ہزاروں سال پہلے یونانی ڈراما اداکار چہروں پر ماسک لگایا کرتے تھے، ماسک لگانے کے کئی فوائد تھے، تھوڑے ایکٹر ماسک بدل بدل کر بہت سے کردار نبھا لیتے، عورتوں کے رول بھی ماسک پوش مرد ادا کر لیا کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ماسک کسی نہ کسی جذباتی کیفیت کے نمائندہ ہوتے تھے یعنی خوشی، غمی، خوف، حسد، وغیرہ جس سے ڈرامے کی تفہیم میں تماشائیوں کی معاونت ہوتی تھی ، اور پھر ماسک کے نقوش اتنے مبالغہ آمیز ہوتے کہ تھیٹر میں دور دور بیٹھے ہوئے تماشائی بھی کرداروں کی کیفیت بھانپ لیتے تھے۔جب کہ نفسیاتی طور پر یہ ماسک Suspension of disbelief کا فریضہ انجام دیتے، کیوں کہ اکثر ڈراموں کا موضوع دیو مالا ہوا کرتا تھا اس لیے انسانی چہرے سے مختلف شکلیں کرداروں کو زیادہ معتبربنا دیتی تھیں۔اس سے پہلے کہ ماسک کا تذکرہ مزید طول پکڑے، اس موضوع کے شانِ نزول کی طرف چلتے ہیں۔ نئی قومی اسمبلی میں جس روز نئے قانون سازوں نے حلف اٹھانا تھا، پی ٹی آئی کے ممبرز اپنے چہروں پر عمران خان کی شکل کا ماسک سجائے ہوئے نمودار ہوئے، پیغام یہ دینا مقصود تھا کہ ـ’’گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی....یہ جنونِ عشق کے انداز چُھٹ جاویں گے کیا۔‘‘ یعنی عمران خان کو آپ لاکھ جیل میں ڈالیں، ہم سب اُس کے جاں نثار سپاہی ہیں، آپ ایک عمران خان کو اسمبلی سے باہر رکھیں گے تو ایک سو عمران خان اسمبلی میں نمودار ہو جائیں گے،یعنی وہی پی پی پی والا پیغام کہ ’’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔‘‘ نوٹنکی کا عنصر کچھ زیادہ ہونے کے باوجودیہ اپنا سیاسی پیغام پہنچانے کا ایک دلچسپ اور انوکھا طریقہ تھا۔ دوسری طرف عمران خان کے ماسک نے نکتہ چینوں کو بھی خاصا مواد فراہم کیا، کچھ ناقدین کا کہنا تھا کہ ویسے تو عمران بہت ہینڈسم ہیں لیکن ان ماسک میں وہ فراعینِ مصر کے کزن دکھائی دیتے ہیں، ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ ’عمران خان ایک ماسک ہی تو ہیں، مذہبی ماسک سے جمہوری ماسک تک، ‘ اسی طرح خواتین ممبرز نے عمران کے زنانہ ماسک لگا رکھے تھے، جو ناقدین کی نظر میں علیمہ باجی سے زیادہ مماثلت رکھتے تھے۔ غرضے کہ، جتنے منہ اتنی باتیں۔
کوئی کم کوئی زیادہ، مگر ہر سیاست دان ماسک کا استعمال کرتا ہے، تاکہ اس کی کوتاہیاں چھپ جائیں، وہ جیسا ہے ویسا نظر نہ آئے بلکہ ایسا دکھائی دے جیسا لوگ دیکھنا چاہتے ہیں، انسان دوست، مذہبی، محب الوطن، سچا، خاندان سے محبت کرنے والا، وغیرہ وغیرہ۔قنوطی دوست تو مصر رہتے ہیں کہ کامیاب سیاست دان تو ہوتا ہی وہ ہے جس کا ماسک بہتر ہوتا ہے، جسے کبھی کوئی بے نقاب نہیں دیکھتا۔بہرحال، اس وقت ہمیں ایک مختلف نوع کا سیاست دان درپیش ہے، ایک ایسا سیاست دان جسے مخالفین بھی ماسک پوشی کا طعنہ نہیں دے پاتے، شاید اسی وجہ سے بہت سے لوگ تو اسے سیاست دان تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ یہ ہیں میاں محمد شہباز شریف جنہوں نے پچھلے ہفتے دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے۔
ہم بہت دیر شہباز شریف کے ماسک اترنے کا دلچسپ منظر دیکھنے کے منتظر رہے ’پہ تماشا نہ ہوا‘ ۔نہ ان کی کوئی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ کسی قتالہ کے برقی وصال میں پگھل رہے ہوں، یا کسی سرکاری دستاویز پر ’کھیلنے‘ کا عزم ظاہر کرتے پائے جائیں، نہ کوئی اسلامی ٹچ اور نہ کوئی ہیروں کا بیوپار۔ بلکہ ان کی ایک آدھ آڈیو جو مارکیٹ میں آئی وہ بھی پھسپھسی قرار پائی کہ شہباز شریف اس میں اپنی بھتیجی کو قانون کے سیدھے راستے پر پر چلنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ شہباز شریف نے کبھی ’سویلین بالا دستی‘ کا ماسک بھی چہرے پر نہیں سجایا، وہ ہمہ وقت حکومت میں مقتدرہ کے ساتھ جونیئر پارٹنر کے طور پر کام کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں، اور برملا اس کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ 2018 میں جب مسلم لیگ کی قیادت ’ووٹ کو عزت دو‘ کا شوخ رنگ ماسک پہنے سیاست کے اسٹیج پر جلوہ فشاں تھی ، شہباز شریف اُس وقت بھی بِنا کسی ماسک کے ’خدمت کو عزت دو‘ کا گیت دھیمے سُروں میں گنگنا تے رہے۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کو سیاست دان سے زیادہ ایڈمنسٹریٹر سمجھا جاتا ہے، اور بہرحال خوش انتظام تو وہ ہیں، یہ تو ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں۔
واقع یہ ہے کہ آج ترقیاتی کام کرنے کا جو طریقہ معمول سمجھا جاتا ہے زمانہء قبل از شہباز میںقریباً نا پید تھا۔ مثلاً، سڑکوں کی تعمیر کا طریقہ یہ تھا کہ جون میں فنڈلیپس ہونے سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع ہوتا تھا، پھر برسات آ جاتی، اور کہہ دیا جاتا کہ سڑک تو بنا دی گئی تھی، بارشوں میں بہہ گئی ہے، ٹھیکے دار بھی خوش، کرپٹ افسر بھی مسرور، سال ہا سال چھوٹی چھوٹی سڑکیں زیرِ تعمیر رہا کرتی تھیں، شہر شہر گلی گلی یہی کہانی تھی، یہ ہماری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں۔پنجاب میں، بلکہ پاکستان میں، آج جب کوئی پروجیکٹ وقت پر یا وقت سے پہلے ختم ہوتا ہے تو شہباز سپیڈ کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کی کارکردگی کامقابلہ بھی ان کے چچا جان سے ہی کیا جائے گا، اس ضمن میں عثمان بزدار کا نامِ نامی مورخ فقط چھیڑ خانی کے لیے ہی استعمال کرے گا۔قصہ مختصر، پھر یوں ہوا کہ PDM کی سولہ ماہی حکومت آ گئی، اور مہنگائی کی ایک تیز لہر آئی جس کا الزام وزیرِ اعظم شہباز شریف پر دھردیاگیا، شہباز شریف کی زندگی بھر کی کمائی بھک سے اڑ گئی، پاکستان کی تاریخ کا بہترین منتظم کچھ ہی دنوں میں ایک ناکام وزیرِ اعظم قرار دے دیا گیا۔
مگر الوہی عدل کو شاید کچھ اور منظور ہے۔ پکچر ابھی باقی ہے، شہباز شریف دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئے ہیں، اور انہیں اپنی Legacy طے کرنے کا ایک اور موقع مل رہا ہے....شاید آخری موقع۔