• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل (ر) نعیم لودھی کی مصالحتی تجاویز فوجی حکام تک پہنچ گئیں

اسلام آباد (انصار عباسی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم لودھی کی سیاسی اور ادارہ جاتی مفاہمت کی وہ تجویز فوجی حکام تک پہنچ گئی ہے جس میں انہوں نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر بنیادی طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان خلیج کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ 

دی نیوز کے رابطہ کرنے پر جنرل (ر) لودھی کا کہنا تھا کہ انہیں تاحال فوجی حکام کی طرف سے ان کی تجاویز کا جواب نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک انہوں نے اس حوالے سے عمران خان، پی ٹی آئی کی کسی اور دوسری اہم شخصیت یا دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطہ نہیں کیا۔

جنرل (ر) لودھی اس وقت سید مشاہد حسین، محمد علی درانی، سابق فور اسٹار جرنیل، سابق ایئر مارشل، کچھ اہم لیکن ریٹائرڈ سفارتکاروں، بیوروکریٹس اور میڈیا کے چند افراد سے جلد سیاسی اور ادارہ جاتی مفاہمت کی اجتماعی کوششوں کیلئے رابطے میں ہیں۔ 

حال ہی میں جنرل لودھی نے اداروں کیخلاف اشتعال انگیز گفتگو کے خاتمے، سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کرنے اور موجودہ حکومت کو کم از کم دو سال تک کام کرنے دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ 

وہ سید مشاہد حسین اور محمد علی درانی جیسے سیاستدانوں کے علاوہ کچھ ہائی پروفائل سابق فوجیوں، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت مختلف لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ تاہم ابھی یہ اعلان نہیں کیا گیا ہے کہ جنرل لودھی کی کوششوں میں کون باضابطہ طور پر ان کا ساتھ دے گا۔

چند روز قبل دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ریٹائرڈ جرنیل نے کہا تھا کہ اگرچہ ابتدائی طور پر متعلقہ فریقین کے درمیان سمجھوتے کے آثار نظر نہیں آتے، لیکن مخلص گروپس اور افراد کو ملک اور اس کے غربت کے ستائے عوام کی خاطر -- بظاہر اس ناممکن کام کو ممکن بنانا پڑے گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ قومی سیکورٹی کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس بلایا جائے جس میں خصوصی طور پر چیف جسٹس پاکستان، بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان، میڈیا کی نمایاں شخصیات، کاروباری کمیونٹی کے افراد وغیرہ کو دعوت دی جائے اور مصالحتی امور پر بات کی جائے۔ 

ان کے مطالبات میں جو باتی شامل ہیں وہ یہ ہیں:حریف سیاسی گروہوں اور اداروں کیخلاف ہر طرح کی بدزبانی اور جارحانہ موقف کی روک تھام، حکومت اور دیگر کی طرف سے سیاسی سطح پر انتقامی کارروائیوں کی بندش، انتخابی شکایات کے حوالے سے سیاسی محرکات کی بنیاد پر شروع کیے گئے ٹرائلز اور اپیلوں کے فیصلے کیلئے عدلیہ اور ٹریبونلز کو آزادانہ فیصلے کرنے دیے جائیں۔

پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ہراساں نہ کیا جائے، موجودہ حکومتوں (وفاقی اور تمام صوبائی) کو کم از کم دو سال (سال 2025 کے آخر تک) تک کام کرنے دیا جائے، جو لوگ انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرتے وہ پرامن رہ سکتے ہیں اور احتجاجاً اس عبوری عرصے کے دوران حکومت کو کام کرنے دیںں۔

انہیں خاموش احتجاج (جس میں بازوئوں پر پٹیاں باندھنے وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہوں) کرنے دیا جائے جن میں تشدد کا عنصر نہ ہو، ان دو برسوں کے دوران سڑکوں پر یا بڑے پیمانے پر مظاہرے نہ کیے جائیں، تنظیمی مقاصد کیلئے اجتماعات کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ 

جنرل (ر) لودھی نے اس نمائندے کو بتایا کہ ان کا کالم فوجی حکام تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاحال فوجی حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے عمران خان یا پی ٹی آئی کے کسی اور اہم رہنما یا دیگر سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ نہیں کیا۔ 

جنرل (ر) لودھی نے اگرچہ سیاسی اور ادارہ جاتی مفاہمت کیلئے اپنی تجاویز سب کے سامنے پیش کر دی ہیں، لیکن وہ سول سوسائٹی کے جس گروپ کو حتمی شکل دینے کیئے کام کر رہے ہیں، اس کے مکمل ہونے کے بعد ہی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے کا سلسلہ شروع کریں گے۔

اہم خبریں سے مزید