صوبۂ بلوچستان کا ضلع نوشکی، اپنی مخصوص موسمی اور جغرافیائی ساخت کے اعتبار سے پورے خطّے میں انفرادی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخی پس منظر کا یہ شاہ کارضلع، صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ کے جنوب مغرب میں 144 کلومیٹر کی مسافت پر پاک، افغان سرحد پر واقع ہے۔ پاکستان کو ایران کے راستے ترکی اور یورپی مُمالک سے ملانے والی ’’پاک، ایران قومی شاہ راہ‘‘ کے علاوہ ’’پاک ایران ریلوے ٹریک‘‘ بھی یہیں سے گزرتا ہے۔
ضلع نوشکی کا بیش تر حصّہ لق و دق صحرا اورپہاڑوں پر مشتمل ہے، لیکن ان صحرائوں اور پہاڑوں کی آغوش میں بہت سے حسین و دل کش قدرتی تفریحی مقامات بھی موجود ہیں اور ان ہی میں ’نوشکی کے جنوب مغرب میں واقع ’’زنگی ناوڑ‘‘ بھی شامل ہے، جو اپنی دل کشی اور سحر انگیز حُسن کی وجہ سے مشہور ہے۔ ”ناوڑ“ دراصل بلوچی زبان میں ”جھیل“ ہی کو کہتے ہیں اور اسی وجہ سے مقامی افراد اِسے ”زنگی ناوڑ“ جب کہ غیر مقامی ”زنگی جھیل“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
چاروں طرف سے ریگستان میں گِھری، تقریباً 1100 ایکڑ رقبے پر مشتمل، وسیع و عریض، خُوب صُورت ’’زنگی ناوڑ‘‘ ماضی میں کبھی مختلف پرندوں اور جنگلی حیات کا مسکن ہوا کرتی تھی اور آبی پرندوں بطخ، چنکارا، انڈین گزیل، ماربلڈ ٹیل، وائٹ ٹیلڈ سمیت دیگر بہت سے قیمتی و نایاب پرندے، جھیل کے خُوب صُورت ماحول کا حصّہ ہوا کرتے تھے، جو ہزاروں کی تعداد میں یہاں کی فضائوں میں اُڑتے پھرتے تھے۔
نیز، ان کی بڑے پیمانے پر افزائش نسل بھی یہیں ہوتی تھی۔ تاہم، موسمی تغیّرات، بے دریغ غیرقانونی شکار اور حکومتی عدم دل چسپی کے باعث اب صُورتِ حال یک سَر بدل چُکی ہے۔ آج اس جھیل پر، دیگر مُمالک اور خطّوں سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد خاصی محددود ہوگئی ہے۔
یاد رہے، پرندوں کی طویل فاصلے کی ہجرت بین الاقوامی سرحدوں سے مبّرا ہے۔ کچھ پرندے موسمِ سرما میں، شمال میں موجود اپنے افزائشِ نسل کے علاقوں سے جنوب کے گرم میدانوں کا رُخ کرتے ہیں، تو کچھ موسمِ گرما میں شمال کے پہاڑی علاقوں سے ہجرت کرکے دریائے سندھ کے میدانوں یا جنوب کے گرم میدانوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔
جب کہ پرندوں کی ایک بڑی تعداد موسمِ خزاں میں سائبیریا، رُوس اور ملحقہ علاقوں سے ہجرت کرکے وسطی مشرقی مُمالک کا، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، رُخ کرتی ہے۔ دراصل برصغیر میں مون سُون کے موسم کے بعد حشرات اور نباتات پر مبنی خوراک کی بڑے پیمانے پر دست یابی بھی ’’Palearctic Region‘‘ (قلب شمالی کے معتدل خطّے) کے مہمان پرندوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
موسمِ سرما کے آغاز ہی سے سائیبریا سے بڑی تعداد میں مختلف اقسام کی مرغابیاں اور دیگر اقسام کے پرندے کچھ عرصہ زنگی ناوڑ میں قیام کرتے ہیں، جس سے اس جھیل کی رونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ پھر موسمِ گرما کے شروع ہوتے ہی یہ پرندے واپس سائبیریا لوٹ جاتے ہیں۔ اگر وائلڈ لائف اور محکمۂ جنگلی حیات ان پرندوں کے تحفّظ کے لیے کچھ اقدامات کریں، تو ان قیمتی پرندوں کی اِن علاقوں میں وقتی رہائش کے دوران بھی افزائشِ نسل ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں، پرندوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے سے نہ صرف جھیل کی رونقیں عروج پر پہنچ سکتی ہیں، بلکہ علاقے میں سیّاحت کو فروغ بھی دیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے، ستمبر سے سائیبیرین اور دیگر سرد مُمالک سے ہجرت کرکے پاکستان، بھارت اور دوسرے گرم ایشیائی مُمالک جانے اور مارچ میں دوبارہ گرم علاقوں سے سائبیریا لوٹ جانے والی بطخوں اور پرندوں کے اس مسکن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ماضی میں بیک وقت Marbled Tealکے ایک سو سے زائد افزائشی جوڑے دیکھے گئے۔ بہرکیف، آج بھی پرندوں کی ہجرت کا یہ سلسلہ ہر سال فروری اور مارچ کے وسط تک جاری رہتا ہے۔
’’زنگی ناوڑ‘‘ کی خُوب صُورتی اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک برطانوی مؤرخ، رابرٹ نسبیٹ بین (Robert Nisbet Bain) نے اس جھیل سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’یہاں کے باشندوں کے لیے’’زنگی ناوڑ‘‘ قدرت کا ایک اَن مول تحفہ ہے، اگر یہ اپنے ساتھ لے جانے والی چیز ہوتی، تو مَیں اِسے ضرور لے جاتا۔‘‘ تقریباً گیارہ سو ایکڑ پر مشتمل زنگی ناوڑ13چھوٹی بڑی جھیلوں پر مشتمل ہے، جنھیں انگریزی میں Lagoo اور بلوچی زبان میں کول کہتے ہیں۔
ان میں کول3سب سے بڑی جھیل ہے، جوچاروںطرف سے ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں میں گِھری ہوئی ہے۔ یہ آس پاس رہنے والے خانہ بدوشوں اور ان کے مویشیوں کے لیے پانی کے حصول کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ اس جھیل میں بارشوں کے بعد’’دریائے لوراہامون‘‘ سے سیلابی ریلوں کی شکل میں آنے والا پانی وسیع رقبے پر پھیل جاتا ہے، جس سے زنگی ناوڑ اور ڈاک کے اطراف لاکھوں ایکڑ اراضی بھی سیراب ہوتی ہے۔
دریائے لورا کوئٹہ سے ہوتا ہوا شمال کی طرف بڑھتا ہے، پھر افغانستان میں داخل ہوجاتا ہے، لیکن شنید ہے کہ اس علاقے کے ماحولیاتی نظام کو توانائی بخشنے والے اس دریا پر برج عزیز خان ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ زیرغور ہے، جس سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نوشکی اور چاغی کی لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہوجائے گی، لہٰذا مذکورہ اضلاع کے ماحولیاتی نظام کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دریائے لورا اور اس کے بیسن پر خصوصی توجّہ دے کرنوشکی اور چاغی کے قبائلی اور مقامی زمین داروں سے مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جائے۔
اکثرجاگیر دار، قدرتی تفریح گاہوں اور شکار گاہوں کو اپنی ذاتی جاگیراور میراث سمجھ لیتے ہیں، ان کی اجازت کے بغیروہاں کسی کا شکار کھیلنا تو درکنار، تفریح کی غرض سے قدم رکھنا بھی محال ہوتا ہے۔ تاہم، زنگی ناوڑ اس قسم کے بندھنوں سے بالکل آزاد ہے، اسی لیے یہاں غیر قانونی شکار بہت عام ہے اور اسی وجہ سے سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے متعدّد پرندے بھی اکثران شکاریوں کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اور اسی سبب ان نایاب پرندوں کی نسلیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔
بلاشبہ، ماحولیاتی نظام کا عدم توازن اور بگاڑ انسانی زندگی کو لاحق خطرات میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ بہرحال یہ حیاتیاتی تنوّع ہی بنی نوع انسان کے لیے زندگی اور خوش حالی کی بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعض افراد محض اپنے شوق کی خاطر کئی قیمتی و نایاب پرندوں کی نسلیں تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف حکومتی لاپروائی، بالخصوص محکمہ سیّاحت و ثقافت، محکمہ جنگلات اور ورلڈ لائف ایری گیشن کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث یہ جھیل بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے، حالاں کہ1982ء میں اسے ’’Game Reserve‘‘کی حیثیت دی گئی تھی، بعدازاں اسے’’Wildlife Sanctuary‘‘ کا درجہ بھی دیا گیا، مگر متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے باعث 42سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود زنگی ناوڑ کو’’Wetland‘‘کی حیثیت نہ مل سکی۔ حالاں کہ رام سر کنونشن کے Criteria 1a za zb اور 3a کے مطابق زنگی ناوڑ ’’Wetland‘‘ کے معیار پر پوری اترتی ہے۔
بہرکیف، ریگستان کے چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلوں کے پہلو میں واقع یہ وسیع عریض قدرتی جھیل مقامی قبائل اور حکومتی توجّہ کی منتظر ہے۔ ایک منفرد Wetland ایکو سسٹم، جو کہ اَن گنت متنوّع جنگلی حیات کا مسکن ہونے کے ساتھ ساتھ پورے خطّے میں ان کی افزائشِ نسل کی واحد اور آخری امید سمجھی جاتی ہے۔ یہ جھیل اگر مکمل طور پر بھر جائے، تو بیک وقت 90000 ہزار بطخیں اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ ہمارے گرد وپیش ہرلمحہ نت نئی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ جس ماحول میں ہم زندگی گزارتے ہیں، ہمہ وقت تبدیلیوں کی زَد میں رہتا ہے۔
تاہم، ان تبدیلیوں کی وجہ سے کبھی کبھار ماحول پر خوش گوار اثرات مرتّب ہوتے ہیں، جب کہ اکثر اوقات یہ تبدیلیاں ماحول کی حیات اور بقا کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ جب کہ بدقسمتی سے ان حیات دشمن تبدیلیوں کا سب سے بڑا عامل خود انسان ہے، یہاں تک کہ زنگی ناوڑ میں حیاتیاتی تنوّع اور سیّاحتی سرگرمیوں کو درپیش خطرات کا محرّک بھی انسان ہی ہے۔ لہٰذا جنگلی حیات کی نسلوں کو معدومیت سے بچانےاور اس دل کش تفریحی مقام کے حُسن کو مسخ ہونے سے بچانے کے لیے اربابِ اختیار کو جلد از جلد جھیل کو تمام تراہم بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرنا ہوگا۔
اس ضمن میں اپنی ذمّے داریوں کا احساس کرتے ہوئے چند ضروری اقدامات کی تو اشد ضرورت ہے، مثلاً جھیل تک جانے والی گزرگاہوں کے اِردگرد زیادہ سے زیادہ درخت، بالخصوص کھجور اور ناریل کے درخت لگائے جائیں۔ شکار کھیلنے پر جزوی پابندی کے علاوہ پرندوں کی افزائشِ نسل کے دوران مکمل پابندی عاید کی جائے۔
شکار کھیلنے کی فیس مقرر کی جائے۔ جھیل کے اِرد گرد ریسٹ ہائوس کی تعمیرکے علاوہ خُوب صُورت پارکس بناکر بچّوں کے لیے جھولے نصب کیے جائیں۔ نیز، جھیل کو’’Ramsar Site‘‘کا درجہ دینے کے بعد متعلقہ اداروں کی باہمی مشاورت سے ایک مربوط پلان ڈیزائن کرکے نوشکی کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر گام زن کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ زنگی ناوڑ سیّاحت کے فروغ کے ضمن میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا مذکورہ اقدامات سے نہ صرف یہ کہ سیّاحت کو فروغ حاصل ہوگا، بلکہ اس پس ماندہ علاقے کی معاشی حالت بھی بہترہوگی۔ ناوڑ جھیل کا قدرتی حُسن لوٹانے اور سیّاحتی مقاصد کے لیے اس کی تعمیر و ترقی اور بہتری کے لیے تمام اسیٹک ہولڈرز کو آگے آنا چاہیے، کیوں کہ اس قومی اثاثے کی کھوئی ہوئی عظمت لوٹانے سے نہ صرف علاقے کی معاشی ترقی، ماحولیاتی نظام کی پائیداری ممکن ہوگی بلکہ بالخصوص نوشکی کے عوام کو تفریحی سہولتیں بھی میسّر آسکیں گی۔
اس ضمن میں اگر جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری سہولتیں فوری فراہم کردی جائیں، تونہ صرف پاکستان، بلکہ پڑوسی مُمالک افغانستان اور ایران کے سیّاح بھی بڑی تعداد میں اس زنگی جھیل کا رُخ کریں گے۔