برطانیہ میں قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات میں لیبر پارٹی جیت گئی جبکہ حکمراں جماعت کنزرویٹو کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، 650 میں سے 412 نشستیں حاصل کر کے لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
14 سال سے کنزرویٹو پارٹی کا راج لیبر پارٹی کی جیت نے ختم کر دیا۔کنزرویٹو پارٹی کو121 نشستوں کے ساتھ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
2019 کے الیکشن میں صرف 11 نشستیں لینے والی لب ڈیم پارٹی اب 71 سیٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن پر آگئی، لب ڈیم پارٹی کی کئی دہائیوں بعد یہ بڑی کامیابی ہے۔
لیبر رہنما پاکستانی نژاد ناز شاہ، یاسمین قریشی اور افضل خان نے بھی اپنی نشست جیت لی، لیبرپارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ جارج گیلوے کو لیبر حریف نے شکست دے دی۔
قبل ازیں برطانوی انتخابات میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد برطانوی میڈیا کی جانب سے جاری پہلے نتیجے میں سنڈر لینڈ ساؤتھ سے لیبر پارٹی کی بریجٹ فلپسن کو کامیابی ملی تھی۔
وزیراعظم رشی سونک کی طرف سے 22 مئی کو ملک میں 4 جولائی کو عام انتخابات کروانے کے اعلان کے بعد تقریباً چھ ہفتوں کی انتخابی مہم کے بعد آج ووٹنگ ہوئی جو پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً دو بجے تک جاری رہی۔
پارلیمنٹ کی 650 نشستوں کیلئے ساڑھے چار ہزار سے زائد امیدوار ہیں، کام یابی کیلئے کسی بھی پارٹی کو 50 فیصد یعنی 326 نشستیں درکار ہیں۔
کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کر پائی تو پارلیمنٹ معلق ہوگی، اتحادی حکومت بنانا پڑے گی، 9 جولائی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں نو منتخب ارکان حلف اُٹھائیں گے۔
عام انتخابات میں پارلیمنٹ کی 650 نشستوں کے لیے ساڑھے 4 ہزار سے زائد امیدوار انتخابی دنگل میں اُترے۔ تاہم لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان کڑے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
ملک بھر میں تقریباً 50 ملین ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں، ووٹنگ کے لیے 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے۔
پولنگ کا سلسلہ برطانوی وقت کے مطابق صبح 7 بجے سے شروع ہوا جو رات 10 بجے تک بلا تعطل جاری رہا۔ برطانیہ میں عموماً کام پر جانے والے اکثر افراد صبح ہی ووٹ ڈال کر فارغ ہوجاتے ہیں جبکہ دن میں ریٹائرڈ افراد اور گھریلو خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رُخ کرتے ہیں۔
ووٹرز کیلئے تصویری شناخت دکھانا لازمی ہے، مئی میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر سابق وزیراعظم بورس جانسن کو ووٹ ڈالنے کےلیے تصویری شناخت ہمراہ نہ لانے پر واپس گھر لوٹنا پڑا تھا۔
توقع ہے کہ جمعرات کی شب برطانوی وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے تک پہلا نتیجہ آجائے گا اور جمعہ کی صبح سات بجے تک نتائج سے یہ واضح ہو جائے گا کہ آئندہ پانچ برس تک کس جماعت کی حکومت ہوگی۔
جمعرات کے روز ہی الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کوئی شرط تو نہیں لیکن 1935 سے جمعرات کے دن میں الیکشن کرانا ایک روایت بن گئی ہے۔
فکسڈ ٹرم پارلیمنٹ ایکٹ 2011 میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انتخابات عام طور پر مئی کی پہلی جمعرات کو ہونے چاہئیں لیکن پھر اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 2017 اور 2019 کے بعد یہ تیسرے انتخابات ہیں جو قبل از وقت ہو رہے ہیں۔
انتخابات میں پارلیمنٹ کی 650 نشستوں میں سے سب سے زائد نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کو بادشاہ چارلس حکومت سازی کی دعوت دیں گے۔
کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کا لیڈر ہی وزیراعظم بنتا ہے۔
الیکشن کے بعد 9 جولائی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں منتخب اراکین حلف اٹھائیں گے اور پھر اسپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔
انتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں نے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور معیشت، مہنگائی، امیگریشن، این ایچ ایس اور ماحولیات جیسے مسائل سرفہرست رہے۔
گزشتہ انتخابات میں پاکستان و کشمیر نژاد جو اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوئے ان میں خالد محمود، افضل خان، محمود یاسین، ڈاکٹر روزینہ خان، یاسمین قریشی، عمران حسین، ناز شاہ، شبانہ محمود، ثاقب بھٹی، نصرت غنی، رحمٰن چشتی، ساجد جاوید، طاہر علی اور زہرہ سلطانہ شامل تھے۔
اس الیکشن میں ساجد جاوید حصہ نہیں لے رہے جبکہ ان اراکین کے علاوہ دیگر پاکستان نژاد امیدوارمختلف جماعتوں کی طرف سے امیدوار ہیں اور توقع ہے کہ پارلیمنٹ میں مزید نئے اراکین بھی پہنچیں گے۔