• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیو لیکس کیس، پیغام ملا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر، کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، اٹارنی جنرل، صرف ان کیمرا بریفنگ کا کہا گیا، وزیر اطلاعات

اسلام آباد (جنگ نیوز،مانیٹر نگ سیل) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو خط لکھا گیا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاپ آفیشل کا پیغام ملا کہ سرویلینس کے طریقہ کار کی اسکروٹنی سے پیچھے ہٹ جاؤ، میں نے دھمکی پر کوئی توجہ نہیں دی، مجھے نہیں لگا کہ ایسے پیغامات نے انصاف کی فراہمی میں نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا کیا، متعلقہ وزارتیں، ریگولیٹری باڈیز، آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے کو نوٹس کیے، جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، کسی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افسر نے براہ راست رابطہ کیا نہ کرسکتے ہیں، ایسا تاثر دیا جارہا عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہیں،وفاقی وزیر قانون نے کہا خط سے تاثر دیا گیا کہ عدلیہ میں اداروں کی مداخلت ہورہی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کسی نے نہیں کہا پیچھے ہٹ جائیں، صرف ان کیمرا بریفنگ کا کہا گیا، ایک معاملے پر قومی سلامتی پر سوالیہ نشان نہیں اٹھانا چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے اپنے خلاف منفی سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط میں انکشاف کیا ہے کہ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلی حکام کی جانب سے پیچھے ہٹ جانے کے پیغامات موصول ہوئے۔ ذرائع کے مطابق جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ میں نے ایسے دھمکی آمیز حربے پر کوئی توجہ نہیں دی، میں نے یہ نہیں سمجھا کہ ایسے پیغامات سے انصاف کے عمل کو کافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق خط میں لکھا گیا ہے کہ آڈیو لیکس کیس میں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں کو عدالت نے نوٹس کیے، متعلقہ وزارتیں، ریگولیٹری باڈیز، آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے کو نوٹس کیے، عدالت نے پی ٹی اے اور پیمرا کو بھی نوٹس کیے تھے۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کے خط کے حوالے سے وضاحت جاری کی ہے۔ اپنے ویڈیو بیان میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے خط کے حوالے سے وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ریاست کی کچھ حساس معلومات ہوتی ہیں، حساس معلومات کے حوالے سے اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل رابطہ کرتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید