• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں 12 کروڑ 85 کروڑ ووٹر حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان میں چھ کروڑ 92 لاکھ مرد اور پانچ کروڑ 93 لاکھ سے زائد خواتین شامل ہیں۔ ان ووٹرز میں سے پانچ کروڑ 70 لاکھ سے زائد ووٹرز کی عمر 18 سے 35 برس کے درمیان ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی پارٹی یہ الیکشن جیتے گی اس میں ان نوجوان ووٹرز کا ووٹ اہم کردار ادا کرے گا۔ انتخابی مہم میں مصروف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوجوانوں کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ تو ہر سیاسی جماعت کر ر ہی ہے لیکن حقیقت میں تاحال کسی سیاسی جماعت نے نوجوانوں کے لئے کوئی جامع پروگرام پیش نہیں کیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مختلف حکومتوں نے لیپ ٹاپ اسکیم، انٹرن شپ پروگرام، ای روزگار اسکیم، یوتھ لون اسکیم اور اس طرح کے دیگر پروگرام متعارف کروائے ہیں لیکن کسی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ نوجوان طبقے کو وسیع پیمانے پر ہنرمند بنا کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور آگے بڑھنے کاموقع فراہم کیا جا سکے۔ حالانکہ پاکستان کو معاشی میدان میں اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں ایک بڑا چیلنج نوجوانوں پر مشتمل آبادی کے بڑے حصے کو روزگار فراہم کرنا ہے۔

اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوان سے صرف اور صرف ووٹ حاصل کرنے کی بجائے ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے بھی ٹھوس تجاویز اور پالیسیاں پیش کریں۔ تاحال کسی سیاسی جماعت کا منشور سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نے اس حوالے سے کہیں تفصیل سےاپنی پالیسی بیان کی ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صاحب الرائے افراد اور فیصلہ ساز قوتیں اس کمی کی نشاندہی کریں تاکہ نوجوان ووٹرز سیاسی جماعتوں سے اپنے لئے واضح اور قابل عمل پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے آواز بلند کریں۔

یہ اقدام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہمارے ملک میں آبادی کی تعداد میں اضافہ اسی طرح جاری رہا تو ہمارے وسائل اور ترقی اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ہی خرچ ہو جائیں گے اور ہم کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔

نوجوان نسل کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتی ہے اور اگر اس کے لئے آگے بڑھنے کے مناسب مواقع میسر نہ ہوں تو یہ سرمایہ کسی بھی ملک کے وسائل پر بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی طرح کے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں جس طرح پاکستان کو برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں کمی کے باعث زرمبادلہ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سے یہ بات مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو متبادل اور بہتر روزگار کی فراہمی کے لئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔ تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کرنے والے اداروں کو فنڈز کی فراہمی میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔

یہ وہ مسئلہ ہے جو نہ کسی سیاسی جلسے میں زیر بحث آتا ہے اور نہ ہی اس پر سیاسی جماعتوں کے بند کمرہ اجلاسوں میں کوئی بات ہوتی ہے۔ حالانکہ ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر ہمیں اپنی افرادی قوت کو اندرون ملک اور بیرون ملک برسرروزگار کرنے کیلئے ہنرمند بنانے اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بیرون ملک ہنر مند افراد کے لئے روزگار کے بہترین مواقع وسیع تعداد میں موجود ہیں لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت بھی پاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے شعبے کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 30لاکھ سے زائد نوجوان جاب مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں جبکہ ملک بھر میں موجود 3500کے قریب ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اور ٹریننگ کے اداروں کی استعداد سالانہ پانچ لاکھ افراد کو تربیت دینے تک محدود ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان میں دی جانے والی تعلیم اور تربیت کا معیار بھی مزید بہتر بنایا جائے۔ اس سے نا صرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور فرسٹریشن ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ نوجوان طبقے کو اچھا روزگار بھی میسر آئے گا۔ اس حوالے سے سفارتخانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو یہ ٹاسک دیا جا سکتا ہے کہ وہ ہر ملک کی ضرورت کے مطابق افرادی قوت کی تیاری کے لئے مخصوص ٹریڈز کی نشاندہی کریں۔ اس طرح ملنے والی معلومات کو آگے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے والے اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے تا کہ وہ انہی ٹریڈز میں نوجوانوں کو عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کرکے ملازمت کا حصول یقینی بنائیں۔ اس طرح نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کے ہنرمند افراد کی مانگ میں اضافہ ہو سکے گا بلکہ پاکستان کو زرمبادلہ کے حصول کا ایک بہتر متبادل بھی میسر آ جائے گا۔

اس حوالے سے پاکستان کو جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن پر فوکس کر کے نہ صرف اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ اپنے اپنے ملک کو دوبارہ صف اول کا ترقی یافتہ ملک بنایا ہے۔ اس کے لئے پاکستان میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے اداروں کا بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے ہر حصے میں ایسے ادارے قائم کئے جا سکیں۔ اسی طرح ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اداروں اور انڈسٹری کے مابین اشتراک کار کو بھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو گا بلکہ اس سے لوگوں کو روزگار کی فراہمی میں بھی اضافہ ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین