• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور معاشی اعتبار سے سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے۔اپنے مخصوص جغرافیائی پس منظر کی وجہ سے اس کے مسائل پاکستان کے دیگر صوبوں سے مختلف ہیں۔ یہاں بھارت اور دیگر دشمن ممالک اپنی جڑیں گہری کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔بیرون ملک بیٹھ کر غیر ملکی امداد سے چلنے والی بعض عسکری تنظیمیں پاکستان اور پاکستانی اداروں کیلئے مستقل درد سر کا باعث ہیں۔ماضی میں پاکستان کی مقتدرہ نے ان مسائل کو حل کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی لیکن اس کا خاطرخواہ نتیجہ کبھی بھی برآمد نہ ہوا اور بلوچستان کے عوام کے بنیادی مسائل وہیں کے وہیں رہے۔بلوچستان کی سیاست پر ہمیشہ مخصوص خاندان قابض رہے اور ایک طویل عرصے تک بلا مقابلہ انتخابات میں کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے رہے۔ یہاں سے سینٹرز کا انتخاب بھی ایک مخصوص طریقے سے ہوتا رہا جس کی وجہ سے بلوچستان کی پسماندگی اور محرومی میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔بلوچستان کے بنیادی مسائل میں تعلیم،صحت اور صاف پانی کی عدم فراہمی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں سب سے کم شرح تعلیم صوبہ بلوچستان میں ہے جہاں آبادی کا صرف 43 فیصد خواندہ افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔بلوچستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔جہاں ہر 1000 بچوں میں سے 66 بچے صحت کی مناسب سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔معدنی وسائل سے مالامال یہ صوبہ شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے۔اور ملک کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔خطے کے بنیادی ڈھانچے میں کمزوری اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث ملازمت کے مواقع محدود ہیں اور بلوچ نوجوان رزق کی تلاش میں یا تو ہجرت کرنے پر مجبور ہیں یا شدت پسندوں کے مکروہ عزائم کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بھی بڑی تشویشناک ہے۔ یہ صوبہ کئی دہائیوں سے شدت پسندوں اور علیحدگی پسند تحریکوں کا شکار رہا ہے۔ان بنیادی مسائل کے علاوہ بلوچستان کو ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سب سے زیادہ بلوچستان پر مرتب ہوئے ہیں۔ سرفراز بگٹی 1981میں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ممتاز قبائلی و سیاسی رہنما میر غلام قادر بگٹی مرحوم کے ہاں پیداہوئے۔ ان کے والد کا شمار بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کے سخت ترین مخالفین میں ہوتا تھا۔میر غلام قادر بگٹی نے 1988میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تاہم 1999میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد جب پرویز مشرف نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کے برعکس وہ جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے۔میر سرفراز بگٹی نے سال 2008 ءمیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ڈیرہ بگٹی سے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن انھیں اپنے چچازاد بھائی میر طارق بگٹی کے مقابلے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔2013 ءمیں وہ پہلی بار آزاد حیثیت سے ڈیرہ بگٹی سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں انھوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی۔

انھوں نے 2013 ءمیں بننے والی بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ 2018ءمیں میر سرفراز بگٹی نے نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی بلکہ ان کا شمار اس پارٹی کے بنانے والے اہم لوگوں میں تھا۔تاہم وہ 2018 کے عام انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکے لیکن وہ بلوچستان عوامی پارٹی سے سینیٹر منتخب ہو گئے۔سرفراز بگٹی اپنے سیاسی کیریئر کے اعتبار سے متنوع جہات رکھتے ہیں۔عام طور پر وہ ان سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں جو مشکل حالات میں ریاست کے ساتھ کھڑے رہے اور انہوں نے ریاستی بیانیہ کو ہی فروغ دیا۔مسنگ پرسنز کے حوالے سے انہوں نے ہمیشہ دلیرانہ اور جرات مندانہ موقف اختیار کیا اور اسی بیانیے کی ترویج کی جو ریاستی اداروں کا بیانیہ تھا۔سرفراز بگٹی ڈائیلاگ کے حامی سمجھے جاتے ہیں اور جس پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہ صدر منتخب ہوئے اس کے سربراہ جناب آصف علی زرداری کو بھی مفاہمت کی سیاست کا بادشاہ کہا جاتا ہے جو اس وقت صدر مملکت کے منصب پر بھی فائز ہیں ان کے انتخاب سے بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بات چیت کا ادھورا سلسلہ ایک مرتبہ پھربحال ہوگا سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے ان تمام گروہوں سے بھی ڈائیلاگ کیے تھے جو اس وقت پارلیمان کا حصہ نہیں تھے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے تھے۔سرفراز بگٹی نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے اور بعد اس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی پالیسی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔جبکہ بعض تجزیہ نگار اس موقف کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالمالک کے دور میں سرفراز بگٹی چونکہ بلوچستان کی وزارت داخلہ کے منصب پر فائز تھے اس لیے مسنگ پرسن اور شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں سرفراز بگٹی کا ہی بنیادی آئیڈیا کار فرما تھا جس کی وجہ سے یہ آئیڈیا نہ صرف مقبول ہوا بلکہ اس سے بلوچستان کے امن و امان کے مسائل میں واضح طور پر تبدیلی دیکھنے میں آئی۔سرفراز بگٹی کے انتخاب سے توقع کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی اور بلوچ نوجوانوں کا احساس محرومی دور ہوگا۔

تازہ ترین