• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے ایک مہمان کو الوداع کہنے گھر کے دروازے تک آیا تھا کہ سامنے ایک نئی موٹرسائیکل آکر رکی ، موٹرسائیکل سوار نے ہیلمٹ اتارا تو میرے سامنے یار محمد موجود تھا جو ، اس کے پیچھے اس کی بیٹی بھی بائیک سے اتری ۔ یار محمد میرا ڈرائیور تھا لیکن آج کام پر آنے کے بجائے اپنی بیٹی کو مجھ سے ملانے لایا تھا ، سلام دعا کے بعد یار محمد کی بیٹی نے ایک لفافہ مجھے پکڑانے کی کوشش کی تو میں نے سوال کیا کہ اس میں کیا ہے تو یار محمد نے جذباتی اندازمیں جواب دیا سر یہ میری بیٹی کی پہلی کمائی ہے جو وہ بہت عقیدت سے گورنر سندھ کامران ٹیسوری صاحب کے ہاتھ میں بطور عقیدت رکھنا چاہتی تھی لیکن ہماری پہنچ وہاں تک نہیں ہے لہٰذا یہ آپ کو پیش کرنا چاہتی ہے ، اچانک مجھے یاد آیا کہ سال بھر پہلے یار محمد اپنی بیٹی کی ملازمت کیلئے میرے پاس آیا تھا جو صرف انٹر پاس تھی لہٰذا میں نے اسے گورنر ہائوس کراچی میں ہونیوالے آئی ٹی کورس کرنے کا مشورہ دیا ،اسکے تعلیمی کاغذات گورنر ہائوس میں جمع کرانے میں تعاون کیا اور پھر اسے گورنر ہائوس میں ای کامرس کے کورس میں داخلہ مل گیا ، جسکے بعد کبھی کبھار یار محمد اپنی بیٹی کے حوالے سے بتاتا رہتا تھاکہ گورنر ہائوس میں کتنے ماہر اساتذہ ذاتی دلچسپی لیکر بغیر کسی فیس کے اسکی بیٹی سمیت ہزاروں غریب طلبہ و طالبات کو ای کامرس کا کورس کرانے میں مصروف عمل ہیں ۔ آج ایک سال بعد یار محمد کی بیٹی ایک لفافہ لیکر میرے پاس موجود تھی ، میں بھی اس بچی کی کامیابی دیکھ کر خوش تھا ، میں نے دونوں کو اندر بلوایا ، لفافہ کھولا تو اس میں تین سو امریکی ڈالر موجود تھے جو پاکستانی اسی ہزار روپے کے لگ بھگ رقم تھی مجھے خوش دیکھ کر یار محمد کی بیٹی بولی ،انکل میری پہلے مہینے ہی آمدنی چھ سو ڈالر ہوئی ہے جس میں سے تین سو ڈالر سے ابو کیلئے نئی موٹرسائیکل لی ہے اور باقی آپ کے پاس لیکر آئی ہوں کیونکہ آپکی وجہ سے گورنر ہائوس میں ہونے والا یہ کورس کر سکی ، میں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لفافے کے ساتھ کچھ تحائف بھی اسے پیش کیے اور دعائوں کے ساتھ دونوں باپ بیٹی کو رخصت کیا ، کراچی کے گورنر ہائوس نے سندھ کے غریب عوام میں ایک معاشی انقلاب برپا کردیا ہے ، کیونکہ اس وقت پانچ لاکھ نوجوان گورنر ہائوس میں ہونے والے ایک سالہ ای کامرس کا ڈپلومہ کرنے میں مصروف ہیں جس کی ڈگری بھی کراچی یونیورسٹی دینے جارہی ہے اور یہ وہ کورس ہے جسے مکمل کرنے سے قبل ہی نوجوان بچے بچیوں کی آمدنی شروع ہوجاتی ہے جو ڈالروں میں ہوتی ہے ، یقیناً اس شاندار تعلیمی انقلاب کا سہرا گورنر سندھ کے سر ہے جنھوں نے زکوۃ لینے والے غریب گھروں کے بچوں کو لاکھوں روپے کمانے والا شہری بنادیا ہے، صرف اتنا ہی نہیں میں اورنگی ٹائون کے اس غریب نوجوان کو بھی جانتا ہوں جسکی آمدنی کا سہارا اس کی واحد موٹرسائیکل تھی جو چوری کرلی گئی تھی ۔میں نے اس نوجوان کو اپنی ایف آئی ار کے ساتھ گورنر ہائوس رابطے کا کہا اور اس نوجوان کو گورنر سندھ کے ہاتھوں ایک نئی موٹرسائیکل مل گئی جس کی بدولت وہ دوبارہ نوکری کے حصول میں کامیاب بھی ہوگیا ، اس وقت تک گورنر سندھ کراچی کے سولہ سو نوجوانوں کو ان کی چوری ہونے والی موٹرسائیکل کے بدلے نئی موٹرسائیکل دے چکے ہیں ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کراچی میں ڈکیتی کے دوران قتل ہونے والے نوجوان کو ایک اوورسیز پاکستانی علی شیخانی کے تعاون سے گورنر سندھ نے گھر اور نقد رقم فراہم کی ہے، اس وقت تک لاکھوں غریب لوگ اس مہنگائی کے دور میں گورنر ہائوس سندھ سے ماہانہ راشن وصول کررہے ہیں ، لاکھوں لوگ آئی ٹی کورس کرکے روزگار حاصل کررہے ہیں ،جبکہ رمضان میںگورنر ہائوس میں لاکھوں لوگ کیلئےافطارکا انتظام بھی ہوتا تھا۔ کراچی کے ہزاروں ڈلیوری بوائز کیلئے گورنر ہائوس میں تقریبات کا انعقاد ہونے لگا ہے ، غرض گورنر ہائوس کو گورنر کامران ٹیسوری نے ایک این جی او میں تبدیل کردیا ہے ، ان اربوں روپے کی تقسیم میں حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ یہ سارا کام اوورسیز پاکستانی اور کراچی کی معروف کاروباری شخصیات کے تعاون سے کیا جارہا ہے، گورنر صاحب گورنر ہائوس کے عشائیوں کے اخراجات بھی ادا کرتے ہیں جبکہ حکومت سے اپنے عہدے کی تنخواہ بھی نہیں لیتے، دس سال کا کام ڈیڑھ سال میں کرنے والےسندھ کے گورنر کو عہدے سے ہٹانے کیلئے ایک مہم شروع ہو چکی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گورنر سندھ کی تبدیلی ہی ہے، لیکن اس وقت کراچی کی کاروباری برادری ہو یا سماجی تنظیمیں، مراعات یافتہ طبقہ ہو یا پسا ہوا طبقہ ہر طبقے کیلئے گورنر سندھ قابل قبول ہیں سوائے انکے جن کا مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ عوام کا استحصال ہے، باقی عزت اور ذلت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

تازہ ترین