• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ چند دہائیاں پہلے تک اگر کسی بچّے کو کھیلتے کُودتے کوئی چوٹ لگ جاتی، تو کہا جاتا کہ’’ خیر ہے، کوئی بات نہیں ۔‘‘ یہ صبر و برداشت کا وہ پہلا درس تھا، جو کم و بیش ہر بچّے کو سکھایا جاتا۔پھر رفتہ رفتہ اُسے سب رشتے داروں، اساتذہ اور محلّے داروں وغیرہ کا احترام سِکھایا جاتا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ سب کچھ بدلتا چلا گیا۔ ہماری سوچ، رویّوں، عادات اور تربیت میں بہت تبدیلی آ گئی۔ اب بچّوں اور نوجوانوں کو سِکھایا جاتا ہے کہ’’ چُپ مت رہو، بولو، اینٹ کا جواب پتھر سے دو، اپنا حق چھین کر لے لو، اکڑ جاؤ۔‘‘’’ خیر ہے کوئی بات نہیں‘‘ جیسا جملہ تو کہیں مرکھپ ہی گیا، حالاں کہ اِس ایک جملے سے معاشرے میں امن و آشتی اور ادب و احترام کا ایسا ماحول محسوس ہوتا تھا کہ چہار سُو سکون ہی سکون نظر آتا۔

دوسروں کی بات سُننے، ماننے کا حوصلہ، صبر و برداشت کا مادہ کم ہوا، تو اس کی جگہ عدم برداشت نے لے لی اور پھر اُس بھیانک معاشرتی بگاڑ کا آغاز ہو گیا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے گھر، خاندان، قبیلے، معاشرے اور خطّے سے نکل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس بگاڑ کا عکس ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ خواہ خاندانی نظام ہو، سیاست، معیشت، معاشرت یا مذہب، ہر شعبے میں دَر آنے والے عدم برداشت کے رویّے نے امن کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ اگر ہم صرف مذہب ہی کو لے لیں، تو تمام ہی مذاہب کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ’’ ہمارے مذہب نے امن و آشتی، پیار و محبّت اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔‘‘

جب کہ ہم مسلمان جس نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اُمّتی ہیں، صبر و برداشت اور ہم آہنگی کے ضمن میں اُن کی زندگی میں ہمارے لیے سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اُن کی حیاتِ پاکؐ تو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ہمیں بحیثیت انسان اور مسلمان دوسروں کی حق تلفی، ناانصافی اور زیادتی سے منع کیا گیا ہے، جب کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ اپنے رویّوں، معاملات اور زندگی گزارنے کے ایسے طریقے سِکھائے گئے ہیں،جن سے معاشرتی نظام بہتر اور دنیا میں امن و امان کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔

دنیا میں جہاں مذہب، طاقت یا دولت کی بنیاد پر جنگیں ہوتی رہی ہیں، وہیں مذہبی روا داری اور انسانیت کے احترام پر بھی بہت زور دیا جاتا رہا ہے تاکہ دنیا کا امن قائم رہ سکے۔اِس ضمن میں دسمبر 2023ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بین المذاہب و بین الثقافتی مذاکرات کی ترویج کے لیے پاکستان اور فلپائن کی جانب سے پیش کردہ قرارداد نہایت اہمیت کی حامل ہے، جو متفّقہ طور پر منظور کی گئی۔ 

ترجمان، دفترِ خارجہ کے مطابق،’’ یہ قرارداد امن کے لیے باہمی تعاون اور بین المذاہب وثقافت کے فروغ کے لیے تھی۔ نیز، اس میں مذہبی علامتوں کی اہمیت و احترام کی ضرورت اجاگر کی گئی۔قرارداد میں تسلیم کیا گیا کہ تشدّد اور عدم برداشت قابلِ قبول نہیں اور یہ کہ تشدّد کو کسی مذہب، شہریت، تہذیب یا کسی لسانی گروہ سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ یہ قرارداد اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور مذہبی عدم برداشت کے تشویش ناک اضافے کے تناظر میں بہت اہم ہے۔‘‘ پاکستان، ازل سے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے لیے کوشاں ہے۔ ہمارے مُلک کا قومی پرچم اسی مذہبی ہم آہنگی کا ایک بہترین نمونہ ہے کہ جس میں سفید رنگ مذہبی اقلیت کی ترجمانی کرتا ہے۔

علاوہ ازیں، پاکستان کے آئین میں تمام مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفّظ حاصل ہے۔آئین کے آرٹیکل8 سے28 تک میں21 بنیادی انسانی حقوق کا ذکر ہے، جو تمام پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔ یوں پاکستانی شہری ہونے کے ناتے مذہبی اقلیتیں بھی اِن تمام حقوق کی حق دار ہیں۔ البتہ یہ پاکستان کے صدر یا وزیرِ اعظم کےعُہدے پر فائز نہیں ہو سکتے۔ آرٹیکل 20، 21 اور22 کے تحت ہر فرد اپنے مذہب کے مطابق اپنے دینی و تعلیمی ادارے بنانے کا حق رکھتا ہے، جب کہ آئین کا آرٹیکل15 انہیں ہر طرح کی نقل وحرکت کی آزادی دیتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت قائدِ اعظم محمّد علی جناح نے11 اگست1947 ء کی تقریر میں تمام پاکستانیوں سے مخاطب ہو کہ کہا کہ’’آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں، اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاستِ پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں‘‘۔ یہ تقریر بتاتی ہے کہ جب نئی ریاست کی تشکیل ہورہی تھی، تو ریاست کے بانی کے ذہن میں اُس کا نقشہ کیا تھا اور وہ اسے کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے۔

بانیٔ پاکستان کی یہ تقریر مذہبی اقلیتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔بابائے قوم نے صرف 11اگست کی تقریر ہی میں نہیں، بلکہ لگ بھگ اپنی33 تقاریر میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کُھل کر بات کی۔اُن کے دَور میں وزیرِ قانون ہندو مذہب کے پیروکار تھے، جب کہ وزیرِ خارجہ بھی ایک اقلیتی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔

بلاشبہ، دینی و مذہبی ہم آہنگی اُس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتی، جب تک عمومی معاشرتی رویّوں میں تبدیلی نہ لائی جائے اور اِس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے نفرت انگیز سوچ بدلنی ہوگی، جب کہ نہ صرف اپنے بلکہ دیگر مذاہب کو بھی حقیقی طور پر سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اِس ضمن میں مختلف سطح پر انفرادی اور اجتماعی کوششیں ہونی چاہئیں، تو دوسری طرف، تمام مذاہب و مسالک کے مذہبی رہنما انسانیت، بھائی چارے، رواداری، محبّت اور امنِ عامّہ کے پیغام کو اپنے پیروکاروں، خاص طور پر نوجوانوں تک پہنچائیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ تمام مذاہب کے احترام کی سوچ عام نہ ہو۔اور یہ کاوشیں نہ صرف مُلکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے قیام کا موجب بن سکتی ہیں۔ 

پھر یہ کہ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے قیام کے لیے حکومتی سطح پر خصوصی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔گو کہ اِس سمت کام کا آغاز ہو چُکا ہے، تاہم اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ نیز، مُلک کے ہر طبقے، مذہب یا مسلک سے وابستہ افراد کو بھی اِس مشن میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہر سطح پر انسانیت کے احترام کا درس پہنچ سکے۔جیسا کہ نگران وفاقی وزیرِ مذہبی امور، انیق احمد مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی اہمیت و ضرورت سے متعلق آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ 

اِسی موضوع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ’’ دنیا میں قیامِ امن کے لیے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔ برداشت اور احترام کا رویّہ اسلام کی تعلیمات کا لازمی جزو ہے۔ یہ خاص طور پر بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔ مختلف مذاہب کے مابین مکالمے کا دروازہ کھولنے کے ضمن میں اسلام کا فلسفہ نہایت حقیقت پسندانہ اور واضح ہے، جب کہ ایک پُرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے تضادات کو سمجھنا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے۔سو، دنیا میں قیامِ امن کے لیے بہرطور اسلام ہی کے زرّیں اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔‘‘

پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں ہندو، عیسائی، سِکھ، پارسی، بدھ مت کے پیروکار اور کیلاشی نمایاں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسیحی برادری کی تعداد 2,70,0000تقریباً 1.8فی صد، ہندو 1.6فی صد، بدھ مت کے پیروکار 50,000اور سِکھوں کی تعداد30,000 ہے، جب کہ زرتشت/پارسی پچیس ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے ذیل میں سِکھ برادری سے تعلق رکھنے والی انیتا نے ہم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہر مذہب اچھا ہے اور وہ اچھائی ہی سِکھاتا ہے۔ ہمارے مذہب نے بھی یہی درس دیا ہے کہ نہ صرف ایک دوسرے کی عزّت کریں، دوسرے کے مذہب اور عقیدے کی بھی عزّت کریں۔ 

انیتا
انیتا

پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم سب اچھے طریقے سے مِل جُل کر رہتے ہیں۔ خوشی، غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اذان ہوتی ہے،تو ہم بھی سر پر دوپٹا لے لیتے ہیں۔ اپنے بچّوں کو بھی یہی سِکھاتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے، بس ہر کوئی اُسے الگ الگ نام سے پکارتا ہے۔ اب مُلک میں حالات کافی بدل گئے ہیں، ہم ماتھے پر بندی، سیندور لگا کر گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں، لوگوں میں بہت شعور آگیا ہے، لیکن اب بھی کافی کام باقی ہے۔لیکن کسی ایک سانحے یا واقعے کی وجہ سے پورے معاشرے کو موردِ الزام ٹھہرانا بھی درست نہیں۔ ہم پاکستان میں بہت خوش اور آزاد ہیں۔ یہ ہمارا اپنا مُلک ہے، حکومتیں ہمارے لیے فنڈز جاری کرتی ہیں اور سہولتیں بھی دیتی ہیں۔

صفی اللہ گل
صفی اللہ گل 

بعض اوقات کچھ معاشرتی رویّے پریشان کر دیتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر صورتِ حال تسلّی بخش ہے۔‘‘ اسی حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار، صفی اللہ گل کا کہنا ہے کہ’’امن و امان کے قیام کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی ضروری ہے اور اِس ضمن میں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ اس پوری دنیا، تمام ممالک یا معاشروں پر دوسرے انسانوں کا بھی حق ہے۔اِسی سوچ سے برداشت کا مادّہ پیدا ہوگا، جس سے رواداری جنم لے گی اور پھر نتیجتاً امن کوتقویت ملے گی۔ 

غیرمنصفانہ معاشرتی تقسیم مُلک وقوم ہی کے لیے نقصان دہ نہیں،اس سے امن بھی سبوتاژ ہوتا ہے۔خصوصاً نوجوانوں میں یہ شعور بے دار کرنا بے حد ضروری ہے کہ وہ ہر انسان کو انسان کے طور پر دیکھیں، نہ کہ کسی مذہب یا کسی قوم کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر۔ اِس رویّے سے ہمارے بہت سے مسائل ازخود کم ہو جائیں گے۔ پھر اگر کوئی ناخوش گوار واقعہ سامنے آتا ہے، تو سب سے پہلے ہمیں پسِ پردہ حقائق تک پہنچنا چاہیے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اِس طرح کے واقعات کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں، کس کا فائدہ ہو رہا ہے اور کون نقصان اُٹھا رہا ہے۔

جہان داس
جہان داس

نیز، اِس طرح کے واقعات کے بعد جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے مُلکی قوانین سے رجوع کرنا چاہیے۔‘‘اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ اب بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے اور اِس طرح کی کاوشوں میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ چوں کہ اِس مشن میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے، تو میڈیا کو مختلف طبقات میں تفریق کا سبب بننے والے واقعات کو رپورٹ کرنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے۔ ویسے خوشی کی بات یہ ہے کہ قومی میڈیا کو اپنی ذمّے داریوں کا بخوبی احساس ہے اور وہ اِس طرح کے واقعات کی رپورٹنگ میں بہت احتیاط کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔

البتہ، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر بہت سے افراد افواہیں پھیلا کر قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کا ذریعہ بنتے رہتے ہیں۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ لائکس اور ویوز کے چکر میں قومی سلامتی کا ذرّہ بھر پاس نہیں کیا جاتا۔ایسے مواقع پر ہمیں بھیڑ چال کی بجائے ذمّے دار شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ دوسرے مذاہب کا کیا احترام اورتقدّس ہے تاکہ کسی کی بھی دل آزاری نہ ہو۔

سویرا
سویرا

علاوہ ازیں، ہمیں اپنے تعلیمی نصاب پر بھی نظرِ ثانی کرتے ہوئے ایسا مواد حذف کردینا چاہیے، جو دُوریاں پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اگر نصاب میں بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق مضامین شامل کر دئیے جائیں، تو بچّوں اور نوجوانوں میں ابتدا ہی سے ایک دوسرے کے لیے برداشت کے جذبات پروان چڑھ سکیں گے۔ بچّوں کے بوٹ کیمپس بھی مفید نتائج دے سکتے ہیں، جن میں شہری علاقوں کے ساتھ دیہات کے بچّوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔آپس میں بیٹھنے سے اُنہیں ایک دوسرے سے آگاہی ہوگی اور بہت سی غلط فہمیاں بھی دُور ہو سکیں گی۔‘‘

ثانی سیمسن
ثانی سیمسن 

مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی، ثانی سیمسن نے اِس موضوع پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ’’ امن و امان کے قیام میں مذہبی ہم آہنگی کلیدی کردار ادا کرتی ہے، لیکن اگر بچّوں کے ذہنوں میں بچپن ہی سے کسی کے خلاف نفرت بھری جائے گی، تو پھر ایسا معاشرہ بگاڑ ہی کی طرف جائے گا۔ سو، اِس بگاڑ سے بچاؤ کے لیے یہ سِکھانا ضروری ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناتے ہمارے کچھ حقوق و فرائض ہیں؟ مذاہب کی تعلیمات انتہائی ضروری ہیں، لیکن اِس ضمن میں محبّت، بھائی چارے، روا داری اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری جیسے امور کو فوقیت دینی چاہیے، جن پر تمام ہی مذاہب نے بہت زور دیا ہے۔ 

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ صرف اس وجہ سے بھی دوسروں کی حق تلفی کر جاتے ہیں کہ وہ اکثریت میں ہیں، تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علاقوں میں مذہب کی جبری تبدیلی یا زبردستی شادی بیاہ جیسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے مذہب نے ہمیں سِکھایا کہ اپنے پڑوسی سے محبّت رکھو، اس سے اپنے بھائی جیسا سلوک کرو، تو اگر ہم اِن ہدایات کے مطابق چلیں، تو مجھے لگتا ہے کہ اس طرح ہم بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ 

سپنا
سپنا

اِسی طرح ہم دوسروں سے بھی یہی توقّع رکھتےہیں۔‘‘ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی اسکول ٹیچر، سپنا کا خیال ہے کہ’’جب تک مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر مذاہب کو نہیں سمجھیں گے، اُس وقت تک غلط فہمیاں جنم لیتی رہیں گی اور ان سے پیدا شدہ مسائل امن و امان کو خطرے میں ڈالتے رہیں گے۔ ماں ایک لیڈر ہوتی ہے، تو اُسے اپنے بچّوں کو ایسی تربیت دینی چاہیے کہ وہ انسانیت سے محبّت کرسکیں۔

مفتی عبدالجمیل
مفتی عبدالجمیل 

اِسی طرح کی تعلیم و تربیت کی اسکولز میں بھی ضرورت ہے۔ نیز، اگر مذہبی اسکالرز امن ہی کو بنیاد بنا کر تقاریر کریں، تو اس سے بھی مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین دُوریاں کم ہوسکتی ہیں۔‘‘معروف مذہبی اسکالر، مفتی عبد الجمیل کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’دوسرے مذاہب کا احترام تو ہر مذہب کی تعلیمات میں شامل ہے، لیکن اگر اسلام کی بات کی جائے، تو اس میں ساتھ رہنے والے غیر مسلموں کے مال، جان، املاک اور عزّت وناموس کی حفاظت مسلمانوں کی ذمّے داری قرار دی گئی ہے۔اُنھیں احسن انداز سے سہولتوں کی فراہمی اور عبادت کی پوری آزادی پر بھی زور دیا گیا ہے۔‘‘

فوّاد اختری
فوّاد اختری

بہائی کمیونٹی کے فوّاد اختری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ’’بنیادی بہائی اصولوں کے مطابق دوسرے مذاہب کا احترام ہمارے فرائض میں شامل ہے، گویا یہ ہمارا ایک دینی فریضہ ہے۔ بہائی کمیونٹی صرف مُلکی سطح ہی پر نہیں، عالمی طور پر بھی ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کی خواہاں ہے، کیوں کہ مَیں آج یہاں ہوں، تو کل شاید کسی دوسرے مُلک چلا جاؤں، لیکن اقدار ایک ہی ہونی چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا، تعلیم کے میدان میں بہت آگے جا چُکی ہے،انسان چاند سے بھی آگے چلا گیا ، لیکن تربیت میں کمی رہ گئی ہے، لہٰذا اگر ہم تربیت پر کام شروع کر دیں، تو مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔‘‘

سمیرا یوسف
سمیرا یوسف 

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون نرس سمیرا یوسف نے موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ مسائل تو ہیں، لوگوں کے رویّے بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں، مگر یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مسئلہ صرف آگاہی اور شعور کا ہے۔ جو لوگ مذاہب کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہیں، وہ امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتے اور سب کو جینے دیتے ہیں۔ ہم پاکستانی شہری ہیں، ہمارا دُکھ سُکھ اسی کے ساتھ ہے، ہمارے بزرگوں نے مُلک کے لیے قربانیاں دیں اور ہم بھی مُلک کے لیے سب کچھ کر گزرنے پر تیار ہیں۔ ہماری بھی وہی مشکلات ہیں، جو کسی پاکستانی خواتین کی ہیں۔

زبرزیق
 زبرزیق

بہرحال، امن کے لیے صبر، برداشت اور دوسروں کو اپنی طرح کا انسان ماننا ضروری ہے اور اِس مقصد کے لیے عاجزی بھی درکار ہے، جس کا حصول اچھی تعلیم و تربیت ہی سے ممکن ہے۔‘‘ کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے زبرزیق نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں کو آپس میں جوڑنا ہو گا تا کہ غلط فہمیاں دُور ہوں اور لوگ بھی سُنی سُنائی باتوں پر یقین کرنا چھوڑ دیں۔ ہر تصویر کے کئی کئی رُخ ہوتے ہیں، لہٰذا حقیقت سمجھ کر ہی کوئی ردّ ِ عمل دیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ امن و امان کے مسائل پیدا ہوں۔دراصل، کوئی مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان اپنی مذہبی تعلیمات بُھلا کر خود کو دوسروں سے بہت بالاتر سمجھ لیتا ہے۔ 

اویناش داس
اویناش داس

وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک عاجز انسان ہے، جسے وقتی طور پر کسی چیز یا معاملے میں قدرت حاصل ہے، لیکن تمام تر قدرت اور اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔‘‘ہندو کمیونٹی کے اویناش داس اور جہان داس کا کہنا ہے کہ’’ امن کا قیام صرف اُسی صورت ممکن ہے کہ دوسروں کو بھی اپنی طرح کا انسان سمجھا جائے اور انہیں خود سے کم تر سمجھتے ہوئے بے عزّت کرنے سے بچا جائے۔ تمام مخلوق اللہ کی پیدا کردہ ہے، ہم سب کا اس پر ایمان ہے اور وہی سب کا مالک ہے۔‘‘

فرناز گل
فرناز گل

اِسی طرح سِول سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے فرناز گل نے کہا کہ’’ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا، دوسرے مذہب کے پیروکار کو کم تر نہ سمجھے۔ دنیا میں بڑا رشتہ اپنائیت، محبّت اور ہم دردی کا ہے۔ کسی کے ساتھ بغض اور کینہ نہیں رکھنا چاہیے، کیوں کہ اس سے نفرتیں بڑھتی ہیں، جو گھر، معاشرے، خطّے اور پھر دنیا کا امن تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے بچّوں کو ایک پُرسکون، آرام دہ اور امن سے بھرپور زندگی دے کر جا رہے ہیں یا تشدّد، خطرات اور خوف سے بَھری دنیا اُن کے حوالے کر رہے ہیں۔‘‘