کسی آئیں بائیں شائیں سے کام لینا ممکن نہیں رہا کہ آزاد کی جیت کو شَہزاد کی جیت نہ کہا جائے! لیکن یہ بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اپریل 2022کی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی سے چند دن قبل تحریکِ انصاف نے الیکشن مہم پر کام شروع کردیا تھا جو ایک کامران حکمت عملی ثابت ہوا۔ نظر انداز یہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ "فطرتاً" نون لیگ کو فراہم کردہ ہموار راستہ انہیں وہ منزل نہ دے سکا جس کی سہولت کاری میں خندہ پیشانی تھی جبکہ رکاوٹوں کی دوڑ کا سامنا کرنے والی تحریک انصاف کے قدموں کو حیران کن منزل نے چُوما۔ جہاں تک آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی الیکشن کی کارکردگی کا تعلق ہے اس میں آصف زرداری بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں تاہم مولانا مطلوبہ نتائج سے کوسوں دور رہے!
ان نتائج کی اوٹ سے دیکھنا یہ بھی ہوگا اسفند یار ولی، آفتاب شیرپاؤ وغیرہ کی سوچ حالیہ سیاسی موسم کی تاب کیوں نہ لا سکی؟ سندھ میں جی ڈی اے کی ترتیب و پیشکش فہمیدہ مرزا و ذوالفقار مرزا ، غوث علی شاہ اور میاں محمد سومرو کو سرخرو نہ کر سکی، یہ بات حیرت کی ہے، اب ان تمام لوگوں کے پاس کوئی لمبی اننگز بھی نہیں کہ وہ آگے اپنے سیاسی کھیلوں کو تقویت بخش سکیں۔ اور حالیہ الیکشن نے ایک بارپھر جماعت اسلامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ اس کی شیلف لائف کم و بیش ختم ہونے کے درپے ہے!
جہاں تک "محبتوں کے امین" کی سیاست کاری اور ضرب کاری کا معاملہ ہے، ان کا 8 فروری کا عمل دخل 14 فروری کے روز کس قدر پیار سے سمجھا جا سکے اس پر حسین حقانی کا افضل خان کا یاد کرایا یہ شعر کافی نغمگی و شگفتگی رکھتا ہے؛ تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں / ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں۔
خیر سرکارِ عالی کہانی تو چلتی رہے گی سرِ دست سوچنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی چار دن کی چاندنی نے جس مہنگائی سے عوام کی آنکھیں چندھیائی تھیں وہ چبھن عوام نے پی ڈی ایم کو واپس لوٹا دی ہے۔ اب کے بار نتائج کہتے ہیں کہ عوام نے کوشش کی ہے وہ سدا رعایا ہی نہ رہے۔ عوام جہاں کافی حد تک رنجیدہ و سنجیدہ تھے وہاں انہوں نے ارتقاء کو رفتار سے بھی نواز نے کی کوشش کی ہے۔ اب اگر تمام متذکرہ قیادت بڑھی ہوئی پاکی داماں کو بریک لگاتے ہوئے دامن کو ذرا دیکھ لے اور بند قبا کو بھی، تو اسے یہ احساس ہوگا کہ کھائی سے نکل کر کنویں میں گرنے سے قبل 2007 کی طرح کے میثاقِ جمہوریت پر غور کر لیں جس کے سبب 2008 کے بعدتین قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی بھلے ہی تین وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے مگر اسمبلی، تو چلی۔ اب گلشن کے کاروبار کے چلنے کیلئے ایک میثاقِ معیشت کی اشد ضرورت ہے !
اللہ نہ کرے کہ ماضی کے کسی انتخاب کی المناکی کا کوئی تذکرہ ہو اور کسی پر مجیب الرحمٰن سا الزام بھی آئے۔ خدشات اور تحفظات پر غور کرنا بھی سیاسی قیادت ہی کا فریضہ ہے لہٰذا پھر سے قوم کی درخواست ہوگی کہ سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے چاہے کوئی اعتکاف میں ہے یا پابند سلاسل یا اپنی ہواؤں میں۔ کسی ایک اسحاق ڈار یا کسی ایک اسد عمر کا تجربہ کافی نہیں۔ معیشت کو چلانے اور انڈسٹری کو دوڑانے کیلئے کوئی اکلوتا سی پیک بھی کافی نہیں۔ دیکھ چکے کہ اب عوام کسی زنگ آلود بوڑھے ذہن کو بزرگانہ حقیقت ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں! لیکن سب سے اہم سوال جو اگلے دنوں جواب کیلئے دست بستہ کھڑا ہوگا وہ یہ کہ کیا عمران خان لچک اور سنجیدگی کو بروئے کارلا کر اپنے ان ووٹرز کیلئے ایسا عمل سامنے لا سکیں گے جس سے اعتماد کو تقویت بھی ملے اور قوم کو بھلا بھی۔ اگر پھر سیاسی جنگ و جدل کا سلسلہ شروع ہوگیا، تدبر کی جگہ تکبر نے لے لی تو معیشت کے پرخچے اڑ جائیں گے۔ اس موقع پر آصف علی زرداری کو ایک کردار ادا کرنا ہوگا اور میاں محمد نواز شریف کو اپنی بزرگی دکھانا ہوگی۔ اگر نوازشریف اور عمران خان ماضی والے دکھائی دئیے تو جلد مڈٹرم جیسی ٹرم کی سیاسی بازگشت بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیسے بھول جائیں کہ خان کا اقتدار پہلے بھی رائیگاں گیا وہ اپنے بھاری بھرکم وزن ہی سےمنہ کے بل گرنے کا سبب بن گیا، ڈائیلاگ اور جمہوریت کے چولی دامن کے ساتھ کو بالائے طاق رکھنا ایک دفعہ پھر خان کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا، پھر عدالتی مہم کا آگے ایک لمبا سفر ہے جس میں سر پر سزاؤں کی تلوار الگ لٹک رہی ہے، حالیہ خوشیوں کے شور میں یہ سب گم ضرور ہے مگر آگے جاکر مہلک بھی!
اس میں کوئی شک نہیں پیپلزپارٹی کیلئے سندھ میں حکومت بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا، ہو سکتا ہے مسلم لیگ نواز حکومت نہ بنا پاتی اور آئی پی پی یا پی پی پی بھی اس کیلئے کچھ نہ کر پاتی اگر تحریک انصاف کے ممبران آزاد نہ کہلا رہے ہوتے ، خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ نواز کیلئے آسانیاں تو پیدا ہو جائیں گی لیکن دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ آزاد اراکین کب تک پنجاب اسمبلی میں آزاد رہ پائیں گے۔ کے پی کے میں آزاد نما پی ٹی آئی ممبران کو بھی قانونی مسائل کا سامنا ہے الیکشن کمیشن کی کسی رجسٹرڈ جماعت میں ضم ہو کر اس کے صدر یا چیئرمین کو ماننا ہوگا پھر ایک لمبی قانونی و پارلیمانی تگ و دو کے بعد پارٹی سربراہ کو بدلنا بھی ہوگا۔ بلوچستان میں ایک مخلوط سیٹ اپ آئے گا کہ وہاں جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی بارگین کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن مقامی سرداروں کے بغیر سب ممکن یہاں بھی نہیں علاوہ بریں مقتدرہ فراموشی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینٹ انتخابات کا بھی آگے جاکر ایک مرحلہ آنے والا ہے جو مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا۔
اجی، تحریک انصاف کے آزاد و شہزاد کو معرکہ سر کرنے پر ویل ڈن نہ کہنا بخیلی ہوگی لیکن آنیوالے دنوں کی پول سائنس میں صرف نیوٹن ہی کا قانون نہیں چلنے والا ، کئی قانونی پیچیدگیوں اور اعصابی سرگرمیوں کے باب بھی کھلنے والے ہیں جنہیں ہر کسی نے حب الوطنی کے تناظر میں نہ لیا تو حکومت سازیوں کے بعد معیشت اور جمہوریت کے پروان چڑھنے کے بجائے دما دم مست قلندر ہی کے بازار گرم ہوں گے!