• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر ہے کہ تضادستان میں مارشل لا نافذ نہیں ہوا اسی لئے جمہوریت سے امیدیں وابستہ ہیں مگر ان امیدوں پر جمہوری ستونوں کی آپس میں لڑائی پانی پھیر رہی ہے۔ 

ایک طرف منتخب ایوانوں اور عدلیہ کے می لارڈز میں لفظی اور قانونی جنگ جاری ہے، دوسری طرف ہتک عزت کے قانون میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو خوامخواہ شامل کرکے میڈیا اور نون لیگ کے درمیان کشمکش شروع کردی گئی ہے، 

ان دو لڑائیوں سے بالاتر بڑی سیاسی لڑائی ہے جو حکومت اور تحریک انصاف میں جاری و ساری ہے اور پھر عظیم ترین ملا کھڑا، وہی سویلین بالادستی کی جنگ ہے جس میں آج کل تحریک انصاف سب سے آگے ہے اور اس ملاکھڑے کی اندرونی کہانی مقتدرہ اور کپتان خان کے درمیان کشمکش اور لڑائی ہے۔ 

جس ملک میں ایک ہی وقت میں سب لڑائیاں جاری ہوں، ملک کی معیشت کے حالات بھی خراب ہوں، ایک پڑوسی ملک سے مقابلے بازی ہو اور دوسرے پڑوسی ملک سے دہشت گرد آکر تباہی مچا رہے ہوں، وہاں اس طرح کی لڑائیاں جاری رہنے اور رکھنے کی کیا تُک ہے۔ 

اب سب لڑائیوں کو جاری رکھنے والے یا تو ہوش مند نہیں یا انہیں مستقبل کی فکر ہی نہیں یا پھر وہ اس قابل ہی نہیں کہ ان لڑائیوں کی آگ پر پانی ڈال سکیں۔

جمہوریت ایک کامیاب اور بھرپور نظام ہے آئین پاکستان جمہوریت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ منتخب ایوان جو عام لوگوں کی مرضی اور پسند سے منتخب ہوکر آتے ہیں انہیں قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمان کو ملک کے سب اداروں پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ قانون کے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں، اس کا درجہ ماں کا ہے۔ عدلیہ، پارلیمان کے بنائے قوانین اور آئین کی تشریح کرتی ہے۔ دونوں اداروں کی اساس جمہوری ہے لیکن اگر وہ سر پھٹول پر اتر آئیں تو دونوں اداروں کا پہلے اور پھر جمہوریت کا نقصان ہوگا۔ 

اس وقت صورتحال یہی ہے کہ منتخب ایوانوں میں ہمارے محبوب می لارڈز کو ہدف ِتنقید بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے می لارڈز، جسٹس کھوسہ نے جب نواز شریف کو سسلین مافیا کہا تھا اس وقت وہ خود کسی کی پراکسی تھے، یہ نہ ہو کہ کل کو منتخب نمائندوں اور می لارڈز کو جمہوریت کے کھونے کے بعد احساس ہو کہ وہ دونوں ہی کسی خاص مفاد کی پراکسی بن گئے تھے۔ 

جمہوریت کے ایک ادنیٰ چاہنے والے کی حیثیت سے دونوں فریقوں سے گزارش ہے کہ دور رس جمہوری اور آئینی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے جذبات کو ٹھنڈا رکھیں اپنی موجودہ پوزیشن سے دونوں پیچھے ہٹیں اور درمیانی راستہ اختیار کریں۔ 

ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ نہ تو منتخب نمائندوں کی ججوں کی طرف سے کی گئی نااہلیوں کو عوامی پذیرائی ملی اور نہ ہی حکومتوں کی طرف سے انصاف پسند می لارڈز کے خلاف لگائے گئے الزامات اور ریفرنسوں کو عوامی طور پر تسلیم کیا گیا، یہ دونوں رویے غلط ہیں، دونوں طرف کے انتہا پسند آگ لگا رہے ہیں اور فاختائیں پتہ نہیں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کر رہیں۔ 

یاد رکھیں کہ ملک عقابوں کی انتہا پسندی اور غیظ و غضب سے نہیں چلتے فاختاؤں کی امن پسندی اور مفاہمت سے چلتے ہیں جمہوریت تو ہے ہی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا نام۔ فاضل جج صاحبان اور محترم قانون سازاِن دونوں اپنے گھوڑوں کو روکیں، امن کی سرائے میں پناہ لیں اور جمہوریت کو چلنے دیں، کسی ایک کی عاقبت نا اندیشی کی سزا پورے ملک کو ملے گی۔ 

کیا تاریخ سے ہمیں یہ سبق نہیں ملتا کہ جس ملک میں اس قدر اندرونی لڑائیاں ہوں اور اس آگ پر تیل ڈالنے والے بھی کثرت میں ہوں اس ملک کےمستقبل کو تاریک ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ لڑائیوں کی جلتی آگ کو بجھانے کی کوئی سعی نہیں ہو رہی۔

ہمارا مین سٹریم میڈیا تو پہلےہی احکامات، قواعد و ضوابط اور جا بجا پابندیوں کے سبب سوشل میڈیا سے مقابلے میں ہارتا جا رہا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں گیٹ کیپنگ یعنی خبروں اور تجزیوں کو احتساب کی چھلنی میں گزارنے کا موثر نظام موجود ہے پیمرا کی ہر وقت نگرانی ہے حکومتی اداروں کی ہر وقت کی سرزنش ہے اور پھر عوامی اور عدالتی احتساب اسکے علاوہ ہے، ایسے میں مین سٹریم میڈیا کو ہتک عزت کے نئے قانون کا شکار بنانا اس کی آوازبند کرنے کے مترادف ہے۔ 

مین سٹریم میڈیا کیلئے کافی قوانین موجود ہیں سوشل میڈیا کیلئے نئے قوانین ضرور بنائے جائیں لیکن اس کیلئے بھی اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ ضرور کیا جائے۔

جمہوریت ہر شخص اور ادارے کو اپنے حقوق و اختیار کیلئے جدوجہد کی اجازت تو دیتی ہے لیکن کسی بھی فرد یا ادارے کو آئینی حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں دیتی ۔ میری ادنیٰ اور عاجزانہ رائے میں آج کل ہر ادارے اور معزز افراد کی طرف سے ان کی آئینی حدود سے تجاوز ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بحران بڑھ رہے ہیں اگر ہر ادارہ اور فرد اپنا احتساب کرے ایک قدم پیچھے ہٹے تو پاکستان کے سارے مسائل ایک ایک کرکے حل ہو سکتے ہیں؟

جمہوری معاشرے میں اگر ہم سب کو حقوق حاصل ہیں تو ہماری ذمہ داریاں بھی ہیں، اگر آئین نے صحافت کو اظہار رائے کی آزادی دی ہے تو دوسرے اداروں کے بارے میں بھی اس کی حدود کا تعین کیا ہے اس طرح سپریم کورٹ کو اگر آئین کی تشریح کا سب سے بڑا اور فائنل ادارہ قرار دیا ہے تو اس کی بھی حدود ہیں۔

 اگر بعض جج پارلیمان کا ہی مذاق اڑائیں، کروڑوں کے منتخب کردہ وزیراعظم کو 3 متعصب جج گھر بھیج دیں تو یہ حدود سے تجاوز ہے، اسی طرح کوئی می لارڈ چاہے وہ جتنا بھی بڑا ہوثاقب نثار کی طرح لوگوں کی بے عزتی کرے یا مذاق اڑائے یا آج کے ایک قابل احترام جج کی طرح لوگوں کو پراکسی کہے تو یہ اس کے منصب کے شایان شان نہیں اور پھر توہین عدالت کے نوٹس دے کر اپنی بڑائی، طاقت اور دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنے کی پرانی روایت بھی اب ختم ہونی چاہیے۔ 

خواجہ سعد رفیق کو لوہے کے چنے والا طعنہ، پی کے ایل آئی کے ڈاکٹر کی سرعام بے عزتی، نیشنل ڈیفنس ہسپتال کے مالک پر طنز، جسٹس کھوسہ کا وزیر اعظم کو سسلین مافیا کا حصہ قرار دینا اور جسٹس عظمت شیخ کی اڈیالہ جیل پہنچانے کی دھمکی ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوئی کہ ہمارے محبوب جج بھی اسی گھوڑے پر سوار ہوگئے جو بالآخر اچھل کود کے بعد سوار کو گرا دیتا ہے۔ 

براہ کرام ہر کوئی اپنی حد میں رہے اپنے جمہوری اور آئینی اختیار سے بڑھنا سراسر غلط ہے چاہے کوئی ’’بڑا تارڑ ہو یا کراچی کا اہم وڈا ، مامور من اللّٰہ ہو یا پھر پسر ستار‘‘۔ سب لڑنے والے بہرحال غلط ہیں....!

تازہ ترین