• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیرسراج الحق دو ادوار کے لئے اس منصب پر فائز رہنے کے بعد فارغ ہوگئے اور جماعت اسلامی کے اراکین نے کثرت رائے سے حافظ نعیم الرحمان کو مرکزی امیر چن لیا ہے ۔غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں جماعت اسلامی وہ واحد مذہبی سیاسی جماعت ہے جس میں کوئی موروثیت نہیں اور امیر کا انتخاب مکمل جمہوری طریقے سے ہوتاہے۔ بانی امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے جن کا تعلق ہندوستان کے علاقے پٹھان کوٹ سے تھا۔ ان کے بعد میاں طفیل محمد امیر منتخب ہوئے ۔ میاں طفیل محمد کے بعد نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پختون قاضی حسین احمد امیر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد اردو بولنے والے مرددرویش سید منور حسن صاحب امیر بن گئے۔ پھر قرعہ فال پختونخوا کے سرحدی اور پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے سراج الحق کے نام نکلا اور اب جماعت کے اراکین کی اکثریت نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اور اردو بولنے والےحافظ نعیم الرحمان صاحب کو امیر چن لیا۔ جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق کوئی فرد خود امارت کا امیدوار نہیں بن سکتا۔ مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے جن میں ووٹر اراکین ایک کا انتخاب کرتے ہیں لیکن اراکین ان سے ہٹ کر بھی کسی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ کسی کو کنوینسنگ کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ جتنے امیر بنے اس میں ان کے اپنے جتن شامل نہیں تھے بلکہ دوسروں نے ان کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی اور دیگر سیاسی لیڈروں کے برعکس اپنی اپنی زندگی میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے۔ ان سب میں کوئی جاگیردار یا بڑا سرمایہ دار نہیں تھا اور نہ کسی امیر کبیر کا بیٹا بلکہ بعض کی تو اولاد سرے سے جماعت اسلامی کی رکن بھی نہیں ہے۔

جماعت اسلامی جس کی عمر پاکستان سے بھی زیادہ ہے پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے۔ اس کے ڈسپلن کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ کم یا زیادہ لیکن جماعت اسلامی کی تنظیم کراچی سے لے کر خیبر تک اور گلگت سے لے کر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے۔ منصورہ کی شکل میں اس کا ایک عالی شان ہیڈکوارٹر موجودہے۔ اسی طرح ہر صوبے میں صوبائی ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ ہر کارکن ماہانہ چندہ دیتا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وسائل کے لحاظ سے جماعت اسلامی سب سے امیر تنظیم ہے۔ دیگر جماعتوں کی قیادت دولت مندہے یا پھر دولت مند شخصیات ان سے وابستہ ہوتی ہیں لیکن جماعت اسلامی بطور جماعت وسائل رکھتی ہے۔ یہ کسی فرد کے وسائل نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت کا پاکستان میں کوئی مقابلہ نہیں۔ جماعت اسلامی سے منسلک اسلامی جمعیت طلبہ سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ اسی طرح دینی مدارس کے طلبہ کی جمعیت طلبہ عربیہ کے نام سے الگ تنظیم ہے جبکہ کسانوں کی کسان بورڈ اور اساتذہ کی تنظیم اساتذہ کے نام سے تنظیمات کام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کا اپنے کارکنوں کی تربیت کے لئے ایک مربوط نظام ہے جبکہ اس کی سوچ کو تقویت دینے کے لئے لٹریچر کا وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جماعت اسلامی کبھی ملک بھر کی حکمران جماعت نہیں بن سکی اور نہ قومی سطح پر سب سے مقبول جماعت کے طور پر ابھری۔

نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمان ایک متحرک اور فعال سیاسی کارکن ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے تربیت حاصل کی ہے اور جب سے کراچی کے امیر بنے ہیں تو وہاں جماعت اسلامی کو ایک نئی زندگی دی ہے تاہم اب سوال یہ ہے کہ کیا حافظ نعیم کے دور میں جماعت اسلامی سیاسی افق پر عوامی حمایت کی حامل مقبول ترین عوامی جماعت بن سکے گی یا نہیں؟ میرے نزدیک ایسا ہونا نہایت مشکل ہے کیونکہ اس کیلئے جماعت اسلامی کی پوری ساخت اور دستور میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی ایک طرف دعوتی جماعت ہے اور دوسری طرف سیاسی جماعت ہے۔ دعوتی جماعت بھی ایسی ہے کہ ہر پاکستانی تربیت کے مخصوص مراحل طے کئے بغیر اس کا کارکن نہیں بن سکتا جبکہ دوسری طرف وہ دوسری جماعتوں کی طرح سیاسی جماعت بھی ہے۔ دعوت دوسروں کو ان کے مناصب سے ہٹانے کا نہیں بلکہ اس کی خیر خواہی کا نام ہے جبکہ سیاست حریفانہ کشمکش کا ۔دعوت اور سیاست کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ مثلاً ایک داعی اپنے مخاطب سیاسی رہنما سے یہ نہیں کہتا کہ تم اس جگہ سے ہٹ جائو۔ وہ اسے کہتا ہے کہ آپ اپنی جگہ رہیں لیکن آپ سے دین کے یہ یہ تقاضے ہیں ان کو پورا کرلیں جبکہ سیاست میں ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ نااہل ہیں اور میں اہل ہوں۔ آپ ہٹ جائیں اور آپ کی جگہ میں آکر بیٹھوں گا۔یوں دعوت اور سیاست کے تقاضے الگ الگ ہیں اور یہی جماعت کا اصل مخمصہ ہے جس سے وہ نکل نہیں سکتی۔ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دور کی طرح خالص دعوتی جماعت بھی دوبارہ نہیں بن سکتی کیونکہ نصف صدی کی سیاست اور اتحادوں نے اس کو کافی بدل دیا ہے۔ دوسری طرف وہ خالص سیاسی جماعت بھی نہیں بن سکتی کیونکہ جماعت کا اسٹرکچر اور دعوتی تنظیم کی ساخت اسے ان کاموں سے روکتی ہے جو ایک مقبول جماعت بننے کے لئے ضروری ہے۔ مثلاً ایک بندہ اگر اپنے حلقے میں مقبول بننے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اور پہلے دن سے کنوینسنگ کرکے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دعوتی جماعت اسلامی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ وہاں نہ آپ امیدوار بن سکتے ہیں اور نہ اپنے حق میں کنوینسنگ کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر یہ کام نہیں کرتے تو حلقے کی سطح پر الیکشن جیتنے والے الیکٹیبلز نہیں بن سکتے ۔ گویا اصل مخمصہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی دعوتی اور سیاسی جماعت ہونے کی کشمکش سے دوچار ہے۔ اگر حافظ نعیم الرحمان نے اسے خالص سیاسی جماعت بنا دیا تو وہ جماعت کو مقبول سیاسی جماعت بنانے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے لیکن اگر اس میں ناکام رہے تو پھر جماعت کو مقبول ترین سیاسی جماعت بھی نہیں بنا سکیں گے۔ ہماری دعائیں حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ ہیں اور دست بہ دعا ہیں کہ اللّٰہ حافظ کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

تازہ ترین