• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نادیہ ناز غوری، کراچی

مہمانانِ گرامی: سعادت اعجاز قریشی اینڈ فیملی

عکّاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

کیا ہی خُوش بختی ہے ہماری کہ ہم گنہ گاروں، سیہ کاروں، پژمردہ رُوحوں کو سیراب و شاداب کرنے، ربِّ جلیلﷻ سے مِلانے، یہ معزّز مہمان، بے پایاں رحمت کا سائبان، ماہِ رمضان ایک بار پھرعطا کیا گیا۔ بہ قول ڈاکٹر پیام اعظمی ؎ عبادتوں کے چمن کی بہار ہے رمضان...علاجِ گردشِ لیل و نہار ہے رمضان...بہارِ گلشنِ عشق و وفا کا موسم ہے...نمودِ قوّتِ صبر و رضا کا موسم ہے...فروغِ جذبۂ صدق و صفا کا موسم ہے...عبادتوں کا زمانہ، دُعا کا موسم ہے...ہے وقت بگڑی ہوئی قسمتیں بنانے کا...زمانہ آیا، گناہوں کو بخشوانے کا...زہے! وہ ضُعف، جو کردار کی دوا بن جائے...خوشا! وہ پیاس، جو سیرابئ وفا بن جائے...زہے! وہ بھوک، جو دل کے لیے دوا بن جائے...خوشا! وہ نیند، جو تسبیحِ کبریاﷻ بن جائے...اُسی کو حق ہے کہ دستِ دُعا بلند کرے...کہ جس کی بوئے دہن بھی خدا پسند کرے...ہر ایک سانس میں ذکرِخدا کی لذّت ہے... ہر اِک نفس میں، نہاں جلوۂ تلاوت ہے...یہ ترکِ آب و غذا، زندگی کی دولت ہے...جو نیند آئے، تو سونا بھی اِک عبادت ہے...نزولِ رحمتِ پروردگار ہوتا ہے...کہ بخت جاگتا ہے، روزہ دار سوتا ہے...پلک پہ اشکِ ندامت، زباں پہ استغفار...وہ رات، جس کی تجلّی پہ لاکھ صبح نثار...بہت بلند حدِّ امتحان دیکھتے ہیں....مَلَک بھی آکے، عبادت کی شان دیکھتے ہیں۔‘‘

طبّی اعتبار سے بھی دیکھیں، تو یہ مہینہ، جسم کی اوورہالنگ، ٹیوننگ کے لیے بےحد مفید ہے۔ یہ جو آج فربہی ایک عالم گیر مسئلہ بنتی جا رہی ہے اور باڈی ڈی ٹاکسی فیکیشن(body detoxification) پر لاکھوں خرچ کیے جا رہے ہیں، بڑھاپے کے خوف سے بوٹوکس اور ڈرمل فلرز انجیکشن لگوائے جارہے ہیں، تو دینِ اسلام نے روزے کی صُورت میں، یہ باڈی ڈی ٹاکسی فیکیشن(جسم میں بننے والےزہریلے مواد، مضر اثرات کااخراج، صفائی ستھرائی) کا عمل ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ روزے کی حالت میں، جسم ترکِ آب و غذا کےعمل سے مکمّل طور پر ہم آہنگ ہوکر رفعِ زہر کے عمل سے گزرنا شروع ہوجاتا ہے۔

انسدادِبڑھاپا اور کاسمیٹک سرجری کے ماہرین کے مطابق، ایک ہفتے میں 16 گھنٹے کا روزہ، بڑھاپےکے اثرات کم کرنے میں مدد دیتاہے۔ جب کہ کنگز کالج، لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکائٹری کی ایک نئی تحقیق کے مطابق، روزہ دماغی قوّت بڑھاتا، یادداشت بہتر بناتا ہے اور نئے ’’ہپپوکیمپل نیوران‘‘ پیدا کرتا ہے، جو اعصابی امراض سے بچاؤ میں مدد دیتے ہیں۔ قصّہ مختصر، صحت کے خزانے سے لب ریز یہ ماہ پانے کے بعد، کوئی Intermittent fasting جیسا ٹرینڈ فالو کرنے، کسی ایستھیٹک کلینک جانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔

یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی لاتعداد صفات و برکات سے متصف ہے، مگر آخری دس دن، پہلے بیس ایّام سے زیادہ اہمیت، انفرادی شان رکھتے ہیں۔ آپﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا ’’جس نے شبِ قدر میں، حالتِ ایمان میں ثواب کی غرض سے قیام کیا، اُس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘(متفق علیہ) پھر اِسی عشرے کی ایک اورخصوصیت، اہم ترین عبادت اعتکاف ہے، جوضبطِ نفس، گوشۂ تنہائی میں علائقِ دنیا سے بےرغبتی و کنارہ کشی کاعملی اظہار ہے، جس میں بہت سے نیک اعمال مثلاً جنازے میں شرکت، عیادتِ مریض وغیرہ کا اجر بنا کیے بھی ملتا رہتا ہے، مطلب، یہ ربِّ جلیلﷻ کی کس قدر فیّاضی و سخاوت ہے کہ ایک عبادت کے صلے میں، دسیوں عبادتوں کا ثواب عطا کرتا ہے۔ رحمتِ الہیﷻ بس برسنے کو بہانہ ڈھونڈتی رہتی ہے کہ ؎ رحمتِ حق بہا نمی جوید...رحمتِ حق بہانہ می جوید۔"

ماہِ جود و سخا، کرم و عطا، سایۂ رحمت، نویدِ مغفرت، فیضانِ یزداں، ماہِ رمضان بہت تیزی سےگزررہا ہے۔ دوعشرے جیسے چشمِ زدن میں مکمّل ہوئے، لیکن ہنوز بہاریں پورے جوبن پر ہیں۔ سحر کے رَت جگے، افطارکی رونقیں ہیں، تو تراویح کی گہما گہمی، اہتمامِ سحر و افطار لوازمات بھی۔ فضائیں تلاوتِ کلامِ پاک، دروسِ قرآن کی ضیاؤں سے منوّر، ذکراذکار، تسبیح و تہلیل سے معطّر ہیں، تو معتکفین کی خدمت و مہمان داری، لیلتہ القدر کے حصول کی تیاری بھی جاری و ساری ہے۔ مطلب بارانِ رحمت و مغفرت مسلسل برس رہی ہے۔ 

آخری عشرہ جہنّم سے نجات کا پروانہ، مژدۂ بخشش لیے سایہ فگن ہوا، یعنی ماہِ مقدّس کی یہ دولتِ بےبہا، نیکیوں کا موسمِ بہارقریبِ رخصت ہے، لیکن جیسا کہ موسمِ بہارکا اخیرحصّہ ہی زیادہ ثمربار ہوتا ہے، تو اِس ماہِ مقدّس ومتبرّک کابھی اصل ثمرہ یہی ہے کہ کسی طورجہنّم سے نجات مل جائے۔ نیز،عشرۂ اخیرہ کا، ایک خصوصی تحفہ ’’نویدِ عیدُ الفطر‘‘چاند کا دیدہ وَر نظارہ بھی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ غُرّۂ شوّال! اے نُورِنگاہِ روزہ‌ دار...تیری پیشانی پہ تحریر پیامِ عید ہے۔ تو اِس چاند رات کی بھی بڑی فضیلت و برکت ہے، جسے ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کہا گیا ہے کہ جس میں بارگاہِ یزداں میں مغفرت کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور روزے داروں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔

اور…ہماری آج کی بزم، اِسی ’’عشرۂ اخیرہ‘‘ کے سحر و افطار لوازمات، پُرنور لمحات سے معمور ہے۔ اپنوں کے سنگ، محبّت بَھرے یہ اَن مول لمحات، رحمتوں، برکتوں سے لب ریز سحر و افطار دسترخوان بڑی نعمت ہیں کہ ؎ دی ہے ہمیں، خدا نے روزےکی ایسی نعمت...اہلِ خِرَد سمجھتے ہیں، اِس کی قدر و قیمت...یہ ضبطِ نفس کا ہے اور صبر کا مہینہ...ہم کو سِکھا رہا ہے، جینے کا اِک قرینہ...ربّﷻ نے عطا کی، ہم کو افطار کی فضیلت...آئی سمجھ میں، کھانے پینےکی قدر و قیمت۔ 

اور ہاں، اس قاصدِ رحمٰن، تحفۂ یزداں، رمضان المبارک کی طاق راتوں میں ’’یومِ آزادئ پاکستان‘‘(27 رمضان المبارک) بھی آتا ہے۔ 

سو، فضیلتوں بَھری طاق راتوں میں، ربّﷻ کے حضور سجدہ ریز ہوں، بارگاہِ ایزدی میں دستِ دُعا بلند کریں، تو پاکستان کے اقتصادی استحکام، کُل اُمتِ مسلمہ، خصوصاً اہل فلسطین، مظلومینِ غزہ کی فتح کے لیے بھی دستِ دُعا ضرور بلند کیجیے گا۔