• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمر چیمہ
عمر چیمہ | 14 مئی ، 2024

پراپرٹی لیکس: دبئی میں پاکستانیوں سمیت غیر ملکیوں کی تقریباً 400 ارب ڈالرز کی جائیدادوں کا انکشاف


ایک مشترکہ عالمی تحقیقاتی صحافتی پروجیکٹ نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے تجارتی مرکز دبئی میں دنیا بھر کی اشرافیہ کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں نامور سیاست دان، عالمی پابندی یافتہ افراد، منی لانڈررز اور جرائم پیشہ افراد سمیت کئی لوگوں کی جائیدادیں موجود ہیں۔ مذکورہ فہرست میں پاکستانیوں کا دوسرا نمبر ہے جن کی جائیدادوں کی مالیت 11 ارب ڈالر تک ہیں۔

"دبئی ان لاکڈ" کے نام سے ہونے والے یہ پروجیکٹ لاکھوں افراد کی دبئی میں جائیدادوں، انکی ملکیت اور استعمال کی معلومات پر مبنی ہے جس میں زیادہ تر 2020 سے 2022 تک کا ڈیٹا شامل کیا گیا ہے۔ تاہم کمپنیوں کے نام پر خریدی گئی جائیدادیں اور کمرشل علاقوں میں آنے والی جائیدادیں مذکورہ رپورٹ کے تجریے کا حصہ نہیں ہیں۔

جائیدادوں سے متعلق اعداد و شمار واشنگٹن میں موجود ایک این جی او سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفینس اسٹڈیز نے حاصل کیے ہیں۔ جس نے ناروے کے فنانشل آؤٹ لیٹ ای ٹوئنٹی فور اور آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) نامی تنظیم سے شیئر کیا جنہوں نے چھ ماہ کے تفتیشی پراجیکٹ پر کام کر کے جائیدادوں کے مالکان کا پتہ لگایا۔ تفتیشی پراجیکٹ پر 58 ممالک کے 74 میڈیا اداروں کے رپورٹرز نے کام کیا۔ تفتیشی پراجیکٹ سے دبئی میں حال ہی میں کم از کم ایک جائیداد خریدنے والے سزا یافتہ مجرموں، مفروروں اور سیاسی شخصیات کا پتہ لگایا گیا۔ پاکستان سے دی نیوز اور ڈان اس پروجیکٹ میں پارٹنر تھے۔

پراپرٹی لیکس کی فہرست میں شامل افراد میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کے تین بچوں، نواز شریف کے بیٹے حسین نواز، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہلیہ، پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن اور انکے اہل خانہ، سینیٹر فیصل واوڈا، فرح گوگی، شیر افضل مروت، سندھ سے تعلق رکھنے والے 4 اراکین قومی اسمبلی جبکہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 6، 6 اراکین صوبائی اسمبلیوں کے نام ہیں۔ پاکستانیوں کی فہرست میں مرحوم جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ایک درجن سے زائد سابق جنرلز، ایک پولیس چیف، ایک سفارتکار اور ایک سائنسدادن کا نام شامل ہے۔ یہ تمام افراد یا تو خو بلاواسطہ دبئی میں جائیدادیں رکھتے ہیں یا پھر انکے بچوں اور شریک حیات کے نام پر جائیدادیں ہیں۔

سال 2014 میں آصف علی زرداری کو دبئی میں ایک جائیداد بطور تحفہ ملی تھی۔ تاہم 2018 میں جب انہوں نے اثاثے ڈکلیئر کیے تو اس وقت وہ یہ جائیداد کسی اور کو تحفہ میں دے چکے تھے۔ فیک اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری کے شریک ملزم عبدالغنی مجید نے 2014 میں اپنی جائیدادوں کی ڈکلیئریشن میں یہ کہا تھا کہ انہوں نے 32 کروڑ 90 لاکھ روپے کی جائیداد کسی کو تحفہ میں دی تھی، لیکن نہ تو انہوں نے اس جائیداد کی نوعیت اور نہ ہی اسکے وصول کنندہ کا نام بتایا تھا۔ تاہم جے آئی ٹی نے مارچ 2014 میں دبئی میں ایک پینٹ ہاؤس کی خریداری سے متعلق ایک میمو برآمد کیا تھا۔ تاہم اب پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ بالا جائیداد عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو تحفہ میں دی تھی جو انہوں نے پھر اپنی بیٹی کو تحفہ میں دے دی۔

اومنی گروپ کے چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود اور ان کی اہلیہ بھی ڈیٹا میں متعدد جائیدادوں کے مالک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ دی نیوز نے ان میں سے ایک کی قیمت کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ اسے 2013 میں 10 لاکھ 60 ہزار 626 اماراتی درہم (8 کروڑ پاکستانی روپے) میں خریدا تھا۔

سہراب دنشا بھی دبئی میں جائیداد کے مالک ہیں۔ انہوں نے 2015 میں ایک ولا خریدا تھا جس کی قیمت خرید 12 لاکھ 71 ہزار 888 اماراتی درہم (9 کروڑ 60 لاکھ پاکستانی روپے) تھی۔

مرحوم اسلم مسعود کے علاوہ مذکورہ تمام افراد کو سوال نامے بھیجے گئے تھے لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔

منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے شکار الطاف خانانی نیٹ ورک بھی اس فہرست میں سامنے آیا ہے۔ ان کا بیٹا، بیٹی، بھائی اور بھتیجا دبئی میں متعدد جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ان میں سے تین افراد کو پابندیوں کا سامنا ہے۔

ایک اور قابل ذکر کردار راولپنڈی میں مقیم معالج حامد مختار شاہ ہیں جن پر پاکستانی مزدوروں کے اغوا، حراست اور ان کے گردے نکالنے میں ملوث ہونے کی وجہ سے امریکہ نے پابندی عائد کی تھی۔ وہ بھی متعدد جائیدادوں کے مالک کے طور پر اس فہرست میں سامنے آئے ہیں۔

پراپرٹی لیکس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہلیہ دبئی میں جائیداد کی مالک ہیں۔ تاہم محسن نقوی نے رواں برس مارچ میں سینیٹ الیکشن کےلیے جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی میں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا۔

پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا کے مطابق محسن نقوی کی اہلیہ کا عربین رینچز میں ایک پانچ کمروں کا ولا ہے جس کا وہ 6 لاکھ درہم (4 کروڑ 50 لاکھ روپے) کرایہ وصول کرتی ہیں۔ ریکارڈز کے مطابق یہ ولا انہوں نے اگست 2017 میں خریدا تھا۔ یہ ولا اپریل 2023 تک انکی ملکیت تھا جو انہوں نے 45 لاکھ 50 ہزار درہم (34 کروڑ 40 لاکھ روپے) میں فروخت کیا تھا۔

دا نیوز اور دیگر اداروں کو دستیاب ڈیٹا کے اعتبار سے محسن نقوی کی اہلیہ کا نام اس فہرست میں صرف ایک مرتبہ سامنے آیا ہے جس کا ذکر ابھی کیا گیا ہے۔ تاہم اگر دبئی لینڈ ریکارڈ سے رہنمائی لی جائے تو وہ ابھی بھی دبئی میں جائیداد کی مالک ہیں۔

میڈیا پارٹنر کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں محسن نقوی کی اہلیہ نے وضاحت دی تھی کہ انہوں نے دبئی میں رواں برس جنوری میں ایک جائیداد خریدی تھی، یہ اس وقت خریدی گئی تھی جب محسن نقوی نگراں وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ دو ماہ بعد وہ سینیٹ کے انتخابات میں امیدوار بنے اور دبئی میں موجود جائیداد کو ڈکلیئر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ محسن نقوی کی اہلیہ نے سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ یہ جائیداد رواں مالی سال کے ٹیکس گوشوارے میں ڈکلیئر کی جائیگی۔

ماہرین اقتصادیات اور نامہ نگاروں کی جانب سے مرتب کیے گئے ڈیٹا لیک کے مطابق دبئی میں غیر ملکیوں کی ملکیتی رہائشی جائیدادوں کی تعداد میں بھارتی شہری پہلے نمبر پر ہیں۔ 29 ہزار 700 بھارتی شہریوں نے دبئی میں 35 ہزار جائیدادیں خریدی ہوئی ہیں جن کی مالیت کا اندازہ رواں برس ہی 17 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

پاکستانی شہری دبئی میں جائیدادیں خریدنے میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 17 ہزار پاکستانی شہری دبئی میں 23 ہزار جائیدادوں کے مالک ہیں جس کی مالیت کا اندازہ 11 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اوسطاً ایک پاکستانی کی دبئی میں 4 لاکھ 10 ہزار ڈالر (ایک کروڑ 14 لاکھ پاکستانی روپے) کی جائیداد موجود ہے۔

ڈیٹا کے مطابق دبئی میں دنیا کے 204 ممالک سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ کی دبئی میں موجود کل جائیدادا کی مالیت 386 ارب ڈالر (10 ہزار 73 کھرب روپے) بنتی ہے۔

پراپرٹی لیکس ڈیٹا میں ہر پراپرٹی کی کنٹرولنگ پارٹی بھی شامل ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شناختی معلومات جیسے اس کی تاریخ پیدائش، پاسپورٹ نمبر اور قومیت شامل ہوتی ہے۔ کچھ معاملات میں ڈیٹا نے مالکان کے بجائے کرایہ داروں کو شامل کرلیا تھا کیونکہ یہ ڈیٹا زیادہ تر سرکاری دستاویزات کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی کمپنیوں سے آیا تھا۔

پروجیکٹ کے رپورٹرز نے صرف ان معاملات میں مالکان کے نام ظاہر کیے ہیں جو مفاد عامہ کو پورا کرتے ہیں۔ اس فہرست میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو سزا یافتہ ہیں یا کیسز میں نامزد ہیں، جو پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہ سرکاری اہلکار ہیں یا ان کے ساتھی ہیں، اس میں وہ بھی شامل ہیں جن پر بدعنوانی کے الزامات ہیں یا انہوں نے اپنی جائیدادیں عوام سے چھپا کر رکھی ہوئی ہیں۔

صحافیوں نے ڈیٹا کو ایک نقطہ آغاز کے طور پر دبئی میں غیر ملکیوں کی املاک کی ملکیت کے طول و عرض کو تلاش کرنے کےلیے استعمال کیا۔ انہوں نے لیک ڈیٹا میں سامنے آنے والے افراد کی شناخت اور ان کی ملکیت کی حیثیت کی تصدیق کرنے کےلیے مہینوں سرکاری ریکارڈ، اوپن سورس ریسرچ، اور دیگر لیک شدہ ڈیٹا سیٹس کی چھان بین میں گزارے۔ رپورٹرز نے صرف ان لوگوں کو پروجیکٹ میں شامل کیا جن کی شناخت کی آزادانہ طور پر دوسرے ذرائع سے تصدیق کی جا سکے۔

پروجیکٹ میں دبئی کی آفیشل لینڈ رجسٹری کا استعمال بھی کیا گیا تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ ڈیٹا میں ظاہر ہونے والے افراد اب بھی جائیداد کے مالک ہیں یا نہیں۔ کچھ گجہوں پر رپورٹرز ملکیت کی حیثیت کا تعین کرنے میں ناکام رہے کیونکہ ایسی جائیدادیں حال ہی میں فروخت کی گئی تھی۔ تاہم ان معاملات میں دبئی میں جائیداد رکھنے والے ایسے افراد کی تصدیق کےلیے اضافی کوششیں کی گئیں جن میں بشمول رئیل اسٹیٹ کے لین دین رینٹل ڈیٹا بیس کا بھی استعمال کیا گیا۔ 

وضاحت

جنگ اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہے کہ پاکستان سے باہر کسی فرد کا کسی جائیداد کا مالک ہونا ازخود کوئی غیر قانونی سرگرمی نہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس بیرون ملک جائیدادیں ہوتی ہیں کیونکہ یا تو انہوں نے بیرون ملک کام کیا ہوتا ہے یا ان اثاثوں کو خریدنے کے لیے اپنی ٹیکس شدہ آمدن کا استعمال کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کے متعلقہ ملکوں میں ٹیکس حکام کےلیے ہے کہ وہ معاملے کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کریں۔

جنگ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دبئی اسلامی دنیا میں ترقی اور جدت کی علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے متحرک کاروباری مراکز اور بزنس دوست ماحول نہ صرف لاکھوں پیشہ ور اور کاروباری افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، بلکہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ تاہم، کسی بھی بڑے عالمی شہر کی طرح، دبئی کے بھی اپنے چیلنجز ہیں۔ ہر کمیونٹی کے کچھ لوگ ذاتی فائدے کےلیے قوانین کا غلط استعمال کر کے نظام کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے یہ اقدامات شہر کی مجموعی عظمت یا اقدار یا اس کی حکمرانی کی عکاسی نہیں کرتے۔