• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
25؍مارچ 1948ء کو چٹاکانگ میں بیورو کریسی سے خطاب میں قائد اعظمؒ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ کہ آپ ہر کسی کا ہر کام نہیں کرسکتے اور بعض کام ہونے والے ہوتے بھی نہیں۔ مگر سائل کے ساتھ دو میٹھے بولوں پر کچھ خرچ نہیں آتا۔ ان کی بات دھیان سے سن لو گے اور سلیقے سے معذرت کردو گے، تو انہیں اتنی ہی راحت ہوگی کہ گویا آپ نے ان کی دادرسی کردی۔ کاش بابائے قوم کا یہ فرمان فارن آفس کی ترجمان محترمہ تسنیم اسلم کی نظر سے گزرا ہوتا تو بات کا بتنگڑ نہ بنتا۔ صحافی بھی بدمزہ نہ ہوتے، ارکان پارلیمینٹ کو بھی سبکی محسوس نہ ہوتی اور خود ان کا اپنا فشار خون بھی قابو میں رہتا۔ برادر اسلامی ملک شام پر گزشتہ تین برس سے جو قیامت بیت رہی ہے اس سے سبھی آگاہ ہیں۔ خوفناک قسم کی خانہ جنگی، جس میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ 30/40 لاکھ نفوس دربدر ہیں اور مالی نقصان کا تو کوئی شمار ہی نہیں مگر عالمی بے حسی کا یہ عالم کہ اس المناک صورت حال کو بھی ہر کوئی اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ ایک بدترین قسم کی پراکسی وار ہے، جو سر زمین شام پر لڑی جارہی ہے۔ پاکستان اس معاملے میں مکمل غیرجانبداری اور عدم مداخلت کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ پچھلے دنوں سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان تشریف لائے، تو اس موقع پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ سے یہ تاثر ابھارا گیا کہ ملک شام کے حوالے سے حکومت پاکستان نے اپنا اصولی موقف تبدیل کرلیا ہے اور صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کے لئے باغیوں کی حمایت پر آمادہ ہوچکی ہے۔ گو حکومت پاکستان نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کی اور مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز نے دو ٹوک الفاظ میں بتادیا کہ شام کے حوالے سے حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اور ہم بدستور دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند ہیں۔
سیاست و صحافت کی دنیا میں سازشی تھیوریوں کا چلن ہمیشہ سے رہا ہے۔ بال کی کھال اتارنا اور رائی کا پہاڑ کھڑا کرنا، ان پیشوں سے جڑے لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر فارن آفس کی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں نے بھی شک و شبہ کا اظہار کیا اور تہہ دار سوال اٹھائے تو وہ ان کا حق بنتا تھا۔ ترجمان محترمہ تسنیم اسلم کو چاہئے تھا کہ سرکاری موقف کو پھر سے دہرا دیتیں۔ مگر وہ بر افروختہ ہوگئیں اور کچھ اس قسم کی گفتگو کر بیٹھیں، جو ان کے منصب کے منافی تھی۔
ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ میڈیا کی بے کراں آزادی کے اس دور میں کوئی خبر چھپائی اور نہ دبائی جاسکتی ہے۔ غلط سلط باتیں کرنے والوں اور جان بوجھ کر زچ کرنے والوں کو روکنے کی بھی کوئی صورت نہیں۔ ایسے میں بس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے، جسے بھارت کے وزیر اطلاعات تیواری جی نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ انفارمیشن گروپ کے نئے بیچ کو اکیڈمی میں خوش آمدید کہتے ہوئے موصوف نے کہا تھا کہ کوے سے سبھی واقف ہیں، ہر کسی کو اس کی پہچان ہے، ایک آئیڈیل سرکاری ترجمان کا کمال یہ ہے کہ اگر کوئی سر پھرا صحافی اسے سو مرتبہ پوچھے کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ سو مرتبہ ہی حددرجہ خوشدلی اور ادب کے ساتھ بتائے It is a crow, sir۔ موصوف نے مزید کہا کہ ایسے میں سرکاری ترجمانوں کا کام بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ ان کی برداشت کا ٹیسٹ ہے، جس میں انہیں بے مثل ہونا چاہئے۔ انہیں خوش اخلاقی کا بھی نمونہ ہونا چاہئے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ شو آف سے بچیں، مقابل کو لائق فائق اور اپنے آپ کو کم علم ظاہر کریں۔ اپنے آپ کو مخاطب پر ہرگز امپوز نہ کریں۔ اس کی بے تکی باتوں اور بے ربط گفتگو کو بھی یکساں اہمیت دیں اور اس کی نوک پلک درست کرکے انہیں یہ تاثر دیں کہ دانش کا یہ دریا تو انہی کا بہایا ہوا ہے۔
آج ہم گلوبل ویلیج میں رہ رہے ہیں۔ جہاں انفارمیشن کی اسپیڈ کے لئے برق رفتاری کی اصطلاح بوسیدہ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں میڈیا ایک طلسماتی اور ماورائی مخلوق کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اور دنیا بھر کی حکومتیں، بین الاقوامی تنظیمیں، ملٹی نیشنلز اور بڑے تجارتی ادارے میڈیا ہینڈ لنگ پر تمام تر توانائیاں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کی سول سروس اکیڈیمیوں، بالخصوص فارن سروس اکیڈیمیز میں میڈیا ہینڈلنگ کے حوالے سے خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے راقم نے وطن عزیز کے متعلقہ تربیتی اداروں کا احوال جاننے کی کوشش کی تو کوئی خاص حوصلہ بخش جواب نہیں ملا۔ فارن سروس اکیڈیمی والے تو غالباً میڈیا سے متعلقہ امور کو توضیع اوقات خیال کرتے ہیں۔ ورنہ فارن آفس کی سینئر، سنجیدہ مزاج اور لائق فائق ترجمان سے وہ چوک نہ ہوتی، جو وہ گزشتہ جمعرات والی بریفنگ میں کر بیٹھیں۔ وہ اپنی دانست میں سمجھ بیٹھیں کہ جناب سرتاج عزیز کے وضاحتی بیان کے بعد شام کے حوالے سے بحث اختتام کو پہنچ گئی۔ حالانکہ انفارمیشن کے اس دور میں یہ ناممکن ہے۔ آج کا صحافی تو دوسری عالمی جنگ میں شام کو اسلحہ کی فراہمی کو بھی حالیہ واقعات کے ساتھ گڈمڈ کرکے سوال داغ سکتا ہے۔ اگر کسی نے شام کا ذکر چھیڑ ہی دیا تھا تو بردباری سے سرکاری موقف پھر سے دہرا دیا جاتا۔ برہم ہونا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا۔ سوال اٹھانے والوں کو بدنیتی، کم عقلی اور ذہنی عدم توازن کے کوسنے انہیں زیب نہیں دیتے تھے۔ وہ یہ بھول گئیں کہ شام کے حوالے سے سوال صرف صحافیوں ہی نے نہیں اٹھایا۔ اس موضوع پر تو پارلیمینٹ میں بھی تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ ایسے میں اگر عوامی نمائندوں نے یہ محسوس کیا کہ محترمہ کی گل فشانی کا نشانہ وہ تھے، تو کچھ غلط بھی نہیں جس پر سینیٹ میں شدید احتجاج ہوا اور 30سینیٹروں کے دستخطوں سے تیار کی گئی تحریک استحقاق چیئرمین نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دی۔
اب اس کے اندر سے کچھ برآمد ہوتا ہے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ فارن آفس کی سبکی تو ہوگئی۔ اور اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی لگ گیا۔ بعض پارلیمینٹرین سے تو راقم کو یہ بھی سننے کو ملا کہ جمہوریت بیورو کریسی کے حلق سے نیچے نہیں اترتی اور اس حوالے سے ان کی گفتگو محض لفاظی کے سوا کچھ نہیں۔ نجی محفلوں میں وہ جمہوریت، جمہوری اداروں اور عوامی نمائندوں کی کھلی تضحیک کرتے ہیں۔ ایک معزز رکن کو تو شکایت تھی کہ انہیں تو ہمیں سر کہہ کر ایڈریس کرنا بھی گوارا نہیں، بلکہ الٹی یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم ان کی خوشامد کریں، ان کی ساری جی حضوری اور خاکساری اچھی پوسٹنگ یا کسی اور ملازمتی مفاد کی غرض سے ہوتی ہے، ورنہ وہ اپنی نام نہاد برتری کے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ ایک رکن اسمبلی تو اس حد تک چلے گئے کہ جمہوریت کو خطرہ کی بات ہو تو دھیان بالعموم خاکی بیورو کریسی کی طرف جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی جڑیں کھودنے میں سول بیورو کریسی کا رول بھی کچھ کم نہیں۔ ایک دوست کی چھٹی حس تو یہ کہہ رہی تھی کہ جمہوریت کو چلانا ہے تو بیورو کریسی کو لگام ڈالو، ورنہ بابوئوں کے ہاتھوں عوامی نمائندوں کی پگڑیاں اچھلتی رہیں گی۔ گزشتہ ہفتے کے کالم ’’قائد کا مقروض۔ ڈاکٹر صفدر محمود‘‘ کا اختتام اس شعر پر ہوا تھا۔
نایاب ہوتے جارہے ہیں ان کی قدر کرو
اک عہد کا انعام ہوتے ہیں یہ لوگ
کئی دوستوں نے پوچھا ہے کہ یہ شعر کس کا ہے؟ میرے خیال میں توکسی کا بھی نہیں۔ کالم اختتام کو پہنچا تو یہ دو مصرعے ازخود ہی قلم سے پھسل گئے تو فی الحال اسے میرا ہی سمجھ لیجئے۔ وہ بھی واحد اور اکلوتا، کیونکہ بنیادی طور پر میں شاعر نہیں ہوں۔
تازہ ترین