پچھلے کچھ دنوں سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لڑکیوں کے اسکولوں پر پھر سے حملے شروع کر دئیے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم ہیں لیکن اس کے باوجود لڑکیوں کے اسکولوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ شخی مار گائوں جو کہ رزمک کی تحصیل میں واقع ہے وہاں لڑکیوںکے مڈل اسکول کو آگ لگائی گئی تو اس میں اسکول کی عمارت کے ساتھ ساتھ سارا فرنیچر ،کمپیوٹر اور دوسری املاک بھی جل کر خاک ہو گئیں۔ یہ اسکول 2020 ء میں ایک سماجی ادارے نے پاکستان آرمی کی ساتویں سب ڈویژن کے ساتھ مل کر بنایا تھا اور اسی سال مارچ میں اس اسکول کے سولر پینل کو بھی تباہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ منشاواہ میں قائم لڑکیوں کے ایک پرائیویٹ اسکول کو بھی آگ لگائی گئی اور لوئر سائوتھ وزیرستان میں زیرتعمیر اسکول پر بم سے حملہ کیا گیا۔
اعداد وشمار کے مطابق طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہونے کے بعد شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بارہ سے زائد اسکولوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد ان علاقوں میں عورتوں کی خواندگی میں اضافہ ہو گا۔ حالانکہ اس سلسلے میں کئی اقدامات بھی کیے گئے لیکن اب بھی ان علاقوں میں خواندہ خواتین کی مجموعی تعداد صرف 15.5فیصد ہے۔ افغانستان میں طالبان نے اپنی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی خواتین کی تعلیم اور ان کی نوکریوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور چونکہ یہ علاقے افغانستان کے ساتھ ملحق ہیں لہٰذا انہی اثرات کی وجہ سے ان علاقوں میں بھی خواتین کے تعلیمی اداروں کو تباہ وبرباد کیا جا رہاہے۔ ضیاالحق کے دور سے ہی جب افغان انقلاب کے خلاف طالبان کو منظم کیا گیا تو امریکہ اور یورپی ممالک نے بڑھ چڑھ کر طالبان کی پرورش میں حصہ لیا اور پاکستانی ریاست نے اس رجعت پسندی کے بیانیے کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جس سے خاص طور پر فاٹا و دیگر ملحقہ علاقوں میں خواتین کو نہ صرف پسماندہ رکھا گیا بلکہ انہیں گھروں میں ہی قیدکر دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی طالبان نے سوات پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ انہوں نے اپنے مخالفین کو چوکوں میں پھانسی دی اور خواتین کے اسکولوں اور کالجوں کو بھی بند کردیا ۔ اسی دوران طالبان نے ملالہ یوسفزئی پرحملہ کیا جس کے نتیجے میں ملالہ مزاحمت کے استعارے کے طور پر ابھری اور اسے نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ فوج نے آپریشن کر کے سوات کو تو طالبان کے قبضے سے چھڑوا لیا لیکن طالبان کے نظریات نے مقامی نوجوانوں کے ذہنی شعور کو اتنا زوال پذیر کر دیا کہ انہوں نے ملالہ یوسفزئی کی کردار کشی کی مہم شروع کر دی۔
دوسری دفعہ طالبان جب کابل پر قابض ہوئے تو اس وقت عمران خان حکومت نے نہ صرف طالبان کے بیانیے کی کھل کر حمایت کی بلکہ ان کے خلاف فوجی آپریشن کی بھی سخت مخالفت کی۔ پاکستانی حکومت نے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستانی طالبان کے ساتھ معاہدہ کر کے ہزاروں جنگجوئوں کو دوبارہ شمالی و جنوبی وزیرستان میں آباد کیا اور اس دوران واحد تنظیم پی ٹی ایم تھی جس کے نوجوانوں نے اس منصوبے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، بجائے اس کےکہ ریاست ان نوجوانوں کے ساتھ مل کر کوئی منصوبہ بندی کرتی اور ان علاقوں کو آمدہ تباہی سے بچاتی الٹا اسی تنظیم کے کارکنوں اور رہنمائوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے اور انہیں برسوں کے لیے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ طالبان کے دور میں افغانستان میں ہر جدید نظریے نے دشمنی کا روپ دھار لیا ہے اور معاشرہ اپنی قدیم روایت میں سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ اب تو وزیر داخلہ نے داسو میں چینی انجینئروں کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام کابل پر لگایا ہے اور یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہاں موجود دہشت گردوں کو جلد از جلد پاکستان حکومت کے حوالے کیا جائے۔ کچھ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ داسو میں چینی انجینئرز پر حملے کے بعد چینی حکومت بھرپور مطالبہ کر رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب کی طرز پر ایک بھرپور اور بڑا آپریشن کیا جائے تاکہ چین سی پیک اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے منصوبوں پر اپنا کام جاری رکھ سکے۔ پاکستان میں انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ عدم برداشت کے رویوں نے سماجی تنزلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشال خان کی جنونی گروہوں کے ہاتھوں شہادت، 3دسمبر 2021ء کو سیالکوٹ میں ایک سری لنکن نژاد کو سرعام قتل کر دینااور آئے روز پاکستان میں اقلیت کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات اس عدم برداشت و انتہا پسندانہ رویوں کی بدترین مثالیں ہیں۔ اس عدم برداشت کے رویے کا باقاعدہ آغاز جنرل ضیاء کے دور سےہوا ۔ یونیورسٹیوں کے نصاب میں جنونی مواد شامل کیا گیا اور یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق میں بھی انتہا پسندی کو اہمیت دی گئی۔ یوں عدم برداشت اور انتہا پسندی ایک مائنڈ سیٹ بن کر ہمارے سماجی رویوں پر چھا گئی۔ آج اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کیلئے سائنس کو سائنس کے مضمون کے طور پر پڑھانے اور ریسرچ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
آج ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عدم برداشت کے مکمل خاتمے اور معاشی ترقی و غربت کے خاتمے کے لیے ایک نئی ریاستی پالیسی وضع کریں جس میں متبادل بیانیے کے پرچار کی راہ بھی ہموار ہو تاکہ سماج انتہاپسندی کے خول سے باہر آ سکے اور ادب، شاعری، موسیقی، عورتوں اور اقلیتوں کی آزادی کے بارے میں نئے افکار اجاگر ہوں اور سماج کی تخلیقی صلاحیتیں ابھریں۔