گزشتہ برس جہاں سائنس نے کئی میدانوں میں بے مثال ترقّی کے نئے ریکارڈز قائم کیے، وہیں انسانی غفلتوں، لاپروائیوں، طاقت اور سرمائے کے غلط استعمال سے مسائل میں گونا گوں اضافہ بھی ہوا۔یہی سبب ہے کہ کورونا جیسی وبائوں کے خطرات مزید بڑھ رہے ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک کے سائنس دان اور ماہرینِ موسمیات، سال بَھر ماحولیاتی مسائل سے بچائو کے لیے آگاہی پروگرامز پر زور دیتے رہے۔
جنوری 2023ء میں سائنس دانوں نے درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث 50فی صد گلیشیئرز کے پگھلنے کے امکانات ظاہر کیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ2100ء تک 8.3فی صد گلیشیئرز پگھل جائیں گے، جس کے نتیجے میں سمندری سطح میں 3.5انچ اضافہ ہوگا۔ نیز، درجۂ حرارت میں 2.7ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے علاوہ پینے کے پانی کی قلّت اور سیلابوں کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم نے بھی آئندہ دو برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب اشیائے ضروریہ کی بڑھتی لاگت کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے گلوبل وارمنگ سے لاحق خطرات کے خلاف محدود اقدامات پر مایوسی کا اظہار کیا۔
سالِ رفتہ، فروری میں، یو اے ای، فرانس اور بھارت نے صاف توانائی، ماحول اور حیاتیاتی تنوّع کے منصوبوں پر مشترکہ اقدامات کا فیصلہ کیا، جب کہ عالمی سطح پر کوپ-28 سمیت کئی کانفرنسز ہوئیں، جن میں دنیا بھر کے رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں درپیش مسائل پر غورو خوض کیا، تاہم ماہرین نے ٹھوس اقدامات سامنے نہ آنے پر اِن کانفرنسز کو بے سود قرار دے دیا۔ پاکستان، گزشتہ برس بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ اس ضمن میں اسلام آباد میں برطانیہ کے ہائی کمشنر، جین میرٹ نے موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے فنڈ کے قیام میں پاکستانی کوششوں کی تعریف کی۔واضح رہے کہ مذکورہ فنڈ کے قیام کا فیصلہ شرم الشیخ ( مصر) میں منعقدہ COP- 27میں ہواتھا۔
6فروری کو تُرکیہ اور شام میں آنے والے ہول ناک زلزلے نے ان ممالک کے کئی علاقے صفحۂ ہستی سے مِٹا دیئے۔اسے 1939ء کے بعد تُرکیہ میں آنے والی سب سے بڑی قدرتی آفت قرار دیا گیا۔زلزلے میں60ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ایک لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ انٹر پرائز بزنس فیڈریشن نے مشرقی تُرکی میں زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ80بلین یورو لگایا، جب کہ ایک اور اندازے کے مطابق زلزلے سے قومی آمدنی کو10.4بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔نیز، ہم سایہ مُلک شام میں بھی بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔یورپی یونین کے رُکن ممالک نے متاثرہ علاقوں میں20امدادی ٹیمز بھجوائیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہلاک ہونے والوں کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ پاکستان میں وفاقی کابینہ نے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے’’ وزیرِ اعظم ریلیف فنڈ‘‘ کے قیام کا اعلان کیا، جب کہ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس کے علاوہ ریسکیو اہل کاروں پر مشتمل ٹیمز بھی تُرکی روانہ کی گئیں۔
مارچ میں سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ انٹارکٹیکا میں دوسرے سال بھی برف کی تہہ میں ریکارڈ کمی ہوئی، جو کہ45برسوں کی کم ترین سطح پر پہنچ چُکی ہے۔ دوسری جانب، مارچ ہی میں موسمی تبدیلیوں کے باعث جرمنی میں 2050ء تک ایک ٹریلین یورو کے خسارے کی رپورٹ سامنے آئی۔ ماہرین نے شدید گرمی اور تباہ کُن سیلاب سے معیشت کو 910ارب یورو کے نقصانات کی پیش گوئی کی۔ نیز، جانوروں کے ناپید اور نباتات کے نایاب ہونے کے خدشات کے پیشِ نظر مؤثر، ٹھوس موسمیاتی پالیسیز بنانے پر بھی زور دیا گیا۔ 22 مارچ کو پاکستان میں لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کی شدّت ریکٹراسکیل پر 6.8ریکارڈ کی گئی۔
زلزلے کے یہ جھٹکے ترکمانستان، بھارت، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، چین، افغانستان اور کرغزستان میں بھی محسوس ہوئے، جب کہ مرکز افغانستان میں کوہِ ہندو کش بتایا گیا۔ اپریل میں کینیڈا میں غیر معمولی خشک سالی کے سبب گندم کی عالمی سپلائی متاثر ہونے کے خطرات سامنے آئے۔ یاد رہے، کینیڈا کو اس خشک موسم کا سامنا50 سال میں دوسری مرتبہ کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق، وہاں60فی صد کم بارشیں ریکارڈ ہوئیں۔مارچ میں ایک ہی ماہ میں دوسری بار جنوبی افریقا کے ساحلی علاقوں سے ٹکرانے والے سمندری طوفان’’ فریڈی‘‘ نے ملاوی اور موزمبیق میں تباہی مچائی، جس میں پانچ سو سے زاید ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، جب کہ سمندری طوفان سے عمارتوں کی چھتیں اُڑنے اور درختوں کے جڑوں سے اُکھڑنے سے بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔
اِسی دوران مڈغاسکر میں بھی طوفان سے 27افراد ہلاک ہوئے۔5مئی کو عالمی ادارۂ صحت نے تین سال بعد کووڈ- 19سے بچاؤ کے لیے نافذ کردہ عالمی ایمرجینسی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ مئی میں کینیڈا کے صوبے ابرٹا میں خشک موسم اور تیز ہوائوں سے آگ لگنے کے واقعات پریشانی کا باعث رہے۔ اِن واقعات کی شدّت کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 25ہزار افراد متاثرہ علاقوں سے انخلا پر مجبور ہوئے، جب کہ تین لاکھ ایکڑ پر محیط جنگل راکھ میں تبدیل گیا۔ حکّام کو حالات پر قابو پانے کے لیے ایمرجینسی کا نفاذ کرنا پڑا۔ 28مئی کو اسلام آباد، خیبر پختون خوا، پنجاب، گلگت اور آزاد کشمیر میں ایک مرتبہ پھر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کی شدّت ریکٹر اسکیل پر 6ریکارڈ کی گئی۔
مئی میں خلیجِ بنگال میں اُٹھنے والے سمندری طوفان’’ موچا‘‘ نے میانمار اور بنگلا دیش کے ساحلوں پر بڑی تباہی مچائی۔ ماہرین کے مطابق کیٹگری 5شدّت کے طوفان کے باعث شدید بارشوں اور تیز ہوائوں سے سارا نظامِ زندگی درہم برہم ہوگیا۔خاص طور پر روہینگیا مسلمانوں کے کیمپس بُری طرح متاثر ہوئے۔
لینڈسلائیڈنگ کے باعث شہروں کے درمیان رابطے منقطع ہوئے، مکانات کو نقصان پہنچا، یوں اس طوفان سے لاکھوں افراد براہِ راست متاثر ہوئے۔ مئی ہی میں افریقی مُلک کانگو میں تیز بارشوں کے بعد سیلاب سے دو سو کے قریب ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، تو 130افراد کے لاپتا ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں، جب کہ پانچ ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوئے۔29مئی کی ایک رپورٹ کے مطابق شنگھائی میں گرمی کا 100سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
اِسی دوران ڈھاکا کو بھی 60سال بعد گرم ترین دن کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ جون میں سمندری طوفان کے سندھ سے ٹکرانے کی بازگشت رہی۔تاہم، کراچی کے ساحل تک پہنچتے پہنچتے بپھری لہروں کی شدّت میں کمی سے خطرہ ٹل گیا۔ عوام کو اِس مرحلے پر پریشان کُن صُورتِ حال سے دوچار ہونا پڑا، جب کہ ریسکیو وسائل کی کمی نے حکومتوں کی کارکردگی پر سوالات بھی اُٹھائے۔
جولائی میں دریائے جمنا میں سیلابی صُورتِ حال کے بعد بتایا گیا کہ دریا میں پانی کی آمد کا 1978ء کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ چین میں وسط جولائی میں گرمی کی تیز ترین لہر آئی،جس کی شدّت52ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گئی۔ 25جولائی کو تُرکیہ میں ایک مرتبہ پھر5.5 شدّت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔10اگست کو امریکا کے شہر ہوائی کے جنگل میں آگ بھڑکنے سے تاریخی قصبہ لاہائنا جل کر خاکستر ہوگیا، جب کہ یہ آگ ایک سو افراد کی زندگیاں نگل گئی، تو تیرہ سو سے زائد افراد لاپتا ہوگئے۔ یاد رہے، یہ امریکا کی ایک سو سالہ تاریخ کی بد ترین آفت قرار پائی۔
پاکستان میں گزشتہ برس ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا۔ اکتوبر میں سندھ میں ڈینگی کیسز کی تعداد کراچی میں1231، حیدرآباد میں228، لاڑکانہ میں30، سکھر میں25اور شہید بے نظیر آباد میں11رہی۔ ملیریا کے4100 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں نومبر میں ڈینگی سے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023ء میں 12268کنفرم مریض رپورٹ ہوئے، کیوں کہ ڈینگی صوبے کے136اضلاع تک پھیل گیا تھا۔ طبّی ماہرین کے مطابق ہر سال130 ممالک کے لگ بھگ40کروڑ افراد ڈینگی انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں نے ڈینگی مچھر کے مقابلے میں مچھر کی ایک دوسری قسم تیار کی، جس سے بعض ممالک میں بیماری کی شرح کم ہوئی۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اوسط درجۂ حرارت، بارشوں اور خشک سالی کے طویل ادوار میں اضافے سے دنیا بَھر میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ٹوکیو میں گرمی کی شدّت سے بچنے کے لیے قائم مصنوعات کی مارکیٹس میں اضافہ ہوا۔ خصوصاً گرمی سے محفوظ رکھنے والے ملبوسات میں نت نئی ٹیکنالوجی کے استعمال نے فروغ پایا۔ 25اگست کو یونان کے جنگلات میں گرمی کی شدّت سے لگنے والی آگ سے سیکڑوں ایکڑ پر پھیلے جنگل کو نقصان پہنچا۔
ماہِ ستمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق2023ء میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بھارت سے آسٹریلیا تک ریکارڈ گرمی پڑی اور یونان سے کینیڈا تک جنگلات آگ کی لپیٹ میں رہے۔ ماہرین کے مطابق، گزشتہ برس کا ماہِ اگست ایک صدی سے بھی زائد عرصے میں سب سے زیادہ گرم اور خشک رہا۔ بھارت میں مون سون بارشیں اگست کے وسط کی بجائے مہینے کے شروع ہی میں برس پڑیں، جس سے تباہ کُن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔
اکتوبر میں لاہور میں اسموگ سے پھیلنے والی بیماریوں نے ایک نئے وائرس کی شکل اختیارکرلی، جس کی علامات میں تیز بخار، جسم درد، پیٹ کا خراب ہونا اور بلغمی کھانسی شامل ہیں۔ خصوصاً بچّے اور بزرگ اس نئے وائرس کا زیادہ شکار ہوئے۔ اس دوران ہائی الرٹ جاری کیا گیا اور خصوصی انتظامات بھی کیے گئے، جن کی وجہ سے ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ ستمبر میں لیبیا میں کئی دہائیوں کے بعد آنے والے سیلاب اور سمندری طوفان’’ ڈینیئل‘‘ سے دو ڈیمز میں شگاف پڑگئے۔ نتیجتاً ایک ارب کیوبک فِٹ پانی سے کئی علاقے زیرِ آب آگئے۔ طوفان اور بارشوں سے مشرقی شہر درنہ میں دس ہزار افراد لاپتا ہوئے۔
ستمبر میں ایک اور زلزلے کی اطلاع آئی، جو مراکش کے صوبے الحوز میں آیا اور اس کی شدّت6.8ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے میں دو ہزار سے زائد ہلاکتیں،جب کہ1400سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ماہرین کے مطابق، 1900ء سے پہلے آنے والے زلزلوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ علاقے میں آنے والا سب سے خطرناک زلزلہ تھا۔
اوائل اکتوبر میں نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقی ادارے، سولر سسٹم جیولوجیکل سروے نے48گھنٹوں کے دوران افغانستان سے ملحق بلوچستان کے علاقے، چمن فالٹ لائن پر ایک طاقت وَر زلزلے کی پیش گوئی کی، جس کی وجہ سے خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ کُھلے میدانوں میں سونے پر مجبور ہوئے۔ تاہم، پیش گوئی غلط نکلی۔
8اکتوبر کو افغانستان کے صوبائی دارالحکومت، ہرات میں6.3 شدّت کا ایک زلزلہ آیا، جس سے کئی دیہات صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے، جب کہ دو ہزار سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔ اس زلزلے میں تقریباً 10ہزار افراد زخمی بھی ہوئے۔ 2023ء میں کراچی میں آشوبِ چشم کی بیماری پھیل گئی، جس کے اثرات پنجاب سمیت مُلک کے دیگر صوبوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ اس دوران سیکڑوں افراد آشوبِ چشم کا شکار ہوئے۔ بلوچستان میں کانگو وائرس سے 2023ء میں 64سے زائد افراد متاثر، جب کہ ڈاکٹر اور طبّی عملے سمیت 8افراد جاں بحق ہوئے۔
ماہرین کے مطابق اگر مہلک ہتھیاروں کے استعمال، درختوں کی مسلسل کٹائی اور ہوسِ زر کے لیے غیر فطری ذرائع سے دولت کمانے کے رجحان میں کمی نہ آئی، تو آئندہ قدرتی آفات کا مزید شدّت سے سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اُن کا اصرار ہے کہ ترقّی کو انسانی حقوق کے تابع کیا جائے۔اقوامِ متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ قدرتی آفات کے خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کم زور اور ناکافی ہے۔
نیز، اقوامِ متحدہ سے منسلک سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین نتائج روکنے کا وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے بنیادی اسباب میں، دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافے کے سبب گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بھی ہے۔ ان گیسز کے اخراج کی ایک بڑی وجہ ٹرانس پورٹ، بالخصوص سڑکوں پر چلنے والا ٹریفک ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول کو نقصانات سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، ٹرانس پورٹ ذرائع کو ڈی کاربنائز کرتے ہوئے الیکٹرک گاڑیوں کو رواج دیا جائے۔ جہاز کی بجائے ٹرین کی سہولت عام کی جائے اور اس کے ذریعے سفر کو ترجیح دی جائے۔ سورج کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ اشیائے خورو و نوش کا جو ایک تہائی حصّہ ضائع ہو رہا ہے، اس کی روک تھام کی جائے کہ اس کی وجہ سے خطرناک میتھین گیس خارج ہو رہی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں جہاں زلزلے، طوفان، سیلاب تباہیاں مچاتے ہیں، وہاں طرح طرح کی بیماریاں بھی سر اُٹھاتی ہیں، جب کہ متاثرہ آبادی کے بیش تر افراد، خاص طور پر خواتین اور بچّوں میں کئی اقسام کے نفسیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ عدم تحفّظ، بروقت اقدامات کے فقدان اور ناقص منصوبہ بندی ہی کے سبب آئندہ نسلوں کا مستقبل غیر محفوظ نظر آرہا ہے۔
بلوچستان میں ہر سال کے وسط میں خشک موسم کی وجہ سے دشتِ لوط، ایران سے اُڑنے والی مٹّی کی بارش ہوتی ہے، جس سے کئی بیماریاں اور مسائل جنم لیتے ہیں۔ کبھی ٹڈی دَل کا حملہ ہوتا ہے، تو سردیوں میں سائبریا سے چلنے والی یخ بستہ ہوائوں سے زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح لاہور، اسموگ کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست رہتا ہے۔سو، اِس طرح کے تمام تر مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔