سوشل میڈیا تعلیم و تربیت، نت نئی معلومات اور روزگار کے مواقع فراہم کر رہا ہے یا سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی انتشار کا باعث ہے؟ یہ سوال تقریباً ہر مُلک میں زیرِ بحث ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اِسے جس طرح بے مہار چھوڑا گیا، اُس نے اب اِسے ایک بے قابو جن کے مثل کردیا ہے، جسے بوتل میں واپس بند کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق، دنیا میں5 ارب سے زاید افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر آسان، سستے استعمال اور مواد میں تنوّع نے عوام کو اس کی جانب متوجّہ کیا ہے۔ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے کچھ زیادہ ہے اور اس میں سے ساٹھ فی صد آبادی کی سوشل میڈیا تک رسائی ٹیکنالوجی کا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں اربوں ذہنوں کو متاثر کیا، وہیں مین اسٹریم میڈیا کے لیے چیلنج ہی نہیں، بلکہ تقریباً تباہی کا باعث بھی بنا۔
یہاں تک کہ دنیا بھر کے حُکم ران، جن میں امریکا کے صدر بھی شامل ہیں، اب کسی معاملے پر اپنے مؤقف سے آگاہی کے لیے سوشل میڈیا ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور اُن کی ٹوئٹس بریکنگ نیوز بن جاتی ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا نے جس تیزی اور وسعت سے عوام کا گھیرائو کیا ہے، اُس نے ریاستوں اور معاشروں کو بہت سے مسائل سے دوچار بھی کردیا۔ یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا آگے نکل گیا، جب کہ حکومتیں اور اہلِ دانش پیچھے رہ گئے۔ اب قوانین بنائے جا رہے ہیں تاکہ اس کے مضر اثرات سے نمٹ سکیں۔
امریکا نے صدر ٹرمپ کے پہلے انتخاب میں روسی سوشل میڈیا کے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا باقاعدہ الزام عاید کیا اور اس کی سرکاری سطح پر تحقیقات بھی ہوئیں۔اکثر یورپی ممالک کو روس اور چین سے اِسی نوعیت کی شکایات ہیں۔پاکستان میں بھی جب سے اِس کے استعمال کو فروغ ملا، کلٹ کی سیاست، غیر اخلاقی زبان، معاشرتی بے راہ روی اور دروغ گوئی عام ہوگئی۔ اب کسی الیکشن کو درست نہیں مانا جاتا اور اِس ضمن میں سوشل میڈیا کی شکوک پھیلانے کی صلاحیت سے کام لیا گیا تاکہ انتخابی ادارے سے لوگوں کا اعتبار ہی اُٹھ جائے۔
روایتی میڈیا، تمام تر کوتاہیوں کے باوجود، کسی حد تک اصول و ضوابط کی پابندی کرتا ہے، لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تو خود کو ہر اصول، قانون اور ضابطے سے بالاتر تصوّر کرتے ہیں۔ آزادیٔ رائے کے نام پر جس شخص کا جو جی چاہتا ہے، اَپ لوڈ کر رہا ہے۔ کسی کو پروا نہیں کہ فیک نیوز کسی آگ کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ کسی کو تصدیق کی فرصت نہیں، بس ایک کِلک کیا اور فاروڈ کر دیا۔
مَن چاہا مواد اَپ لوڈ کرنے کو آزادی کہا گیا، خواہ مُلک اور معاشرے پر اُس کے کیسے ہی سنگین اثرات کیوں نہ مرتّب ہوتے ہوں۔ پھر کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بے سوچے سمجھے کمرشل بھی بنا دیئے گئے، یوں یہ پلیٹ فارمز لاکھوں ڈالرز کما رہے ہیں، جب کہ لوگ تفریح اور خبروں کے نام پر برباد ہو رہے ہیں۔جن پلیٹ فارمز کو دنیا میں شعور پیدا کرنے کا ذریعہ بننا تھا، وہ منفی رجحانات کے داعی بن کر اُبھرے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی درست تعداد تو بتانا مشکل ہے، لیکن ان میں واٹس ایپ، یوٹیوب، فیس بُک، ٹک ٹاک، ایکس(سابقہ ٹوئٹر)، انسٹا گرام، ٹیلی گرام، لنکڈ ان، اسنیپ چیٹ، چین کا’’وی چیٹ‘‘، روس کا’’ وی کے‘‘ اور جاپان کا’’ لائن‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ اِس فہرست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایپس بین الاقوامی بھی ہیں اور کچھ ممالک کی اپنی ایپس بھی ہیں، جو زیادہ حفاظت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔
چین اور روس کا نظام مغربی دنیا سے مختلف ہے، نیز، اُنہیں یہ شکایت رہی کہ امریکا سے آنے والی ایپس میں اُن کے خلاف پراپیگنڈے کا عُنصر بہت زیادہ ہوتا ہے، جس سے اُن کے نظام کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ پھر یہ کہ اُن کی آبادیاں بھی بہت ہیں، چین کی آبادی 140کروڑ اور روس کی آبادی انیس کروڑ ہے، جب کہ رقبے کے لحاظ سے بھی یہ بڑے مُلک ہیں(نو ٹائم زونز ہیں)، اِس لیے بھی وہ اپنی ایپس کام یابی سے چلانے کے قابل ہوسکے، لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ یہ مقبول بین الاقوامی ایپس کا مقابلہ کر پائیں گی یا نہیں۔واضح رہے، اِن ممالک میں آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق ان معنوں میں نہیں لیے جاتے، جن کا مغربی ممالک میں تصّور ہے۔ان کے ہاں ایک پارٹی نظام ہے اور پورا نظام اسی کے تحت چلتا ہے۔
پاکستان یا دوسرے ممالک میں جو لوگ اپنی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں، وہ عموماً اِس مقصد کے لیے امریکا، یورپ یا برطانیہ میں پناہ لیتے ہیں، جب کہ چین اور روس میں ایسے وی لاگرز کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ پاکستان میں حال ہی میں جن یوٹیوبرز پر پابندیاں عاید کی گئیں، اُن میں سے زیادہ تر مغربی ممالک ہی میں پناہ گزیں ہیں۔
یوٹیوب کی بات چلی ہے، تو اِس کا بھی ذکر ہوجائے کہ یہ پلیٹ فارم سیاسی تبصروں اور وی لاگز کے لیے پاکستان میں خاصا مقبول ہے۔ دنیا میں تقریباً پونے تین ارب افراد یوٹیوب استعمال کرتے ہیں، جب کہ پانچ کروڑ افراد ایسے ہیں، جو اِس ایپ پر ویڈیوز بھی اَپ لوڈ کرتے ہیں اور اُن میں محض ایک ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
ان ویڈیوز بنانے والوں میں سے عام تاثر کے برعکس بہت کم لوگ اچھی کمائی کر پاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق، اِس وقت پاکستان میں 4500یوٹیوبرز ہیں، جن کے فالوورز ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔ ان میں350 ایسے ہیں، جن کی ویورشپ ایک ملین کے قریب ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یوٹیوب کو ہمارے ہاں ڈالر کمانے کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہی حال بھارت کا ہے، جہاں گزشتہ سالوں میں 2200 سے زاید یوٹیوبرز پر مُلکی قوانین کے تحت پابندی عاید کی گئی۔
اُن پر الزام تھا کہ وہ ریاست مخالف اور قومی سلامتی کے خلاف مواد اَپ لوڈ کرتے ہیں۔یاد رہے کہ بھارت کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جو آئی ٹی کے شعبے میں سرِفہرست ہیں۔ زیادہ تر امریکی ملٹی نیشنل کمپنیز یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے سربراہ بھارتی نژاد ہیں۔ بھارتی شہر، بنگلور اُس وقت آئی ٹی میں عالمی شہرت کا حامل ہوا، جب ہمارے ہاں ابھی آئی ٹی ابتدائی مراحل ہی میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں، ہمیں اُس وقت ہوش آتا ہے، جب ساری دنیا اُس شعبے میں جھنڈے گاڑ چُکی ہوتی ہے۔ بہرکیف، اگر کانٹینٹ فالوونگ یا نقل کا جائزہ لیا جائے، تو ہمارے خطّے کے بیش تر یوٹیوبرز بھارتی مواد ہی کی نقل کرتے ہیں۔
اگر وہ چیخ کر بولتے ہیں، ذومعنی جملے استعمال کرتے یا سیدھی سیدھی گالیاں دیتے ہیں یا فحاشی کا سہارا لیتے ہیں، تو اس کا عکس اردگر کے ممالک کے کانٹینٹ رائٹرز میں بھی نظر آتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی ڈالر کمانے کا’’بہترین‘‘ طریقہ ہے۔ اِسی لیے ہمارے ہاں تخلیقی کام بہت کم ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے، اِس طرح کی سرگرمیوں کے اثرات مُلکی معاشرے پر بھی مرتّب ہوتے ہیں۔
یہ دعویٰ کرنا تو آسان ہے کہ خطّے کے ممالک مختلف نظریات کے حامل ہیں، لیکن بہرحال اپنے نظریات پر کاربند رہ کر تخلیقی مواد تیار کرنا ذہنی صلاحیتیں مانگتا ہے۔ شاید بہت کم افراد کو علم ہو کہ یوٹیوب آکشن کے ذریعے پیسے تقسیم کرتا ہے، اِس لیے ہر مُلک میں اُس سے کمانے والوں کی آمدنی میں بہت فرق ہے۔ مثال کے طور پر اگر امریکا اور برطانیہ میں ایک پاؤنڈ یا ڈالر ملتا ہے، تو پاکستان میں دس روپے ملتے ہیں اور وہ بھی بمشکل۔
اِن دنوں دنیا بَھر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تنقید کی زَد میں ہیں اور اِس کی کوئی ایک وجہ نہیں ۔مثال کے طور پر یورپ نے حال ہی میں بچّوں کو غیر مناسب مواد کی فراہمی پر سوشل میڈیا پر بڑے جرمانے عاید کیے اور ایسے قوانین بنائے، جن سے اُن کے ذہنوں کو پراگندہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم اِس گائیڈ لائن کو کسی بھی جواز کے تحت فالو نہیں کرتا، اُسے بند کردیا جائے یا پھر اِتنا جرمانہ لگا دیا جائے، جو اُس کے برسوں کے منافعے کے برابر ہو اور یوں اُس کے لیے کام جاری رکھنا ناممکن ہوجائے۔ یاد رہے کہ مائیکرو سافٹ کے مالک، بل گیٹس کو قوانین کی خلاف ورزی پر یورپی یونین نے کٹہرے میں کھڑا کر کے ایسی خبر لی کہ وہ آج تک وہاں بالکل ٹھیک چلتے ہیں۔
درحقیقت، کم زور معیشت کی حامل حکومتیں مختلف طریقوں سے اِن ایپس کے سامنے جُھکتی ہیں، وگرنہ طاقت وَر ممالک کے آگے تو یہ گڑگڑاتی ہیں، جیسے ٹِک ٹاک کے مالک آج کل صدر ٹرمپ کو خوش کرنے میں لگے ہیں۔ صدر بائیڈن نے ایک قانون کے ذریعے امریکا میں ٹِک ٹاک بند کرنے کا حکم دیا اور اُسے کسی امریکی شہری کو فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امریکا نے اِس ایپ کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور معاشی مفادات کے خلاف سرگرمیوں کا مرتکب قرار دیا تھا۔
پھر سپریم کورٹ نے پابندی کی ڈیڈ لائن میں توسیع کردی اور صدر ٹرمپ نے حکومت سنبھالنے پر ٹِک ٹاک کو مزید مہلت دی ہے، لیکن اُس کے’’جرم‘‘ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ابھی ایک چینی شہری اس کا مالک ہے، جس پر الزام ہے کہ وہ امریکی راز چین تک پہنچاتا ہے، اِس لیے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اسے کوئی امریکی شہری چلائے۔یورپ اور امریکا، دونوں ہی آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کے چمپیئن مانے جاتے ہیں، لیکن اب یہ بھی نیشنل ازم کی طرف جا رہے ہیں۔
اب اِن ممالک میں سوشل میڈیا کی آزادی کے معاملات کو نہ صرف محدود کیا جارہا ہے، بلکہ قومی مفاد میں کمپنی کی ملکیت تک بدلنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔دوسرے الفاظ میں، اب آزادیٔ رائے اِس حد تک محدود کردی گئی ہے کہ جہاں قومی مفاد کا ٹکرائو نہ ہو۔ ہمارے پڑوسی مُلک ایران اور افغانستان میں اِن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال پر پابندی ہے۔
حکومت یا اداروں کے خلاف ذرا سی خبر دی اور قید و بند کی نوبت آگئی۔اِسی طرح اکثر دیگر مسلم ممالک کا معاملہ ہے۔ افرو-ایشیائی ممالک میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال پر سخت قدغن ہے۔ سنگاپور میں تو مین اسٹریم میڈیا بھی محدود ہے۔ اب امریکی ویزے کی درخواست کے لیے اپنا سوشل میڈیا ریکارڈ فراہم کرنا پڑتا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جنہوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس بنائیں، وہ خود اِنہیں قانونی ضابطوں میں لارہے ہیں، جب کہ عدالتیں بھی اِس ضمن میں حکومتوں کے حق میں فیصلے دے رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کا سیاسی عدم استحکام میں کیا کردار ہے، اِس کی ایک مثال’’عرب اسپرنگ‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے لاکھوں افراد جمع کیے گئے اور اقتدار کے بڑے بڑے بُت پاش پاش کردیئے گئے، جو سالوں سے لوگوں پر مسلّط تھے۔ اُس وقت دنیا بَھر میں اسے’’انقلابِ فرانس‘‘ سے بہتر کہا گیا، مگر دو سال ہی میں سب کچھ اُڑن چُھو ہوگیا اور آج کسی کو اس مہم کے بانیوں کے نام تک یاد نہیں۔ اِسی مہم کے دوران شام میں ساڑھے پانچ لاکھ شہریوں کا قتلِ عام ہوا اور ایک کروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔
دنیا سوتی رہی اور کسی کو انسانی حقوق یاد آئے، نہ مسلم ممالک کو اُمّہ کی یک جہتی کی فکر ہوئی۔مصر میں ایک سالہ جمہوریت کا انجام، فوجی حُکم رانی میں دیکھا جاسکتا ہے۔اُس زمانے میں ہمارے مُلک کے تجزیہ کار ٹی وی ٹاک شوز اور وی لاگز میں پاکستان میں بھی عرب بہار طرز کی تحریک کی پیش گوئیاں کیا کرتے تھے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بہرکیف، آج کل اپنی پسند، مفادات، مجبوریوں، کم زوریوں اور جذبات کو آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کا نام دے دیا گیا ہے۔ اور یہی سوشل میڈیا کا اصولِ اوّلین ہے، جب کہ اِسی گورکھ دھندے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز لاکھوں ڈالرز کما رہے ہیں۔
یوٹیوب اور اِسی نوعیت کے دوسرے پلیٹ فارمز کی سب سے بڑی خرابی اُن کے الگورتھم کا منفی سوچ کو فوقیت دینا ہے، اِسی لیے منفی خبریں اور نفرت انگیز یا جذباتی مواد جَلد پھیلتا ہے۔ اُسے لائیکس ملتے ہیں اور یہی مواد زیادہ کمائی لاتا ہے۔ اِن پلیٹ فارمز کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ اِن پر زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، جس سے اُن کے کمرشل انٹرسٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈالرز کا یہ کھیل معاشرے میں کس طرح جھوٹ اور منفی رجحانات کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔
اِس طرح کی سرگرمیوں کا تدارک صرف حکومت ہی کی ذمّے داری نہیں، بلکہ ہر فرد، خاص طور پر اُن تنظیموں کو بھی آگے آنا ہوگا،جو معاشرتی سدھار کی عَلم بردار ہیں۔ ہمارے ہاں اب تقریباً ہر اینکر کا یوٹیوب چینل بھی ہے، تو اُن کا فرض ہے کہ وہ بھی عوام کو اِس ضمن میں آگاہی فراہم کریں، وگرنہ پروفیشنل صحافیوں اور عام یوٹیوبرز میں کیا فرق رہ جائے گا۔
یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ پاکستان اور امریکا کی معاشرتی ضروریات مختلف ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے چین اور نائیجیریا کے معاشروں میں فرق ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں ابھی سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق عوامی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت کام کی ضرورت ہے۔ پھر عوام کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر ہزاروں روپے کے اسمارٹ فونز خرید سکتے ہیں، تو انہیں اِتنی عقل بھی ہونی چاہیے کہ بنا تصدیق کسی چیز کو آگے بڑھانا کس قدر خطرناک بات ہے۔