بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اختلافی نقطۂ نظر سُننے اور برداشت کرنے کا رُجحان بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں متشدّد رویّے فروغ پا رہے ہیں۔ نیز، ہمارے سماج میں اختلافِ رائے کے آداب بھی وقت گزرنے کے ساتھ مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ اختلاف سیاسی ہو یا مذہبی، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے مختلف اور جُداگانہ مؤقف رکھنے والا فرد معاشرے میں خرابی اور گُم راہی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور چُوں کہ ہم کسی معاملے پر اختلافی نقطۂ نظر تحمّل سے سُننے اور اس کا مدلّل جواب دینے کی بجائے مختلف رائے رکھنے والے فرد کی ذات پر تنقید شروع کر دیتے ہیں، تو اس کے نتیجے میںہمارے معاشرے میں کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اُچھالنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔
ہماری تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے ہم خیال مکتبۂ فکر ہی کو حق بجانب قرار دیتے ہیں اور مختلف الخیال افراد کو گُم راہ قرار دیتے ہوئے اُن پر تنقید اپنا حق سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم میں سے اکثر افراد جس مذہبی یا سیاسی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ہمیں وَرثے میں ملا ہے اور مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے فرد کا قصور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ہم سے مختلف نظریات کے حامل گھرانے میں پیدا ہوا اور اُس نے اپنے مذہبی و سیاسی افکار پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے ہماری طرح ’’حق‘‘ کی تلاش نہیں کی۔
ہمارا عمومی رویّہ یہ ہے کہ اگر مخالف نظریات کا حامل کوئی فرد ہماری رائے سمجھنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے، تو ہم اسے سَر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں، لیکن اگر ہمارا کوئی ہم خیال فرد کسی دوسرے نظریے میں دل چسپی لیناشروع کردے، تو ہم اُسے گم راہ قرار دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مختلف الخیال افراد کی کُتب کا مطالعہ یا متضاد آراء رکھنے والے علماء اور اسکالرز کا لیکچر یا تقریر سُننا بھی ہمارے نزدیک ایک قسم کی گُم راہی ٹھہرتا ہے۔
خلافِ مزاج بات کا ناگوار گزرنا قابلِ فہم ہے، لیکن دوسری جانب غُصّے کی حالت ہی میں کسی انسان کی اصل شخصیت سامنے آتی ہے۔ ایک اعلیٰ ظرف انسان ناموافق صورتِ حال میں اپنے غصّے پر قابو رکھتا ہے اور باعثِ آزار بننے والے فرد سے بھی خوش روئی سے پیش آتا ہے۔ تاہم، جب معاشرے میں عدم برداشت پیدا جائے، تو پھر مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے افراد سے انصاف مشکل ہو جاتا ہے اور ایسے ماحول میں اگر کوئی فرد اپنے کسی عمل سے ہمارے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے، تو پھر ہماری قوّتِ برداشت بالکل ہی جواب دے جاتی ہے۔
آج پاکستان جیسے کثیر الجہت اور متنوّع مُلک میں پُر امن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے برداشت اور رواداری کی اشد ضرورت ہے۔ پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں نہ صرف ناپسندیدہ رویّوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنے ردِ عمل پر قابو پانا سیکھنا ہو گا بلکہ پاکستانی سماج میں پائی جانے والی رنگا رنگی کو خوش دِلی سے قبول کرتے ہوئے مختلف الخیال افراد سے احترام اور ہم دردی کے ساتھ پیش آنا ہو گا۔
ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی فلاح اسی میں ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی شخصیت کا محاسبہ کریں، اپنے تعصّبات کا بغور تجزیہ کریں اور اپنے ارد گرد موجود مخالف نظریات اور رویّوں کے حامل افراد کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کریں بلکہ اُن کے ساتھ عزّت و احترام سے پیش آئیں۔ یاد رہے کہ مہذّب معاشروں کی تعمیر میں اخلاقی اقدار بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور یہ اخلاقی اقدار ہی انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
نیز، عُمدہ اوصاف ہی پر اقوام کی بقا اور استحکام کا انحصار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں یہ اوصاف ناپید ہو جائیں، تو وہ کبھی بھی ایک مہذّب معاشرہ نہیں بن سکتا۔ کسی بھی انسانی معاشرے کی عمارت برداشت، رواداری اور باہمی احترام و محبّت جیسے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ اخلاقی اقدار کسی سماج سے رخصت ہو جاتی ہیں، تو پھر وہ معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔
بد قسمتی سے اس وقت ہمارے معاشرے کو بھی تقریباً یہی صورتِ حال درپیش ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں میں عدم برداشت کا رُجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔ معمولی معمولی باتوں پر تشدّد پر اُتر آنا اور کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کرنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ آئے روز ہمیں ایسی خبریں پڑھنے اور سُننے کو ملتی ہیں کہ کسی معمولی سے تنازعے پر ہونے والی تلخ کلامی خُوں ریز تصادم میں بدل گئی اور اس کے نتیجے میں کئی انسانی جانیں ضایع ہو گئیں۔
اس قسم کے واقعات ہمارے سماجی رویّوں میں عدم برداشت اور تشدد پسندی کی عکّاسی کے لیے کافی ہیں۔ دراصل آج نوجوان نسل کی بیش تر سرگرمیاں سوشل میڈیا ہی تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ آس پڑوس اور محلّے میں کون رہتا ہے اور کس حال میں ہے، اکثر نوجوانوں کو اس بارے میں علم ہوتا ہے اور نہ وہ جاننا چاہتے ہیں، جب کہ ماضی میں محض خاندان کے بڑے ہی نہیں بلکہ محلّے کے بزرگ بھی نوجوانوں پر گہری نظر رکھتے تھے اور اُنہیں ان کی غلطیوں، کوتاہیوں پر سمجھاتے بجھاتے تھے، لیکن اب حال یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد بھی بہ مشکل ایک ساتھ بیٹھ پاتے ہیں۔
سب کے سونے، جاگنے، کھانے اورگھر واپس آنے کے اوقات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پھر آج کا نوجوان بزرگوں کی سرزنش کو خاطر میں بھی نہیں لاتا، کیوں کہ معاشی و سماجی ناہم واریوں نے اس کے ذہن پر منفی اثرات مرتّب کیے ہیں اور نوجوانوں نے مُلک میں رائج معاشرتی نظام سے باغیانہ رویّہ اختیار کرتے ہوئے تمام تر اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ برداشت ایک فصیح و بلیغ لفظ ہے، جو رواداری سے لے کر درگزر تک کے سفر میں پیش آنے والے تمام مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں رنگ، نسل، زبان، مذہب، مسلک اور صنف سمیت معاشی، تعلیمی، سیاسی و سماجی اعتبار سے خاصا تنوّع پایا جاتا ہے اور ہمارا ماضی اس حوالے سے شان دار روایات کا حامل ہے کہ ہمارے بزرگ اختلافِ رائے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے احترام کے ساتھ پیش آتے تھے، نیز ایک دوسرے کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے تھے۔
آج ہم ایک ایسی متمدّن دُنیا میں جی رہے ہیں کہ جہاں ہر فرد کی عزّتِ نفس، احترام اور آزادی کی اہمیت ہے۔ لہٰذا، اگر ہم اپنے معاشرے میں امن و سکون کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور دُنیا میں اپنا نام و مقام بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے رویّوں پر نظرِ ثانی کرناہوگی۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کا ماحول خوش گوار بنانے کے لیے باہمی گفتگو کے ذریعے خانگی مسائل حل کرنے کے رُجحان کو فروغ دینا ہو گا اور گھر کے ہر فرد کو اہمیت دینے اور منفی رویّے ختم کرنے کے لیے نئے اصول وضع کرنا ہوں گے۔ کیوں کہ عام مشاہدہ ہے کہ جب ماحول خوش گوار ہوتا ہے، تو ہمارا اندازِ گفتگو بھی معقول ہوتا ہے، لیکن جب صورتِ حال کشیدہ ہو، تو لہجوں میں تلخی در آتی ہے۔ مختصراً ًیہ کہ اگر ہمیں اپنے معاشرے سے انتہا پسندی اور شدّت پسندی کا قلع قمع کرنا ہے، تو اس کارِ خیر کا آغاز اپنے گھروں سے کرنا ہو گا، کیوں کہ گھروں ہی سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔
فقہی اختلاف کو کُفر و الحاد سے جوڑنا جہالت ہے۔ اسلام دینِ امن و رحمت ہے، جو آسانیاں فراہم کرتا اور اُمّت کے اتحاد و یک جہتی کی تعلیم دیتا ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، جسے حقوقِ انسانی کے عالمی چارٹر میں تحفّظ فراہم کیا گیا ہے، جب کہ دُنیا کے متعدّد ممالک کے دساتیر میں عزّت و حُرمت کو تحفّظ دینے والے قوانین کی موجودگی اس اَمر کا بیّن ثبوت ہے کہ انسانی وقار کی حفاظت بھی بالکل اُسی طرح بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، جس طرح آزادیٔ اظہارِ رائے ۔یوں بھی ہمارے ہاں روایتی مناظراتی سوچ رکھنے والے مبلّغین کا طرزِ تبلیغ و خطابت سامعین میں افہام و تفہیم اور رواداری پیدا کرنے کی بجائے نفرت و تعصّب پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
ایسے حالات میں مکالمے کا عمل ہمیں اُس شاہ راہ تک لے جا سکتا ہے کہ جہاں سے محبّت، برداشت، تحمّل، بُردباری اور امن و سلامتی کے دائمی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا اوصاف کی عدم موجودگی میں افراد و اقوام کے درمیان خوش گوار تعلقات ممکن نہیں۔ ایک مثالی معاشرے میں مکالمے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، کیوں کہ اسی کے ذریعے ہی کسی سماج میں بین المسالک و بین المذاہب غلط فہمیوں کا تدارک اور احترامِ انسانیت کا جذبہ پیدا کرنا ممکن ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی تعلیمات بھی رواداری، تحمّل و بُردباری اور امن بقائے باہمی کی تلقین کرتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ اور منفی رویّوں کی بیخ کُنی کے لیے مکالمہ ناگزیر ہو چُکا ہے۔ در حقیقت، انسانوں کی شکل و صُورت اور مزاجوں میں پایا جانے والا تغیّر اس دُنیا کو حسین بناتا ہے، لیکن ہم نے اس فرق و امتیاز کو تنازعات کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمّد علی جناح کا تصوّرِ ریاست اور وطنِ عزیز کا آئین مُلک میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت دیتا ہے اور ہمیں ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی پر بھی اپنی مرضی مسلّط کریں۔
حالیہ برسوں میں مذہبی و مسلکی اختلافات کے ساتھ سیاسی اختلافات میں بھی خاصی شدّت دیکھنے میں آئی ہے اور متضاد مذہبی و سیاسی نظریات رکھنے والے افراد کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے، جب کہ ماضی میں ہمارے سیاست دان واضح نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مکالمہ کیا کرتے تھے۔ نیز، جامعات میں طلبہ یونینز بھی فعال تھیں، جن کی وجہ سے نئی سیاسی قیادت سامنے آتی تھی، جو صبرو برداشت، تحمّل مزاجی اور رواداری جیسی روایات کی امین ہوا کرتی تھی۔
ایسے بُردبار، بالغ النّظر اور وسیع المشرب افراد جب مُلکی سیاست میں آتے، تو وہ مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے افراد کے ساتھ بھی احترام سے پیش آتے اور یوں مُلک کے مختلف طبقات میں مکالمے کو فروغ ملتا، لیکن طلبہ یونینز پر پابندی عائد کر کے سیاست کی نرسری بند کر دی گئی اور نتیجتاً ایسے افراد سامنے آئے کہ جن کا سیاست میں آنے کا مقصد صرف اپنی سیاسی فکر کو دُرست ثابت کرنا اور مخالفین کی سوچ کو باطل قرار دینا ہے۔ اس ضمن میں حالیہ انتخابات کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے حمایتیوں کی جانب سے مخالفین پر کیے جانے والے رکیک حملے سامنے ہیں۔ ان دنوں ہر سیاسی جماعت نے اپنا باقاعدہ سوشل میڈیا وِنگ بنا رکھا ہے، جس کا کام صرف پراپیگنڈا کرنا اور مخالفین کی پگڑیاں اُچھالنا ہے۔ پھر سیاسی جلسوں اور اجتماعات میں بھی مخالفین سے متعلق نہایت گھٹیا زبان استعمال کی جاتی ہے اور پراپیگنڈے کی اس فضا میں ایک عام آدمی کے لیے سچ تلاش کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اختلاف سیاسی ہو یا مذہبی، ضروری ہے کہ مخالف پر تنقید سے قبل اس کا نقطۂ نظر پوری دیانت داری سے سمجھا جائے اور پھر جارحانہ رویّہ اپنانے کی بجائے استدلال سے جواب دیا جائے۔ نیز، اختلافِ رائے کرتے وقت شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور کسی سے اختلاف کرنے سے پہلے اپنے اندر اختلافِ رائے برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ اسی طرح ہمیشہ اپنی سوچ اور مؤقف کے غلط ہونے کی بھی گنجایش رکھنی چاہیے، تاکہ بوقتِ ضرورت اپنی اصلاح بھی کی جا سکے۔
دوسری جانب ریاست کی ذمّے داری ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ادارے قائم کیے جائیں۔ مذہبی تعلیمات سے متعلق سنجیدہ پروگرامز کا انعقاد کیا جائے، جن میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی اخلاقی تطہیر کو موضوع بنایا جائے۔ علاوہ ازیں، تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی لازمی قرار دی جائے اور پورے مُلک میں ایسا یک ساں نصابِ تعلیم رائج کیا جائے کہ جو طلبہ میں رواداری اور برداشت کا مادّہ پیدا کرے۔ یاد رہے کہ مذہبی منافرت کا خاتمہ اُسی وقت ہی ممکن ہے کہ جب ریاست اور معاشرہ دونوں اس ضمن میں اپنی ذمّے داریاں ادا کریں۔