عالمی شہرت یافتہ پاکستانی گلوکار و اداکار علی ظفر نے امریکا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ میں آج روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مقابلے سے قبل ایک اہم مشورہ دیا ہے۔
علی ظفر نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر پاک بھارت ٹاکرے سے پہلے قومی کرکٹ ٹیم اور بالخصوص کپتان بابر اعظم کے لیے ایک ویڈیو پیغام شیئر کیا ہے۔
اُنہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جب بھی پاک بھارت میچ ہوتا ہے تو دونوں ممالک کے شائقین میں ایک خاص قسم کا جوش ہوتا ہے اور تھوڑی پریشانی بھی ہوتی ہے اسی لیے میں نے سوچا کہ میں اپنی ٹیم اور کپتان بابر اعظم کو ایک مفید مشورہ دے دوں شاید اس کا کچھ مثبت اثر ہو۔
گلوکار نے کہا کہ کرکٹ میچ میں ہار جیت ہونا اپنی جگہ ہے لیکن امریکا کے خلاف میچ میں ہم نے دیکھا کہ سُپر اوور میں بابر اعظم خود بیٹنگ کے لیے نہیں آئے بلکہ دوسرے کھلاڑیوں کو بھیج دیا تو یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ایک لیڈر میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بے خوف اور خود پر اعتماد کرنے والا ہوتا ہے۔
علی ظفر نے بابر اعظم کو سابق کپتان عمران خان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایک میچ میں آسٹریلیا کو آخری اوور میں پاکستان کے خلاف میچ جیتنے کے لیے صرف 4 رنز درکار تھے جو کہ آسٹریلین ٹیم بہت آسانی سے بنا کر میچ جیت سکتی تھی لیکن اس مشکل وقت میں عمران خان خود بولنگ کرنے کے لیے میدان میں آئے تھے۔
اُنہوں نے کہا کہ عمران خان کے اس اوور کو اگر باغور دیکھا جائے تو واضح نظر آئے گا کہ سابق کپتان نے اس اوور کی ایک ایک بال کو بہت ہی سمجھداری سے کروایا اور پاکستان کے لیے وہ میچ جیتا۔
گلوکار نے کہا کہ عمران خان کے اعصاب مضبوط تھے اور اُنہیں خود پر بھروسہ تھا کہ میں اپنی ٹیم کو اس میچ میچ میں کامیابی دلواؤں گا۔
اُنہوں نے بابر اعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ایک کپتان یا لیڈر میں خود اعتمادی ہونا بہت اہم ہے اس لیے اب پاکستانی قوم آپ سے یہ امید کرتی ہے کہ آپ بھی عمران خان کی طرح ٹیم کو لیڈ کریں اور بغیر کسی خوف کے ڈٹ کر کھیلیں۔
علی ظفر نے قومی ٹیم اور بابر اعظم کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ اس کے علاوہ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کی فٹنس بھی عالمی معیار کے مطابق ہونی چاہیے۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک اور بات جو میں اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ اگر کسی کھلاڑی کو انگریزی نہیں بولنی آتی تو اس میں شرمندہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، اسے اپنی قومی زبان اردو میں فخر سے بات کرنی چاہیے اور کوئی ترجمان اس کی بات کا انگریزی میں ترجمہ کر دے کیونکہ ایک کھلاڑی کے لیے اچھی انگریزی بولنا اہم نہیں ہے بلکہ صرف اچھا کھیلنا ضروری ہے۔