جس دشت کی سیاحی میں مسلسل دس سال بیت گئے ، وہ اب "دشت" نہیں رہا وہاں کچھ خوشنما ڈالیاں بھی لچکاتی بَل کھاتی اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں، اور کئی شگوفے ، کلیاں اور غنچے چٹخ کر پھول بن چکے۔ کہیں سب۔ایکو سسٹم کی پروڈکشن اور پروڈکٹوِٹی کی نکہتیں اور افادیتیں پورے ماحول کو بھی مہکا رہی ہیں۔ لیکن، ہنوز دلی دور است!
سیاسی و سماجی قیادت کی ذرا سی کاوش سے دن بدل سکتے اور سب فاصلے مِٹ سکتے ہیں، منزلیں قدم چومنے کیلئے بھی بےقرار ہیں مگر ہمی علاجِ تنگی داماں کے متلاشی نہیں، ساغر میں لہریں بھی ہیں، ہواؤں میں تازگی بھی، بازگشت بھی شگفتگی سے لبریز ہے، میدان ہیں اور میدان مارنے والوں میں جوش بھی ہے اور جفاکشی بھی۔ رہبر میں عزم ، کارکن میں امید اور اذہان و قلوب میں وسعتیں بھی ہوں اور بھر پور ہوں پھر بھی منزل نہ ملے، جمہوریت پروان نہ چڑھے، معیشت کو آکسیجن میسر نہ ہو اور خارجی امور میں آئیوڈین کی کمی ہو ، تو ایسے میں اپنے رویوں اور حرکات و سکنات کو ذاتی اور باہمی سطح پر جانچ لینا گویا جائزے کو تقویت بخشنا اٹھان اور بناؤ کے سینکڑوں ہزاروں باب کھول دیتا ہے۔ اقوام کی تاریخ، سماجیات کی سمت، سیاسیات کی سچائی اور بین الاقوامیت کی رعنائی کو چشمِ بینا سے دیکھنے کی ضرورت اس ڈیجیٹلائزڈ زندگی میں پہلے سے زیادہ ہے! ورنہ جمہوریت بیساکھیوں ور آمریت جہازوں پر ہے!
کم و بیش پانچ سال بعد یونیورسٹی آف سرگودھا جانے کا موقع ملا، پیش منظر کے حوالے سے دنیا بدل چکی ہے، عمارتی تعمیر و ترقی دیکھ کر یہی خیال دل میں آیا؛ اگر یہ ترقی ریسرچ میں دکھائی دے اور یہی فروغ اگر رویوں میں ہو تو یونیورسٹیوں سے صرف پالیسیاں ہی جنم نہ لیں بلکہ لیڈرشپ بھی ملے اور بنے۔ لیکن سماج میں کام چوری، تحقیق میں پلیجرزم اور جمہوریت میں آمریت کی آمیزشیں دیکھ کر ہنوز دل ڈوبتا ہے اور ہنوز دلی دور است کی تاریخ اور تصدیق سے جان نہیں چھوٹتی۔ رئیس جامعہ ڈاکٹر قیصر عباس اور سابق چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر نظام الدین کی موجودگی میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر میاں غلام یٰسین سات روزہ ریسرچ ارینا کی ایک بزم میں سینکڑوں اسکالرز کی موجودگی میں کہنے لگے’’میں نے نعیم مسعود کی کتاب ' زاویہ زرداری‘‘ کا پیش لفظ لکھا ہے‘‘ہم نے عرض کیا آپ نے ہماری کتاب’’ہائر ایجوکیشن لیڈرز‘‘ کا بھی پیش لفظ لکھا ہے اس کا بھی تذکرہ کر دیجئے، اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کتب ، عوام و خواص اور ملت کا مقدر تو اس وقت کھلے گا جب ایسی کتب پر یونیوسٹیوں میں سوال اٹھائے جائیں گے، متذکرہ پرو وائس چانسلر اپنی جگہ سماجیات و سیاسیات کے ایک مستند پروفیسر بھی ہیں سو ہماری یہ اپیل ان کے اور موجود سینکڑوں سوشل انجینئرز کے سامنے رکھنا ضروری تھی۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سوشل انجینئر معاشرتی تبدیلیوں کی ڈویلپمنٹ کو اس طرح مینج اور ریگولیٹ کرتا ہے کہ کمیونٹی کی مثبت نشوونما ہو۔
ویسے تو یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات ہی پرجوش نہیں ہوتے ہم ایسے کئی اساتذہ کو بھی جانتے ہیں جو مخصوص سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور جلوؤں میں بھرپور شرکت کرتے، ایسے وائس چانسلرز سے بھی آشنا ہیں جو اِن ڈائریکٹ انتخابی کمپین کا بھی حصہ رہے تاہم ہمارا یہ خیال ہے کہ ان رہبروں کو ہماری مدد ریسرچ کی بنیاد پر اور اعدادوشمار کی شکل سے کرنی چاہئے... کہ آصف علی زرداری میں یہ جمہوری خوبی یا وہ انتظامی خامی ہے، میاں محمد نواز شریف یہاں سے کمزور اور وہاں سے مضبوط ہیں، پاک سیاست میں یہ پوسٹ ٹرُتھ اور وہ گیس لائٹنگ ہے، عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن میں یہ قدر مشترک ہے اور وہ اختلاف ہے، فلاں سیاستدان الزام تراشیوں پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور اس کی کارکردگی کا ڈیٹا یہ ہے۔
امریکی سوشیالوجسسٹ رائٹ ملز کا کہنا ہے کسی فرد کی زندگی یا کسی معاشرے کی تاریخ کو الگ الگ نہیں ان دونوں کو جوڑ کر پرکھنے ہی سے سمجھا جاسکتا ہے.... پھر یاد رکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ طاقت آدمی میں نہیں اور سلیبرٹی ڈی این اے ہی میں نہیں ہوتی ادارے ہی اسے متشکل یا ٹرانسفارم کرتے ہیں، ایسا نہیں ہوگا تو ’’ہوم ڈلیوری‘‘قیادت ہی میسر آئے گی پھر جسے آپ موروثیت کا نام دیتے پھرئیے گا ،اسٹیٹس کو کا۔ راقم تو یہی عرض کرتا ہے کہ اس وقت تک دلی دور است جب تک’’خود کو جاننے اور خود کو بہتر کرنے‘‘ کا رویہ اور سوال اٹھانے کا جذبہ بطورِ خاص جامعات نئی پود کے اندر نہیں رکھتی ہیں ! چلئے، ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن / خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘ اور پوچھنا یہ بھی تھا کہ آہ کو کتنی عمر چاہئے اثر ہونے تک؟
گلوبلائزیشن، سوشلائزیشن اور ہائر ایجوکیشن کے ٹرائی اینگل کے بیچ بیچ مثبت ترقی اور تبدیلی کی راہیں تلاش کرنے کیلئے جامعہ سرگودھا میں جس بیٹھک کا اہتمام کیا گیا، وہاں بیٹھے یہ احساس ہوا اور محققین سے عرض بھی کیا، جب تک جمہوری رویوں کو بیداری نہیں ملے گی تب تک ترقی ممکن نہیں ، محققین اس پر ہی غور کرلیں ہر یونیورسٹی اپنے اندر ایک پورا جمہوری کلچر سمیٹے ہوئےہے ، یہ وہ سب اسٹیٹ ہے جس کے سنڈیکیٹ و سینٹ سے سلیکشن بورڈ اور اکیڈمک کونسل تک جمہوری فیصلوں کی بنیاد اور جمہوری پرچار پر کھڑے ہیں۔ اگر ان سب کمپیٹنٹ اور جنرل اتھارٹیز میں توازن نہ ہو اور آمریت کے آسیب کے سائے آجائیں تو یہ کیسے کوئی پیٹنٹ یا مفید تحقیق کے علاوہ پالیسی سازی کا کام انجام دے سکتی ہیں، نئی نسل کی قیادت میں بالخصوص بلاول بھٹو زرداری کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ حالیہ سیاسی قیادت میں اعلیٰ بین الاقوامی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ ان کے پاس نوجوان وزیر خارجہ کا تجربہ بھی رہے سندھ سے دیگر صوبوں تک کی جامعات کیلئے انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے اور وائس چانسلرز و پروفیسرز سے میل جول بھی بڑھانا چاہئے ، آصف علی زرداری کو گر دوسری دفعہ ایوان صدر کے مقیم کا اعزاز ملا ہے تو وہ وفاقی جامعات کے چانسلر بھی ہیں، ایک پیراڈائم شفٹ اور ففتھ انڈسٹریل ریوولیوشن کیلئے انہیں بھی سوچنا ہو گا بلکہ بطور قیادت اور سوشل انجینئر پورے ملک کی جامعات اور تحقیقاتی اداروں کا سوچنا ہوگا۔ بہرحال گُڈ لک جامعہ سرگودھا!
اور، شیروانیاں سلواتے اگلے گورنرز بھی گر بطور چانسلر جامعات کا دکھ سکھ سمجھ جائیں تو گلوبلائزیشن ، سوشلائزیشن، انڈسٹریلائزیشن، اور ڈیجیٹلائزیشن کے ثمرات سمیٹنے کا بندوبست بلا تاخیر ممکن ہے....متذکرہ کتب کا پسِ پس نوشت بھی یہی ہے!