• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مثالی حکومت کیسی ہوگی؟ اسےکیسے منتخب کیا جائے گا؟ یہ حکومت کیسے کام کرے گی؟ اِس کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی ؟ اور یہ مثالی حکومت انصاف کیسے کرے گی؟یہ سوالات نئے نہیں ہیں ،افلاطون سے لے کر ہنری ڈیوڈ تھورو تک ،فلسفیوں نے اِن سوالات کا مختلف طریقوں سے جواب دیا ہے۔ سو، آج ہم اِن فلسفیوں کے افکار کو دما غ میں رکھ کر آئیڈیل حکومت کا خاکہ بناتے ہیں اور پھر زمینی حقیقت سے اُس کا تقابل کرکے دیکھتے ہیں کہ ہم اُس آئیڈیل سے کتنے نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔

ایک آئیڈیل حکومت صاف،شفاف اور آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں وجودمیں آتی ہے، مغربی دنیا کے بیشتر مہذب ممالک میں انتخابی نتائج کو من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے ،ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اُن ممالک میں انتخابات کا انعقاد آئیڈیل انداز میں ہوتا ہے مگر باقی دنیا سے بہرحال وہ بہتر ہیں ۔آمریتیں ، بادشاہتیں اور کمیونسٹ حکومتیں البتہ اِس تکلف میں نہیں پڑتیں ، ایسا نہیں ہےکہ وہاں انتخابات نہیں ہوتے، انتخابات وہاں بھی کروائے جاتے ہیں مگر ویسے ہی جیسے آنجہانی صدام حسین کروایا کرتے تھے اورجس کے نتیجے میں موصوف ننانوے فیصد ووٹ لے کر بلا مقابلہ صدر منتخب ہوجاتے تھے ۔ ہمارے جیسے ممالک کی درجہ بندی بھی کوئی اچھی نہیں ، آئیڈیل سے کافی دور ہیں مگر دنیا کے کئی غریب اورکم ترقی یافتہ ممالک اورہر قسم کی آمرانہ حکومتوںاور تھیوکریسی سے اب بھی بدرجہا بہتر ہیں ۔آئندہ انتخابات میں پاکستان کے 12 کروڑ 85 لاکھ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے ،اِس حساب سے دنیا کی جمہوریتوں میں ہمارا پانچواں نمبر بنتا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔تاہم یہ بھی درست ہے کہ محض کروڑوں ووٹروں کا اندراج اِس بات کی ضمانت نہیں کہ اِن کا حق رائے دہی حقدار تک پہنچے گا یا نہیں ۔لیکن اِس خدشے کی آڑ میں پورے انتخابی عمل پر کراس لگا دینا بھی ٹھیک نہیں، ساڑھے بارہ کروڑ ووٹر کم از کم اپنا ووٹ تو ڈال ہی سکتے ہیں، اُن پر نہ کوئی پابندی ہے اور نہ ایسا کوئی طریقہ کار ایجاد ہوسکا ہے جس سے یہ پتا چلایا جا سکےکہ ووٹر کے دل میں کیا ہے ۔ہاں،یہ عین ممکن ہے کہ نصف آبادی کی عمومی تائید ، جسے روسو General Will کہتا ہے ، حتمی نتائج میں ظاہر نہ ہولیکن اگر ایسا ہوا ،یعنی اگر نتائج میںGeneral willکی عکاسی نہ ہوئی تو یہ بات بھی چھپی نہیں رہ سکے گی ، کیونکہ General will کا اظہار بہرحال بیلٹ بکس میں ہو جائے گااور یہ پتا چل جائے گا کہ انتخابی عمل آئیڈیل سے کتنا دور ہے،تاہم کسی بھی صورت میں ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ انتخابی عمل بالکل ہی صفر یا ناقابل قبول ہے ۔

تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ بہترین حکومت وہ ہے جو اتھارٹی کا کم سے کم استعمال کرے ۔ہنری ڈیوڈ تھورو نے اِس بیان میں ترمیم کرکے اسے مزید بہتر بنادیا اور کہا کہ مثالی حکومت وہ ہے جو حکمرانی ہی نہ کرے۔ہمارے ہاں البتہ اُلٹی گنگا بہتی ہے ، یہاں حکومت کا مطلب ہے زیادہ اختیار، زیادہ قوانین ، عوام پر زیادہ پابندیاں ایک آئیڈیل حکومت ایسی ہونی چاہیے جو منتخب ہوتے ہی اپنے اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل کرے، مقامی حکومتوں کو مضبوط بنائے اور اُن کے ٹیکس کا پیسہ اسی جگہ خرچ ہوجہاں سے وصول کیا جائے۔اٹھارہویں آئینی ترمیم اِس ضمن میں ایک بہترین اقدام تھاجس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ،اِس ترمیم کے نتیجے میں نہ صرف مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا گیا بلکہ صوبوں کو وہ تمام محکمے دے دیے گئے جن پر اُن کا حق تھا ،اصولاً اِس ترمیم کے بعد وفاق کے پاس سوائے کرنسی ،مواصلات ،دفاع ، خارجہ امور اور ایک آدھ مزید محکمے کے سوا کوئی محکمہ نہیں ہونا چاہیے جبکہ مقامی حکومتیں اِس قدر بااختیار ہونی چاہئیں کہ یونین کونسل کا سربراہ عملاً اُس علاقے کا وزیر اعلیٰ ہو۔آئے دن انتخابی جلسوں میں جو مسائل بیان کیے جاتے ہیں اُن میں سے نوّے فیصد کام وہ ہیں جو وزیر اعظم کے نہیں بلکہ کونسلر کے کرنے کے ہیں سو آئیڈیل حکومت میں مقامی حکومت کے پاس بجٹ ہو نا چاہیے اور اسی کے پاس خرچ کرنے کا اختیار۔بد قسمتی سے ہم اِس ماڈل سے ابھی کوسوں دور ہیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ ماڈل کامیاب نافذ ہوگیاتو صوبے کاوزیر اعلیٰ عضو معطل ہوجائے گااور شہر کا مئیرمالک بن جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ لندن ،بارسلونا اور اوسلوکے مئیر وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں ۔

ایک مثالی حکومت انصاف یقینی بناتی ہے ۔سقراط ،افلاطون اور ارسطو نے اِس پر طویل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ انصاف ہوتا کیاہے۔سقراط کے نزدیک اپنے کام سے کام رکھنا ہی دراصل انصاف ہے،ہر معاشرے میں ڈاکٹر، تاجر، سیاستدان، منصف اور فوج کے سپاہی ہوتے ہیں ، انصاف کا تقاضا ہے کہ اِن میں سے ہر شخص کو اپنی انفرادی ذمہ داری کی مکمل آگاہی ہو اور وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اسے احسن طریقے سے انجام دے۔یہاں بھی ہم آئیڈیل سے میلوں دور ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ جو شخص بھی اچھا کام کرے ،چاہے وہ اُس کی نوکری کی ذمہ داریوں کا حصہ نہ بھی ہو،تو اُس کی ستائش کی جانی چاہیے، یہ رجحان بے حد خطرناک ہے،بطور قوم ہم اِس قسم کے ایڈونچر کی قیمت کئی مرتبہ چکا چکے ہیں ۔ اب آخری سوال رہ گیا کہ آئیڈیل حکومت کس کی ہونی چاہیے ۔ گوکہ افلاطون کی طرح ارسطو بھی فلسفی بادشاہ کے حق میں ہے مگر وہ یہ حقیقت تسلیم کرتا ہےکہ کسی ملک میں دیوتا سمان شخص ملنا تقریباً نا ممکن ہے اور اگر ایسا شخص مل بھی جائے تو بادشاہت آسانی سے ظلم میں بدل جاتی ہے جو کہ حکمرانی کی بدترین شکل ہے۔اسی طرح انتہائی عقلمند اور خیر خواہ لوگوں کا چھوٹا گروہ بھی آسانی سے نہیں ملے گا ،آخر میں جمہوریت ہی بچتی ہے جس کے بارے میں ارسطو کا خیال ہے کہ وہ تینوں میں سے قدرے بہتر طرز حکومت ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہم آئیڈیل حکومت اور اِس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے فی الحال بہت دور ہیں مگر اُس آئیڈیل کے قریب جانے کا اگر کوئی درست راستہ ہے تو وہ شاہراہ انتخابات ہے، بے شک یہ شاہراہ ٹوٹی پھوٹی ہے اور اِس میں کئی رکاوٹیں مگر راستہ یہی ہے ۔اِس کے علاوہ اگر ہم کسی بھی اور راستے پر چلیں گے تو منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ دو ہزار سال کی تاریخ یہی ثابت کرتی ہے ۔

تازہ ترین