جب کبھی ہم شعور کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوشش کر رہے تھے، تو اس وقت فقط یہی معلوم تھا کہ اسپتالوں کے کونے میں ایک بلڈنگ ہوتی ہے جہاں سب سے پہلے مریض لے جایا جاتا ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ اس نے وارڈ میں جانا یا لاہور یا اوپر ؟ جب شعور رینگتا رینگتا اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں جُت گیا تو معلوم ہوا، یہاں ہر کوئی ایمرجنسی میں ہے، اور حکومتیں بھی، ایمرجنسی وارڈ ہی نہیں ہوتی، ایمرجنسی تو پورا ایک’’نظام‘‘ ہے جو بدانتظامی کی پاداش میں چلتا ہے یا شُترِ بے مَہاری کے بل بوتے پر !
عموماً ہمارے ہاں سیاسی بلوغت تک پہنچنےسے قبل ہی عام ہی نہیں خاص بھی لقمہ اجل بن جاتا ہےبھلے ہی وہ اَسی سال کا ہو کر پیوندِ خاک ہو ، سیاسی نشوونما ہوئی تو اس ایمرجنسی کو بھی جانا جس کو نقصِ امن کے سبب وجود میں لایا جاتا اور دفعہ 144کا اطلاق ہوتا ہے، پھر دفعہ 188 کے تحت ایک آدھ ماہ کی سزا اور جرمانہ بھی سنا۔ یہ ایمرجنسی کبھی تو ہزیمت ہوئی اور کبھی غنیمت بہرحال ایمرجنسی سے تین قسم کا رشتہ رہا جس میں منافقت، کافری اور مومن کے رشتے قابلِ ذکر ہیں۔ پولیو کے خاتمے کی ایمرجنسی گر پولیو وائرس کیلئے دیکھی تو سیاسی ایمرجنسی سیاسی وارث یا سیاسی وائرس کی روک تھام کیلئے تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے قیام پاکستان سے قبل انگریز اسے شخصی آزادی یا فکری محاذ اور احتجاج کے خلاف استعمال کرتا لیکن آج ہم اور ہمارے فرماں روا بہت’’باشعور‘‘ہو چکے کہ اس ایمرجنسی کو ہم تعلیمی ایمرجنسی کے نام سے بھی منانے ( سیلیبریٹ) کے درپے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے پر تول لیےہیں جسکی اڑان جلد ہی منظرعام پر دکھائی دے گی۔قوم کو مبارک ہو کہ وزیراعظم کی ہدایت پر قومی ایمرجنسی کا خاکہ بہرحال تیار کر لیا گیا ہے۔ لیکن دوسری جانب پنجاب میں عالم یہ ہے کہ وزیراعظم کی بھتیجی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف نے پنجاب کے وزیر ہائیر ایجوکیشن کا خاکہ تیار نہیں کیا۔ اگر تو اس پنجاب کے خاکہ میں پرویز رشید، مریم اورنگزیب اور اور عظمیٰ بخاری جیسے معززین ہی کا عمل دخل رہنا ہے یا تین بیوروکریٹس ہی نے ساقیِ اعلیٰ تعلیم رہنا ہے تو پھر خاک ہو جائے گی اعلیٰ تعلیم ،وزیرِ اعلیٰ کو خبر ہونے تک۔ ہمیں قبلہ پرویز رشید کے ڈیموکریٹ اور انسانی حقوق کے علمبردار ہونے پر رتی برابر شک نہیں لیکن وہ صوبہ کو بالعموم اور اور ہائیر ایجوکیشن کو بالخصوص چلا پائیں گے اس کی ہمیں زیادہ امید نہیں ۔
لیڈر شپ جمہوری راہوں کی متلاشی ہوتی ہے اور باس ہمیشہ آمرانہ روش پالنے پر انحصار کرتے ہیں۔ پنجاب میں ہائیر ایجوکیشن کو آپ لیڈر شپ نہ دیں’’ باسز‘‘ دیں اور مرکز میں قومی تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ مستانہ بلند کریں تو بات بنتی نہیں ہے ! مسئلہ کیا ہے ، جناب ! کیا کوئی قحط الرجال ہے یا کوئی اپنا وہم ہے درمیاں ؟ پنجاب میں ماضی میں، رانا مشہود احمد خان سی اچھی تعلیمی قیادت رہی، پھر ایک دفعہ آپ نے رضا علی گیلانی کو موقع دیا وہ بھی ٹھیک رہے ( یہ آج کل آزاد ایم این اے ہیں )۔ امید ہے اہل نظر نے اس پر تو یقیناً سوچا ہو گا جب پچھلے دنوں عزت مآب چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کہا ہےکہ’’یونیورسٹیاں پاکستان کامستقبل ہیں لیکن انہیں منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔‘‘ پھر یہاں تک کہا کہ بیوروکریسی مکھیاں مارتی ہے... جان کی امان پرعرض کریں کہ پاکستان کی تاریخ میں، پنجاب میں وائس چانسلرز کا سب سے بڑا چناؤ ہونے جارہا ہے جس کی باگ ڈور ماہر تعلیم یا سیاسی دانشمندوں کے بجائے حاضر سروس اور ریٹائرڈ بیوروکریسی کے دست مبارک میںہے۔ ایک سازش کے تحت 18ویں ترمیم کے تحت وجود میں آنے والے پنجاب کے اکلوتے نمائندہ ادارےپنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اس چناؤ سے بیوروکریسی وزیرِ اعلیٰ سے جھوٹ بول کر عملاً باہر رکھنا چاہتی ہے۔ کیوں؟ بہانا یا غلط فہمی؟ ہےکیا ؟ ہر میٹنگ میں وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھے قبلہ پرویز رشید کو نہیں معلوم کیا ؟ ہم تو دست بستہ فریاد کرتے ہیں کہ سرچ کمیٹی کو بیچ میں لائیں ہی نہ اور ایکٹ ویکٹ اور ضابطہ میں تھوڑی بہت تبدیلی لا کر سیاسی قیادت براہِ راست چناؤ کر دے۔ اس سے کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اچھا ہو یا برا سیدھا وزن سیاسی قیادت کے کندھوں پر آئے گا، اور وہ جواب دہ بھی ہو گی۔ (لیکن جہاں وزیر ہائیر ایجوکیشن ہی نہ ہو ؟) بہرحال 18ویں ترمیم کے بعد وزیر اعلیٰ ہائیر ایجوکیشن کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ایک مکمل صوابدیدی اختیار بھی ۔ بسم اللہ کیجئے ، کیجئے استعمال !
سپریم کورٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل 154 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں اور 66 یونیورسٹیاں ایکٹنگ وائس چانسلرز چلا رہے ہیں یا وی سی کے عہدے خالی ہیں۔ وفاق کی 29 یونیورسٹیوں میں24 پر مستقل وی سی ہیں اور 5 میں نہیں۔ بلوچستان کی 10 میں سے 5 ویں سیز رکھتی ہیں، 5 میں ایکٹنگ نظام ۔ خیبر پختونخوا کی 32 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10 پر مستقل وی سیز موجود تاہم 16 پر اضافی چارج جبکہ 6 خالی۔ ( سابق نگراں وزیر تعلیم نے راقم کو تو بتایا تھا سلیکٹ کر کے اوپر نام بھجوادیئے ) پنجاب کا یہ عالم کہ 49 سرکاری جامعات میں صرف 20 وی سیز جلوہ افروز 29 کا اللہ حافظ۔ سندھ کی صورت حال بہتر کہ 29 میں سے 24 کو سربراہ میسرصرف 5 زیرِ عتاب!
خدا کرے کہ اب یہ قومی تعلیمی ایمرجنسی کارگر ہو۔ باہر بیٹھے بچوں کوہی اسکول میں نہ لائیں مردہ کالجوں کو زندہ کریں اور ان میں سینکڑوں کو پرنسپلز بھی ملیں:’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن... خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘دعا یہ بھی ہے کہ کوئی اور ایمرجنسی در ایمرجنسی کا دریچہ نہ کھل جائے!