• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے تقریباً سواسو بچوں کی ہلاکت دل دہلادینے والا سانحہ ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا ہے کہ یہ صورت حال انتظامیہ کی غفلت کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے۔تاہم آخری دستیاب اطلاعات کے مطابق قحط زدہ صحرائے تھر میں وزیر اعلیٰ کے احکامات کے باوجود گندم کی تقسیم سمیت امدادی کارروائیاں حسب ضرورت شروع نہیں ہوسکی تھیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس انسانی المیے کا نوٹس لے لیا ہے جس سے یہ جاننے میں یقینا مدد ملے گی کہ اس صورت حال کے اصل اسباب کیا ہیں اور ان کا ازالہ کیسے کیا جانا چاہیے۔تاہم اس حوالے سے ریاست اور حکومت کی ذمے داریاں بالکل واضح ہیں۔ پاکستان کو متعدد سنگین چیلنجوں کا سامنا ہونے کے باوجود یہ اللہ کی خصوصی مہربانی ہے کہ اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی کا یہ ملک بڑی مدت سے خوراک کے معاملے میں پوری طرح خود کفیل ہے۔قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دس گیارہ برسوں میں غذائی قلت ملک کا ایک بڑا مسئلہ تھی اور اکثر حکومتیں اس مسئلے پر قابو پانے میں ناکام رہنے کی بناء پر ہی برطرف کی جاتی رہیں۔ لیکن اس کے بعد حکومتوں نے غذائی قلت کے خاتمے پر بھرپور توجہ دی جس کے نتیجے میں پچھلے کئی عشروں سے ہم اپنی بنیادی غذائی ضروریات میں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ دوسری طرف ضلع تھرپارکر اسی ملک کا حصہ ہے۔ اس کا کل رقبہ بیس ہزار مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے اور 1998ء میں اس وقت کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی دس لاکھ سے کم تھی۔ بارشیں ہونے کی صورت میں اس علاقے کے لوگ اپنی غذائی ضروریات بڑی حد تک خود ہی کاشت کر کے پوری کرلیتے ہیں لیکن خشک سالی کی صورت میں یہ خطہ قحط کا شکار ہوجاتا ہے۔ لیکن وقت سے پہلے مناسب انتظامات کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ محض فاقہ کشی کی وجہ سے کوئی شخص زندگی سے محروم ہو۔تھر کے اندرونی علاقوں تک جانے کے لیے اچھی سڑکیں اگرچہ اب تک موجود نہیں ہیں اس کے باوجود وہاں تک پہنچنا محال نہیں ہے۔ لیکن قحط زدہ بچوں کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ افریقہ کے کسی دور دراز ملک کے بچے ہوں۔ یہ کیفیت محض حکومتوں ہی کے لیے نہیں، ملک کے تمام رفاہی اداروں ، مخیر افراد اور بحیثیت مجموعی پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے مگر اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات ، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں نہ صرف انواع و اقسام کی ڈشیں تیار ہوتی ہیں بلکہ بہت بڑے پیمانے پر ضائع بھی ہوتی ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں لوگ قحط کے نتیجے میں موت کے منہ میں جارہے ہوں اور دوسرے حصوں میں خوراک کی یوں ناقدری ہورہی ہو تو اس کا مطلب اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ تھرپارکر کے غذائی بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ حکومت سندھ کے علاوہ وفاقی حکومت ، ملک کے فلاحی اداروں اور مخیر حضرات سب کو اس جانب بلاتاخیر متوجہ ہونا چاہیے۔ معروف سرمایہ کار ملک ریاض نے تھرکے لیے بیس کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ ملک میں ایسے اداروں اور افراد کی کمی نہیں جو اس مسئلے کے فوری حل کے لئے اسی طرح پیش قدمی کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔حکومت کو تھرپارکر کے قحط زدگان کے لیے فوج اور دیگر اداروں کا تعاون حاصل کرکے ان تک امداد پہنچانے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کی مستقل تعمیر و ترقی کے لیے بھی خصوصی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ کوئلے ، گرینائٹ اور دیگر معدنیات سے مالا مال اس علاقے میں مواصلات کے نظام کو بہتر بناکر اور حالات کی مناسبت سے صنعتیں لگا کر اس کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبوں میں علاقے کے افراد کو روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جانی چاہئے۔ اس خطے کی ترقی کو اب تک کسی حکومت کی طرف سے ترجیحی اہمیت نہیں دی گئی۔وقت کا تقاضا ہے کہ اب کسی مزید تاخیر کے بغیر اس معاملے کو ترجیحی اہمیت دی جائے تاکہ تھر کا کوئی بچہ بھوک کی وجہ سے موت کا شکار نہ ہو۔
کنفیوژن سے کیسے نکلیں؟
طالبان سے مذاکرات کی نوعیت ، بات چیت میں فوج کی نمائندگی اور آپریشن کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آرہے ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اگر طالبان نے جنگ بندی کی مزید خلاف ورزی کی تو اس ماہ فوجی آپریشن ہوسکتا ہے اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ حکومتی کمیٹی میں فوج کے نمائندوں کی شمولیت سے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سمیت کئی سیاسی رہنما اتفاق نہیں کرتے جبکہ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا ایجنڈا فوج طے نہیں کرے گی۔ جماعت اسلامی کے امیر منورحسن نے کہا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لئے اب حکومت نے درست ٹریک اختیار کیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا جلد اعلان کیاجائے گا اور آئندہ ہفتہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کردیا جائے گا۔ مولانا سمیع الحق کہتے ہیں کہ طالبان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو دس سال میں بھی امن قائم نہیں ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں امن و امان کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے کوئی بھی دوسرا راستہ اختیار کرنے سے پہلے بات چیت کو پہلا موقع دینا چاہتے ہیں جہاں تک فوج کا تعلق ہے وہ حکومت کے احکامات کے مطابق آپریشن کرنے یا اس سے اجتناب کرنے پر پہلے بھی عمل پیرا تھی اور اب بھی وہ حکومت کے فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہے۔ اسلئے مذاکرات اور فوجی نمائندوں کی حکومتی کمیٹی میں شمولیت کے بارے میں جو کنفیوژن پیدا کیا جارہا ہے وہ قطعاً غیرضروری ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں وزیراعظم کو قیام امن کیلئے مذاکرات کرنے یا بصورت دیگر آپریشن کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا جس کے بموجب حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے رابطوں کے لئے ذریعے براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کی گئی مگر ایف سی کے 23جوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے ناگزیر ہوگئے تو طالبان کی خواہش پر مذاکرات کا ڈول پھر ڈالا گیا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ کنفیوژن دور کیا جائے اور تمام پارلیمانی لیڈروں کواعتماد میں لے کر واضح موقف اختیار کیاجائے۔

روپے کی مضبوطی
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے چند ہفتے پیشتر منافع کے لئے ڈالروں کاذخیرہ کرنے والے افراد کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے ذخیرہ کردہ ڈالر مارکیٹ میں لے آئیں کیونکہ اب اس کی قیمت میں کمی آنے والی ہے اس وقت ان کے اس دعوے پر یقین کرنے والے بہت کم تھے۔ اس وقت ڈالر 112روپے تک جا پہنچا تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی غیرمعمولی کمی دکھائی دے رہی تھی مگر جمعہ کو ڈالر گرتے گرتے 103کی سطح سے بھی نیچے آگیا تو ڈالر جمع کرنے والوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ لاکھوں کی تعداد میں اپنے ڈالر فروخت کرنے کےلئے بنکوں اورمالیاتی اداروں کے سامنے قطار اندر قطار کھڑے نظر آئیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ روپے کی قیمت میں آنے والی خوفناک پستی اور گراوٹ کی وجہ سے برآمد کنندگان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر لاکھوں ڈالر کا اسٹاک کر لیا تھا۔ لیکن اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضوں کی نئی قسط بھی ملنے والی ہے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت ملنے والی امداد کے بقایا جات بھی آرہے ہیں اور یہ توقع بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف ممالک کے ساتھ کئے جانے والے توانائی اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے کئے جانے والے درجنوں معاہدات میں سے اگر نصف بھی روبہ عمل آگئے تو اس سے ڈالر کے نرخوں میں مزید کمی آئے گی جس سے ملکی کرنسی اور قومی معیشت دونوں کو استحکام ملے گا۔موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے ڈالر کی پرواز کو روکنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ڈالر کو ایوان اقتدار میں آنے کے وقت کی قیمت یعنی 98 روپے تک لے جانے کا دعویٰ بھی سچ کردکھائے گی لیکن یہاں اس امر کی یاددہانی ضروری ہے کہ جب تک ملک میں امن و امان کی مکمل بحالی اور سرمایہ کاروں کو بھرپور تحفظ کا اہتمام نہیں ہوگا اس وقت تک وطن عزیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اورمعیشت کے استحکام کا خواب تشنہ ٔ تعبیر ہی رہے گا۔
تازہ ترین