• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہی دفعہ میں پھیپھڑوں کے کینسر علاج کیلئے روبوٹک طریقہ علاج

لندن (پی اے) ماہرین کا کہنا ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ میڈیکل ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے نتیجے میں روبوٹک طریقہ علاج کے ذریعے ایک ہی دفعہ میں پھیپڑوں کے کینسر کی تشخیص اور علاج ممکن ہوجائے گا اور ایک ہی نشست میں کینسر سے متاثرہ حصہ نکالا جاسکے گا۔ اس طریقے کے ذریعہ ڈاکٹر کینسر کی تشخیص کے بعد پھیپھڑوں سے متاثرہ حصے کو نکال سکیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج کی کامیابی سے مریضوں کو تشخیص وعلاج کیلئے طویل دورانئے سے نہیں گزرنا پڑے گا جبکہ این ایچ ایس میں بھی علاج کے منتظر  مریضوں کی تعداد میں کمی ہوجائے گی۔ اس طریقہ علاج کے تحت پہلے مریض کا سی ٹی اسکین کیا جائے گا اور پھر تفصیلی 3D تفصیلات کیلئے منہ سے کینسر کی جگہ پر ایک باریک نلکی یا کیتھیٹر کو، روبوٹ جس کو گائیڈ کریں گے، ڈالا جائے گا اور جب کینسر کی اصل جگہ کا پتہ چل جائے گا تو مائیکرو ویو کے ذریعے گرمی پہنچا کر یا اسے کاٹ کر مریض کو اس نجات دے دی جائے گی۔ رائل برامپٹن ہسپتال کے کنسلٹنٹ پروفیسر Pallav Shah کا کہنا ہے کہ ہم کینسر کا گچھا احتیاط کے ساتھ باہر نکال لیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے اس طریقہ علاج سے جس پہلی خاتون مریض کا علاج کیا، وہ انتہائی دلچسپ تھا، اسے پہلے ہی سے پھیپھڑوں کا کینسر تھا اور وہ اس کیلئے کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی کرا رہی تھیں، اسی دورن ایک ریڈی ایشن فیلڈ نظر آئی، جس کے بعد وہ مزید ریڈیو تھراپی نہیں کراسکتی تھی اور اس کی سرجری بھی ممکن نہیں تھی، ہمیں millimetre precise کا سہارا لینا پڑا، اب 6ماہ ہوچکے ہیں، وہ صحتیاب ہورہی ہے۔ انھوں بتایا کہ ہماری ٹیم نے اس کے بعد سے اب تک مزید 6 مریضوں کا علاج کیا، عام طورپر اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں لیکن ابھی ابتدا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ موجودہ طریقہ علاج کے ذریعے پہلے سی ٹی اسکین کے ذریعے مریض کی کینسر کی جگہ کا تعین کر کے جلد کے ذریعے ایک سوئی جسم میں داخل کی جاتی ہے، اس کیلئے ہمیں متعدد مرتبہ کوشش کرنا پڑتی ہے اور اس عمل میں عام طور پر ایک گھنٹہ اور کبھی ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے لیکن اس سے پھیپھڑوں میں سوراخ ہوجانے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ اگرچہ ablation کے عمل میں صرف 3 منٹ لگتے ہیں لیکن پورے عمل میں 40سے 45 منٹ لگ جاتے ہیں، جب پتلی نلکی منہ کے ذریعے سانس کی نالی میں ڈالی جاتی ہے تو ڈاکٹروں کو کینسر کے گچھے کا معائنہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور اس سے پھیپھڑوں کے کینسر کی 65فیصد تک درست نشاندہی ہوجاتی ہے، تاہم روبوٹ کو شامل کرنے سے کامیابی کی شرح میں ڈرامائی اضافہ ہو کر شرح 95 فیصد تک ہو جانے کا امکان ہے اور ہمیں توقع ہے کہ مستقبل میں ایک ہی بیٹھک میں ہم کینسر کی تشخیص اور اس کا علاج ایک ساتھ ہی کرسکیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ فی الوقت پھیپھڑوں کے کینسر کے 32 ایسے مریضوں کا علاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن کی سرجری ممکن نہیں ہے، اگلے مرحلے میں ان لوگوں پر تجربہ کیا جائے گا، جن کی سرجری ہوسکتی ہے، فی الوقت استعمال کی جانے والی ریڈیو تھراپی سے کینسر کے خلیوں کو ختم کیا جاتا ہے لیکن اس کے بہت سے سائیڈ افیکٹس بھی ہوتے ہیں، جن میں سے ایک پھیپھڑوں کے بافتوں کی سوزش یا پھیپھڑوں کا ورم بھی ہے، جس سے سانس آنا رک سکتی ہے۔ این ایچ ایس کے مطابق برطانیہ میں ہرسال کم وبیش 43,000افراد پھیپھڑوں کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پروفیسر شا کا کہنا ہے کہ عام طورپر ہم اسی وقت کینسر کے گچھے کو چھیڑ سکتے ہیں، جب وہ 10ملی میٹر سے بڑے ہوں یا مشکوک تبدیلیا ں رونما ہورہی ہوں یا وہ بڑھ رہے ہوں، اگر وہ 6 اور 10ملی میٹر کے درمیان ہوں تو ہم 3 ماہ میں اس کا سی ٹی اسکین کراتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے لیکن کینسر کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ فی الوقت کینسر کا پتہ چلانے کیلئے پہلے اسکریننگ کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے اور ابتدائی طورپر بننے والے گچھوں کا کوئی موثر علاج موجود نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت فائدہ ہوگا۔ پروفیسر شا کا کہنا ہے کہ این ایچ ایس میں اس طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال ایک پیچیدہ صورت حال ہوگی۔ روبوٹک علاج بہت مہنگا ہوگا لیکن آپ وسیع تناظر میں دیکھیں تو اس سے آپ کا بہت سا وقت بچے گا اور اگر این ایچ ایس میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم ٹیومرز کا ابتدائی مرحلے میں پتہ چلالیں تو ان کا علاج جلدی ہوجائے گا اور کیموتھراپی پر خرچ ہونے والا بھاری خرچ بچ جائے گا۔

یورپ سے سے مزید