بعد بالاچ بلوچ کو ایک مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ اِس واقعے کے خلاف تربت میں بہت بڑا احتجاج ہوا۔ ایک مہینے تک دھرنا دینے کے بعد شرکاء مختلف علاقوں میں انتظامیہ کی حائل کردہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پہلے کوئٹہ اور پھر وفاقی دارالحکومت جا پہنچے۔
اُنھیں اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی، جب کہ پولیس نے شرکاء پر رات کے اندھیرے میں لاٹھی چارج اور تشدّد کے ساتھ خواتین اور بچّوں کو گرفتار بھی کیا، جس کے خلاف مُلک بَھر میں صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ بعد ازاں، عدالتی احکامات پر گرفتار افراد کو رہائی اور مظاہرین کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت ملی۔یوں لانگ مارچ کے شرکاء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں لاپتا افراد کی بازیابی اور ماورائے آئین گرفتاریوں اور قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا دینے اور کیمپ قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔
بلوچستان میں پہلے بھی ٹریفک حادثات میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی آئی ہیں اور یہ سلسلہ سالِ رفتہ کے دوران بھی جاری رہا۔ کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ژوب اور کوئٹہ چمن شاہ راہ پر سب سے زیادہ حادثات پیش آئے۔گو کہ بیش تر ٹریفک حادثات تیز رفتاری اور اوور لوڈنگ کے باعث پیش آتے ہیں، مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اِس قدر وسیع و عریض صوبے میں، جس کی دو ہم سایہ ممالک کے ساتھ طویل سرحدیں ہیں اور جو بین الصوبائی ہی نہیں، بین الاقوامی شاہ راہوں سے اَٹا پڑا ہے، ایک بھی موٹر وے یا دو رویہ قومی شاہ راہ نہیں۔
چمن، کوئٹہ، کراچی شاہ راہ کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی محدود مدّت میں اس شاہ راہ کے کم از کم ایک حصّے پر کام مکمل کروائیں گے، مگر یہ منصوبہ سُست روی کا شکار ہے۔ 2023ءکے دوران بلوچستان کے35اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل ہوا اور ان اضلاع میں بلدیاتی ادارے فعال ہوئے، مگر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکے۔
الیکشن کمیشن نے اکتوبر کے مہینے میں کوئٹہ کے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا، مگر مختلف افراد عدالت پہنچ گئے۔بلوچستان طویل ساحلی پٹی، گہرے پانیوں کی بندرگاہوں، سونے، چاندی، تیل، گیس اور دیگر معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ہے، مگر اس کے باوجود عوام کی اکثریت آج بھی پینے کے صاف پانی، تعلیم، صحت اور دیگر سہولتوں سے محروم ہے۔ صوبے میں صنعت وحرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔
لوگوں کی اکثریت زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے، مگر یہ دونوں شعبے بھی کبھی خشک سالی، کبھی تندو تیز بارشوں اور سیلاب، تو کبھی توانائی کے بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان میں بجلی کی مجموعی طلب پنجاب کے کسی بڑے شہر سے بھی کم ہے، مگر افسوس کہ یہ ضرورت بھی پوری نہیں ہوپاتی اور بارہ مہینے کبھی زمین دار اور کاشت کار، تو کبھی گھریلو صارفین بجلی اور گیس کی عدم دست یابی پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ برس زمین داروں اور کاشت کاروں نے متعدّد بار بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج کیا، ریلیاں نکالیں، مگر یہ مسئلہ جُوں کا تُوں رہا۔ اوپر سے زرعی شعبے پر افغان کڈوال کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے بھی منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ وفاقی اپیکس کمیٹی کے فیصلوں کے بعد افغان کڈوال گھرانوں کی زبردستی بے دخلی کا سلسلہ جاری رہا، ایک لاکھ سے زائد افغان کڈوال اس دوران افغانستان واپس چلے گئے، جس سے صوبے کی معیشت پر منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ کاروبار رُک گیا ہے۔
صوبے کی زراعت پر اِس کے منفی اثرات اِس لیے بھی مرتّب ہوئے کہ کئی عشروں سے یہاں مقیم افغان مہاجرین کے پاس زرعی شعبے کا بہت تجربہ تھا اور اکثر زمین داروں کے ہاں افغان باشندے ہی بزگر تھے۔ افغان گھرانوں کی افغانستان واپسی کے خلاف پشتون قوم پرست جماعتوں نے قدرے سخت ردّ عمل دیا اور مختلف اضلاع میں مسلسل احتجاج بھی ہوتا رہا۔ اِس ضمن میں سال کے آخری دو مہینوں کے دَوران ہونے والے اُس احتجاج کا ذکر ضروری ہے، جو افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں ہوا۔
مختلف تنظیموں اور مقامی قبائل کی جانب سے چمن بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط کے خلاف دھرنا دیا گیا، جس میں مختلف جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی رہنما یک جہتی کے لیے شامل ہوتے رہے۔ ڈیڑھ مہینے سے زائد جاری دھرنے کے منتظمین اور اعلیٰ حکّام کے مابین مذاکرات کے متعدّد دَور ہوئے، مگر مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ چمن بارڈر کی بندش سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے۔ایک نوجوان نے بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خودکُشی کی، تو اس سے صُورتِ حال مزید سنگین ہوگئی۔
ہم سایہ ممالک کے ساتھ سرحدی علاقوں میں لوگوں کے روزگار کا بڑا ذریعہ سرحدی تجارت ہے۔ ماضی میں اِس حوالے سے مختلف تجاویز بھی مرتّب ہوتی رہیں کہ سرحدی تجارت کو قانونی شکل دی جاسکے۔ نہ صرف ایران سے متصل اضلاع بلکہ پورے بلوچستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایرانی تیل کے کاروبار سے وابستہ ہے۔وفاقی حکومت کے فیصلے کی روشنی میں ایرانی تیل کے کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا، تو اس پر صوبے کے طول و عرض میں خاصا احتجاج ہوا۔
ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی سے تقریباً پچاس ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہوئے۔ 18مئی کو وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر، ابراہیم رئیسی کے ہم راہ مند، پشین بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر بارڈر مارکیٹ اور پولان گبد ٹرانس میشن لائن کا مشترکہ افتتاح کیا اور دونوں ممالک کے مابین تجارت بڑھانے سے متعلق اقدامات کے عزم کا اظہار کیا۔ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹ کے افتتاح کے بعد مختلف جماعتوں اور تاجر برادری نے افغانستان کے ساتھ بھی تجارت بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کا مطالبہ کیا، مگر کئی ہفتوں سے چمن بارڈر کی بندش نے پہلے سے ہونے والی تجارت کے بھی امکانات محدود کردیئے، جس سے صوبے کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔
الغرض، سالِ رفتہ کے دَوران بلوچستان میں پہلے سے موجود مسائل کی صدائے بازگشت تواتر سے سُنائی دیتی رہی، اِس سارے تناظر میں موجودہ نگران حکومت اور عام انتخابات کے بعد بننے والی نئی منتخب حکومت ایسے کیا اقدامات اُٹھائے گی، جن کی بدولت صوبے کو درپیش چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا جاسکے، یہ وہ سوال ہے، جو اِس وقت درپیش ہے۔
امید تو یہی ہے کہ سالِ نو بلوچستان کے عوام کے لیے بہتری و ترقّی کی امید کے ساتھ طلوع ہوا ہے، تاہم اِس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو وقت کی ضرورتوں اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات کرنے ہوں گے، وگرنہ مرکز میں’’ بلوچستان، بلوچستان‘‘ کی جتنی بھی صدائیں گونجیں، بلوچستان میں مسائل، تحفّظات اور احساسِ محرومی ہی رہے گا۔