• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سُرخ وتوانا، خُوب صُورت ناقہ اپنے مالک کو لیے مکّہ کی اُداس فضاؤں سے اٹکھیلیاں کرتی، برق رفتاری کے ساتھ کعبۃ اللہ میں داخل ہوتی ہے۔ کوہان کے پیچھے سامانِ حرب سے لیس ایک طویل القامت مردانہ وجاہت کے حامل، بارُعب جوان، ہاتھ میں شمشیرِ برہنہ لیے پُشت پر تیرکمان اور پہلو میں تیز دھار نیزہ سجائے، اونٹنی کا رُخ حجرِ اسود کی جانب کرتے ہیں۔ 

طوافِ کعبہ اور مقامِ ابراہیم ؑ پر نفل ادا کرنے کے بعد ایک طائرانہ نظر صحنِ کعبہ پر ڈالتے ہیں، پھر اچانک پُرنور چہرے پرجلال کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ صحن ِکعبہ میں قریش کے سرداروں کو بیٹھا دیکھ لیتے ہیں اور پھر سرپٹ دوڑتی اونٹنی لمحوں میں قریش کے اُن فرعونوں کے سروں پر پہنچ جاتی ہے۔ سردارانِ مکّہ ابھی کچھ سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ فضا میں ایک گونج دار للکار، ارتعاش پیدا کردیتی ہے۔ ’’اے دشمنانِ اسلام! گواہ رہو کہ آج عمر بن خطابؓ تمہارے اس شہر کو چھوڑ کرجارہا ہے، تمہارے چہرے سیاہ ہوجائیں، تمہاری ناک خاک آلود ہوجائے۔ 

تم کم زور مسلمانوں کو جبراً ہجرت سے روکتے ہو، آج تم سے کوئی اگر یہ چاہتا ہے کہ اپنے پیچھے ماں کو روتا چھوڑے، بیوی کو بیوہ اور بچّوں کو یتیم کہلوائے، تو میرا راستہ روک کر دکھائے۔‘‘ سیّدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس وقت صحنِ کعبہ میں تمام قبائل کے سردار موجود تھے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رُعب وہیبت کا یہ عالم تھا کہ پورے مجمعے کو سانپ سُونگھ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو روکنا تو دُور کی بات، کسی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آنکھ ملاکر دیکھنے کی ہمّت تک نہ تھی۔ حضرت عمرؓ نے ایک قاہرانہ نظر ان اسلام دشمنوں پرڈالی اور کعبے سے باہر تشریف لے گئے۔

کٹھن راہوں کے مسافر سُوئے منزل چلے:یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلمان، کفّار کے خوف سے رات کی تاریکی میں چُھپ چُھپا کر مکّے سے نکلتے اور مدینے کا رُخ کرتے، لیکن جزائرِ عرب کے مشہور و معروف شجاعت کے پیکر، سیّدنا عمربن خطابؓ کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ یوں خاموشی سے ہجرت کرجائیں۔ پھر حضرت عمرؓ اکیلے تو نہ تھے، اُن کے ساتھ دیگر بیس افراد بھی تھے، جن میں عمرو بن ہشام، المعروف ابوجہل کے ماں جائے حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ اور حضرت ہشام بن عاصؓ بھی شامل تھے۔ 

پروگرام کے مطابق یہ طے کیاگیا کہ صبح وقتِ مقررہ پر مدینے سے دس میل دُور مقام سرف سے آگے بنو غفار کے تالاب کے پاس تنضب نامی خاردار درختوں کے جُھنڈ میں ملیں گے اور جو وقت پر نہ پہنچا، اُس سےمتعلق تصوّر کرلیا جائے گا کہ اُسے مشرکوں نے گرفتار کرلیا ہے۔ وقتِ مقررہ پر حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ، حضرت عمر بن خطابؓ سے آملے، لیکن حضرت ہشام ؓقید کرلیے گئے ۔ 

عیاشؓ، سیّدنا عمرؓ کے ساتھ وادئ قباء میں بنی عمروبن عوف کے یہاں ٹھہرے۔ ابھی حضرت عیاشؓ بن ربیعہ کو یہاں آئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام حضرت عیاشؓ کو تلاش کرتے ہوئے مدینہ آگئے اور وادئ قباء میں حضرت عیاشؓ تک جاپہنچے۔ دراصل یہ دونوں حضرت عیاشؓ کے چچا زاد اور ماں شریک بھائی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اُس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی تھی اور مکّے ہی میں تشریف فرما تھے۔

جھوٹ وفریب جن کا شیوہ تھا: ان دونوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حضرت عیاشؓ سے کہا کہ ’’تمہاری ماں کی حالت بڑی خراب ہے۔ اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تمھیں نہ دیکھے گی، سر میں کنگھی کرے گی، نہ سائے میں بیٹھے گی۔ پس، تم اپنی ماں کے حال پر رحم کرو اور فوراً ہمارے ساتھ مکّہ واپس چلو۔‘‘ حضرت عیاشؓ اپنی والدہ سے بے حد محبّت کرتے تھے۔ 

اُن کی حالت کا سُن کرفوراً جانے پر آمادہ ہوگئے۔ سیّدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ہرچند انھیں سمجھایا کہ ان کے دھوکے میں نہ آنا، ورنہ تم پریشان ہوجاؤ گے، مگر وہ اُن کے دھوکے میں آگئے اور کہنے لگے۔ ’’اوّل تو مجھے اپنی ماں کی قسم پوری کرنی ہے، دوم یہ کہ مکّے میں بڑی تعداد میں میرا مال جمع ہے، مَیں اُسے مکّے سے مدینہ لے آؤں گا۔‘‘ 

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک بار پھر مَیں نے اُن سے کہا کہ ’’دیکھو تمہاری ماں کو جب جوئیں ستائیں گی، تو وہ ضرور کنگھی کریں گی اور جب مکّے کی دھوپ بے چین کرے گی، تو وہ خود سائے میں آجائیں گی اور تمھیں جس مال کا خیال ہے، وہ میرے اس مال کے نصف کے برابر بھی نہیں، جسے مَیں مکّے میں چھوڑ آیا ہوں، اور تم جانتے ہو کہ قریش کے امیر ترین لوگوں میں میرا شمار ہوتا ہے۔‘‘ مگر حضرت عیاشؓ توماں کی محبّت میں سرشار تھے، انہیں میری نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوا اور مَیں نے یقین کرلیا کہ یہ ان دو فریبیوں کے ساتھ جاکر رہیں گے، تو مَیں نے کہا۔

اے عیاشؓ! تم میری ناقہ پر سوار ہوکرجانا، کیوں کہ یہ اونٹنی بڑی اصیل ہے، اگر راستے میں یہ دونوں تمہارے ساتھ کچھ بُرا کریں، تو فوراً مدینے کی جانب چلے آنا۔‘‘ حضرت عیاشؓ میری اونٹنی پر سوار ہوکر ابوجہل اورحارث کے ساتھ مکّہ روانہ ہوگئے۔ جب یہ لوگ کچھ فاصلہ طے کرچکے، تو ابوجہل نے حضرت عیاشؓ سے کہا۔ ’’اے میرے بھائی! دیکھنا میرا اونٹ تھک گیا ہے، اگرتم چاہو تو اپنی اونٹنی پر مجھے بھی بٹھالو۔‘‘ حضرت عیاشؓ سیدھے سادے آدمی تھے، انہوں نے کہا۔ ’’بہت اچھا بھائی۔‘‘ 

پھر انہوں نے اپنی اونٹنی کو ٹھہرایا اور نیچے اُترگئے۔ اُن کے نیچے اُترتے ہی وہ دونوں بھی تیزی سے اُترے اور نہایت چالاکی سے حضرت عیاشؓ کو رسّیوں سے باندھ کر اونٹ پرڈال لیا اور مکّہ لے آئے۔ بازار سے گزرتے ہوئے ابوجہل سرِعام اعلان کرتا رہا۔ ’’دیکھو، ہم نے اپنے بےدین بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، تم بھی دین کے ان غدّاروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔‘‘ پھر ابوجہل اور حارث نے انہیں شدید زدوکوب کے بعدماں کے حوالے کردیا۔ ماں نے انہیں بغیر چھت کی، ایک ایسی کوٹھری میں قید کردیا، جس کی دیواریں بڑی اونچی تھیں۔وہاں اُن پر بے پناہ ظلم و ستم کیا جانے لگا۔

ماں نے اعلان کردیا کہ’’ تم پر اُس وقت تک تشدّد جاری رہے گا، جب تک تم اپنے آباء واجداد کے دین پر واپس نہیں آجاتے۔‘‘ حضرت عیاشؓ نے ماں کو جواب دیا کہ ’’ماں! تمہاری محبّت میں آکر قید تو ہوگیا، لیکن اللہ اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبّت میں جان قربان کرنا گوارا ہے، مَیں دینِ محمدیﷺ نہ چھوڑوں گا۔‘‘ غرض کہ حضرت عیاشؓ ایک طویل عرصہ اس عقوبت خانے میں قید رہے، جس کا علم صرف گنتی کے چند افراد ہی کو تھا۔

رسول اللہﷺ کی دعا: آنحضرتﷺ مدینہ ہجرت فرماچکے تھے۔ آپﷺ کو مختلف ذرائع سے حضرت عیاشؓ بن ربیعہ اور دیگر مظلومین پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی خبریں ملتی رہتی تھیں، چناں چہ آپﷺ اُن کے لیے دُعا فرماتے رہتے۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق ’’نبی کریمﷺ جب عشاء کی آخری رکعت میں( رُکوع سے اُٹھتے ہوئے) ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہتے، تو دعائے قنوت پڑھتے اور دُعا فرماتے۔ ’’اے اللہ! عیاش ؓبن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ ! سلمہ بن ہشامؓ کو نجات دے ، اے اللہ! ولید بن ولیدؓ کو نجات دے۔ اے اللہ !کم زور وناتواں مومنوں کو نجات دے ، اے اللہ! اے اللہ ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ کو سخت کردے۔ اے اللہ ! وہاں ایسا قحط پیدا کردے، جیسا حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ہوا تھا۔‘‘(صحیح بخاری6393)۔

ظلمتِ کفر میں روشن چراغ: جنگِ خندق کے موقعے پر حضرت ولید بن ولیدؓ کسی طرح کفار کی قید سے نجات پاکر مدینہ آگئے تھے ۔ انہوں نے حضرت عیاشؓ بن ربیعہ اور حضرت سلمہؓ بن ہشام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کا ذکرکیا۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ کرامؓ کی مجلس میں فرمایا۔ ’’کیا تم میں سے کوئی ایسا بہادر ہے، جو عیاشؓ بن ربیعہ اور سلمہ ؓبن ہشام کو کفار کی قید سے چُھڑوا کر ہمارے پاس لے آئے؟‘‘ کئی صحابہؓ اس کام کے لیے تیار تھے، لیکن ولید بن ولیدؓ کی درخواست پر آپﷺ نے یہ ذمّے داری انھیں سونپ دی۔ حضرت ولیدؓ تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہوکر مکّہ پہنچ گئے۔ دونوں کو انتہائی خفیہ جگہ پر قید کرکے رکھا گیا تھا۔ 

حضرت ولیدؓ مختلف محلّوں میں مشتبہ خفیہ ٹھکانوں کی نگرانی کرتے رہے، لیکن ابھی تک کوئی کام یابی نہ ملی تھی۔ آخر ایک دن اُن کی کاوشیں اور دُعائیں رنگ لائیں۔ انہوں نے ایک ایسی عورت کا سُراغ لگایا، جو نہایت محتاط طریقے سے ایک بند عمارت میں کھانا پہنچانے پر مامور تھی۔ 

حضرت ولیدؓ نے اُس عورت کا پیچھا کیا اور قید خانے تک جاپہنچے۔ اُس وقت دن کا اُجالا تھا، سو چُھپ کر رات کا انتظار کیا۔ رات کے پہلے پہر، جب اہلِ مکّہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے، سب سے پہلے ولیدؓ نے دیوار کے ساتھ اندھیرے میں اپنی اونٹنی کھڑی کی، پھر اونچی دیوار پر کمند ڈالی اور اس کی مدد سے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔ 

بغیر چھت کے اس قید خانے میں سخت دھوپ اور گرمی نے دونوں کے چہرے جُھلسادئیے تھے۔ حضرت ولیدؓ نے ان دونوں کے پاؤں کی بیڑیاں اور ہاتھوں کی رسّیاں کاٹیں، اُنہیں باہر نکالا اور اپنی اونٹنی کی پُشت پر بٹھاکر برق رفتاری کے ساتھ مدینے کی جانب روانہ ہوگئے۔ علی الصباح، قریش کو اُن کے نکلنے کی خبر ہوئی، تو خالد بن ولید کو ایک چاق چوبند دستے کے ساتھ اُن کے پیچھے روانہ کیا۔ خالد بن ولید اُنہیں تلاش کرتے ہوئے عسفان تک آئے، لیکن پانہ سکے۔ 

حضرت ولیدؓ نے دونوں صحابہؓ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ مکّہ میں قید ہونے کی وجہ سے حضرت عیاشؓ بن ربیعہ غزوئہ بدر، اُحد اور خندق میں حصّہ نہ لے سکے، لیکن بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شامل رہے۔ کچھ عرصے بعد اُن کی والدہ اُمّ الجلاس اسماء بنتِ مخرمہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔

نام نسب، فضائل:عیاشؓ بن ابی ربیعہ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم، کنیت ابو عبداللہ، ’’سابقون الاوّلون‘‘ میں سے تھے۔ ابنِ اسحاق کے مطابق، حضرت عیاشؓ کا نمبر اسلام لانے والوں میں ستائیسواں اور اُن کی اہلیہ حضرت اسماء بنتِ سلمہؓ کا اٹھائیسواں تھا۔ 5نبوی ؐ میں حضرت ارقم کے گھر آنحضرتﷺ کے تشریف لانے سے قبل مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ ابوجہل کے ماں جائے تھے۔ اُن کی والدہ اُمّ الجلاس اسماء بنت مخرمہ کا پہلا نکاح ابوجہل کے والد ہشام بن مغیرہ سے ہوا۔ اُن سے علیحدگی کے بعد اُن کے بھائی ابو ربیعہ عمرو بن مغیرہ سے نکاح ہوا ۔ 

اس طرح ابوجہل، ماں جایا بھی تھا اور چچا زاد بھائی بھی۔ عیاش ؓبن ربیعہ کے ایک سگے بھائی بھی تھے، جن کا نام حضرت عبداللہؓ بن ربیعہ تھا۔ ہجرتِ ثانیہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے، جہاں اُن کے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن عیاشؓ کی ولادت ہوئی۔ 

حبشہ سے پھر واپس مکّہ تشریف لائے اور مکّہ ہی میں قیام کیا۔ سیّدنا عمرؓ بن خطاب کے ساتھ مدینہ ہجرت کرلی تھی، لیکن اللہ نے قسمت میں طویل قیدوبند کی صعوبتیں لکھی تھیں، چناں چہ سیّدنا عمرفاروقؓ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود دشمن ِاسلام ابو جہل کے ساتھ واپس مکّہ چلے گئے اور قید کردئیے گئے اور اللہ کے نبیﷺ کی مسلسل دُعاؤں کے نتیجے میں رہائی نصیب ہوئی۔ 

اپنی باقی زندگی مدینہ منورہ ہی میں گزاری رسول اللہﷺ کی رحلت تک ہمیشہ آپﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر رہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے حضرت عیاشؓ کو اپنا قاصد بناکر ملکِ یمن میں ایک قوم کے پاس بھیجا اور تاکید فرمائی کہ جب تم میرا خط اُن لوگوں تک پہنچاؤ گے، تو وہ مسلمان ہوجائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ جب وہ خط لے کر وہاں پہنچے اور بتایا کہ مَیں رسول اللہﷺ کا قاصد ہوں، تووہ لوگ عزت واحترام کے ساتھ پیش آئے اور پورے قبیلے نے اسلام کی دعوت قبول کرلی۔

شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن: آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عیاشؓ نے جنگِ حُنین میں شرکت کی۔ مرتدین اورمنکرینِ زکوٰۃ کے خلاف جنگوں میں شامل رہے۔ ملکِ شام میں سیّدنا خالد بن ولیدؓ کے ساتھ رومی فوجوں سے جنگوں میں شرکت کی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے صرف چھے دن بعد فاروقِ اعظمؓ کی خلافت میں پیش آنے والا پہلا معرکہ ’’یرموک‘‘ کاتھا، جس نے رومیوں کے مزاحمتی حصار میں دراڑیں ڈال دیں۔

یرموک کے میدان میں دوبڑی جنگیں لڑی گئیں۔ پہلی جنگ13ہجری میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں اور دوسری جنگ15ہجری میں حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح کی قیادت میں۔حضرت عیاشؓ بن ربیعہ کی شہادت کےحوالے سے مؤرخین کی اکثریت نے لکھا کہ جنگِ یرموک میں کئی صحابہ کرامؓ شدید زخمی ہوئے۔ 

میدانِ جنگ میں حضرت حارث ؓ بن ہشام ،حضرت عکرمہ ؓ بن ابوجہل اور حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ زخمی حالت میں قریب قریب ہی تھے۔ شدید زخموں سے چُور، حضرت حارثؓ بن ہشام نے پانی طلب کیا، انہیں پانی پیش کیا گیا، لیکن اُن کی نظر قریب ہی زخمی پڑے بھتیجے عکرمہ ؓ بن عمرو بن ہشام پرپڑی۔ انہوں نے فرمایا پہلے عکرمہ ؓ کو پانی پلادو، پھر میں پیوں گا۔ 

حضرت عکرمہؓ کے پاس پانی لے جایا گیا، ان کے قریب ہی حضرت عیاشؓ زخمی حالت میں تھے۔ حضرت عکرمہؓ نے کہا۔ ’’پہلے حضرت عیاشؓ کو پلادو۔‘‘ لہٰذا جب تک حضرت عیاشؓ کے پاس پانی لے جایا گیا، وہ شہید ہوچکے تھے۔ یوں تینوں ایثار و قربانی کےمثالی پیکر صحابۂ کرام ؓ پانی کا ایک قطرہ پیے بغیر شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔ (اسدالغابہ،515/1) 

کچھ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جنگِ یرموک میں حضرت عیاشؓ سخت زخمی ہوگئے تھے، لیکن اُن کا انتقال مکّہ مکرمہ میں ہوا، کچھ نے انتقال کا مقام مدینہ منورہ لکھا ہے، لیکن مؤرخین کی اکثریت نے جنگِ یرموک میں شہادت کو مستندلکھا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔

تعظیم حرمین شریفین: حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ نے رسول ﷺ سے احادیث روایت کی ہیں۔ یہ احادیث کتب میں موجود ہیں، جنہیں روایت کرنے والوں میں حضرت انس بن مالکؓ، عبدالرحمنؓ بن ربیعہ اور عبداللہ بن عیاشؓ قابلِ ذکر ہیں۔ حضرت عیاش ؓبن ابی ربیعہ سے مروی ہے۔ 

رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’ یہ امّت اُس وقت تک خیر پررہے گی، جب تک(حرمین) کی اس حُرمت و عظمت کا کماحقہ خیال رکھے گی۔ جب وہ اس فریضہ( تعظیم ِحرمین) کو ضائع کریں گے، تو تباہ ہوجائیں گے ۔‘‘(سنن ابن ماجہ3110، ،مسند احمد19259)۔

حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ ’’قیامت سے پہلے ایک آندھی آئے گی اور اسی دوران ہرمومن کی رُوح قبض کرلی جائے گی۔‘‘( مسند احمد،15542)۔