• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: علیزہ انصاری

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو، ڈی ایچ اے، لاہور

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

رنگوں کی بھی ایک الگ ہی دنیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہماری دنیا، رنگوں کے بغیر دنیا ہی نہیں، تو ہرگزغلط نہ ہوگا۔ یہ جو ساری کائنات اس قدر رنگارنگ ہے، بھانت بھانت کے رنگوں کے حسین و دل کش چولے، پیراہن زیبِ تن کرنےہی کےسبب ہے۔ خزاں رُت میں صرف درختوں کا سبز دوشالہ ہی اُترتا ہے، توچہارسُو کیسی یاسیّت و فسردگی، حُزن وملال ساچھا جاتا ہے، ہوائیں، فضائیں تک بین کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ 

کہتے ہیں کہ ’’رنگ، فطرت کی مسکراہٹ ہیں اور فطرت ہمیشہ رُوح کے رنگ پہنتی، اوڑھتی ہے۔‘‘ رنگ، ہماری زندگیوں پر کتنے اثراندازہوتے ہیں، بہت ہی سادہ مثال سےسمجھنا چاہیں تو پہلےتصوّر کی آنکھ سے خُود کو کسی تنگ و تاریک کمرے کے گُھپ اندھیرے میں موجود اورپھر کسی پھولوں بَھرے، رنگ برنگ و معطّر چمن میں محسوس کرکے دیکھ لیں۔ 

آپ دونوں جگہوں پہ بےشک بالکل تنہا ہوں، مگر یہ رنگوں کا فرق کتنا بڑا فرق ہے، آپ کو خُود اندازہ ہوجائے گا۔ رنگوں کےبغیردنیا کا تصوّر، بصارت وبینائی کےبغیرزندگی سےہرگز مختلف نہیں۔ سر آئزک نیوٹن نے کہا تھا کہ ’’جس طرح ایک نابینا شخص کو رنگوں کے حُسن و لطافت سے متعلق کوئی شعور وآگہی نہیں ہوتی، اِسی طرح ہم بھی قدرت کی اصل صنّاعی و کاری گری کے سب اسرارورموز سے بےبہرہ، ناواقف ہی ہیں۔‘‘ اور، سچ بھی یہی ہےکہ خدائے بزرگ و برتر کی اِس لامحدود کائنات کے نہ جانے کتنے راز اب بھی سَربستہ ہیں۔ محض رنگوں کی دنیا ہی فتح کرنے نکلیں، تو کئی حیاتیاں فنا ہوجائیں۔وہ امریکی ناول نگار،موٹیویشنل اسپیکر جِم روہن نے کہا تھا ناں کہ ’’بنیادی طور پر صرف تین رنگ، دس ہندسے اور سات سُر ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ہم اِن تین، دس اور سات کے ساتھ کرتے کیا ہیں۔‘‘ تو دس اور سات کے ساتھ جو جو کچھ ہورہا ہے، وہ آپ کے سامنے ہی ہے، مگر تین کے ساتھ بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔ یہی دیکھ لیں کہ ہر نئے سال، جو دنیا کے لیے ایک نیا رنگ ’’کلر آف دی ایئر‘‘ تجویز کیا جاتا ہے، وہ یک سر ہی نیا ہوتا ہے۔ قوسِ قزح کے رنگوں سے بالکل مختلف، بچّوں کے پینسل، مارکر کلرز، کریونز، واٹر/پوسٹر کلرزسے کچھ الگ، کلر پیلیٹ میں موجود رنگوں سےجُدا اور شیڈ کارڈز کے سیکڑوں رنگوں سے بھی کچھ ہٹ کے۔ جیسا کہ اس بار 2024ء کے لیے جو رنگ منتخب کیا گیا ہے، وہ ہے، پِیچ فز (ہلکا شفتالو رنگ)۔ وہ کیا ہے کہ بقول پروین شاکر ؎ تصویر جب نئی ہے، نیا کینوس بھی ہے… پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے۔

اور.....اس شفتالو، آڑئوئی رنگ سے متعلق، ہر سال دنیا کے لیے نیا ’’کلر آف دی ایئر‘‘ منتخب کرنے والی کمپنی PANTONE (پینٹون) کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک بہت ہم درد، مہربان، دوستانہ سا رنگ ہے، جس میں ہر طرح کے جذبات و احساسات اُبھارنے،پروان چڑھانے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ یہ بنیادی طور پر نرمی و ملائمت، محبّت و شفقت، امن و آشتی، راحت و سُکون کا استعارہ ہے، لیکن اس کے ذریعے دلی کیفیات کا ہرعکس اجاگر کرنے کی سعی بھی ہرگز بےسود نہیں رہے گی۔‘‘ مطلب، اس ایک رنگ سے ہر دو طرح کے تصوّرات و خیالات، جذبات و احساسات کا بیان ممکن ہے۔ 

آپ حد درجہ خُوش، بہت شاداں و فراں ہیں، اِسی رنگ سے خُود کو رنگ لیں۔ دل پریشان و غم زدہ، مضطرب و مضمحل ہے، تو بھی یہ رنگ، تن و مَن کو ہرگز بوجھل کرے گا، نہ اعصاب و قویٰ کو شل۔ اور بلاشبہ بہت ہی کم رنگوں میں یہ خواص، خُوبیاں پائی جاتی ہیں۔ تب ہی یہ رنگ صرف جسم و جاں ہی کو نہیں، پورے ماحول، گردو پیش کو بہت منفرد و مختلف سے احساس سے سرشار کرتا ہے کہ اِس کے خیال ہی سے دل میں طلوعِ آفتاب، ہلکے موسمِ گرما، موسمی پھلوں، کشمیری چائے، پِیچ رنگ ٹیولپس، لِلیز، کورل ویڈنگ فلاورز اور خُوب صُورت نیٹ فراکس، سینڈلز، ایکسیسریز، نیز آئی شیڈوز، بلش آن اور لِپ، نیل کلرز کا تصوّر جھلملاتا ہے۔

کسی نے کہا تھا کہ ’’آپ مجھے دنیا کے کسی بھی کونے میں لےجائیں، مگر وہاں آڑو ضرور ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی آڑو کھا کر خُوش نہیں ہوتا، تو مجھے اُس پر سخت حیرانی ہے کہ دنیا میں گر آڑو موجود ہیں، تو پھر دنیا چھوڑنے کا تصوّر بھی محال ہے۔ موسمِ گرما کا سب سے بڑا حُسن آڑو ہیں اور اگر پھلوں میں آم کا کوئی مقابل ہے، تو وہ صرف اور صرف آڑو ہے۔‘‘ تو بھئی، پھر اس قدر خواص سے مالا مال اِس پھل سے کشید شدہ رنگ بھلا کیوں، خصوصیات خُوبیوں سے بھرپور نہ ہوگا۔ یہ ہلکے پیسٹل رنگوں کا شہنشاہ رنگ ہے، جو بہ ظاہر نرم و خموش، بہت نفیس و شائستہ، پوتّرو پاکیزہ، سجیلا و البیلا اور تھوڑا کھٹ مِٹھا سا ہے، لیکن دوسرے کئی رنگوں کے ساتھ اِس کا امتزاج تو کچھ اور ہی قیامت ڈھاتا ہے۔ مثلاً شفتالو رنگ کا نیوی اور رائل بلیو کے ساتھ تال میل اِسے کچھ ایسا نمایاں کرتا ہے کہ ارد گرد کے سارے ہی رنگ سامنے پھیکے پڑجاتے ہیں۔ 

آف وائٹ رنگ کے ساتھ آمیزش اِس کی نفاست کو چار چاند لگاتی ہے، تو طلائی اور ہلکے سبز رنگ کے ساتھ بھی یہ خوب ہی لگّا کھاتا ہے۔ سُرمئی اور سفید رنگوں کے ساتھ اِس کی جاذبیت مزید بڑھ جاتی ہے، توعنّابی، فیروزی، کتھئی، گہرے سُرخ اور جیٹ بلیک کے ساتھ بھی اِس کی ہم آمیزی کمال ہی لگتی ہے۔

اب، جب کہ سالِ نو کے تخت پر اِسی رنگ کی حُکم رانی ہوگی، پورے سال کے اُفق پہ یہی چھایا رہے گا، بزبانِ جگر مراد آبادی ؎ دل مجسم شعر و نغمہ، وہ سراپا رنگ و بُو… کیا فضائیں ہیں کہ جن میں حل ہوا جاتا ہوں مَیں۔ تو اِک ابتدائی کاوش کے طور پر ہم نے بھی آج اپنی پوری بزم اِسی رنگ سے آراستہ و پیراستہ کردی ہے۔ گرچہ ہمارے یہ ’’رنگ و انداز‘‘ تو محض ملبوسات اور لوازماتِ آرایش ہی تک محدود ہیں، لیکن کلر ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ رواں سال یہ رنگ وارڈروب سے، گھروں، دفاتر،عمارات کےڈیکوراورڈیکوریشن پیسز سے سڑکوں پر رواں دواں سواریوں تک راج کرے گا۔ 

سال 2024ء، شفتالو رنگ کا سال ہے کہ دنیا جب تک امن و سُکون، محبّت و موَدّت، ہم دردی و نرم خوئی، خلوص و ممتا کے احساس یعنی ’’نسائی رنگوں‘‘ سے نہیں رنگی جائے گی، بےحال و بےخال، بدمست و بدحال ہی رہے گی۔ امجد صاحب نے کہا تھا ناں کہ ؎ درد کی کہانی کو عشق کےفسانےکو… داستان بننےمیں دیرکچھ تولگتی ہے…دستکیں بھی دینے پر دَر اگر نہ کُھلتا ہو…سیڑھیاں اُترنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے…خواہشیں، پرندوں سے لاکھ ملتی جلتی ہوں…دوست! پَر نکلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے…رنگ یوں تو ہوتے ہیں، بادلوں کے اندر ہی…پر، دھنک کے بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے…اُن کی اور پھولوں کی ایک سی رَدائیں ہیں…تتلیاں پکڑنے میں دیرکچھ تو لگتی ہے…ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وَش کا…حُسن کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے۔ تو ممکن ہے،کچھ دیر لگے، مگر بہرکیف، یہ سال پِیچ رنگ یا اُس کے مختلف شیڈز کی دوسرے رنگوں کے ساتھ ہم آہنگی ہی کا سال ہے، کیوں کہ رنگوں سے متعلق یہ کہاوت بھی بہت عام ہے کہ ’’تمام رنگ اپنے پڑوسیوں کے دوست اورمخالفین کے چاہنے والے ہوتے ہیں۔‘‘