• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن تیس سالہ پرانا ادارہ، جس کا کام ڈاکٹر زاور حکیموں کو بغیر سود کے قرض فراہم کرنا تھا۔ یہ ہر سال ساٹھ سے ایک سوچالیس افراد کو قرضےدے رہا ہے۔ یہ کوئی بڑی تعداد نہیں مگر ان قرضوں کی واپسی ننانوے فیصد ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بھی کام جاری تھا پنجاب کے اٹھائیس ہسپتالوں میں مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم متعارف کرایا۔ اس ادارے کےچیئر مین وزیر صحت خواجہ سلیمان رفیق ہیں۔ ہیلتھ کے دوسرے وزیر صحت خواجہ عمران نذیر بھی اپنے شعبے میں بھرپور کام کر رہے ہیں۔ سیکریٹری ہیلتھ علی جان نے پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن کا ایم ڈی ایک نہایت ہی شاندار افسر لگاکر اس ادارے کے دائرےکو وسیع کردیا ہے۔ توقع ہے اگلے چند سال میں یہ ادارہ ہیلتھ کی ایک نئی پہچان کے ساتھ طلوع ہوگا۔اس کے ایم ڈی جواد اکرم لگائے گئے ہیں ۔وہ اپنی قابلیت اور دیانت داری میں ایک منفرد حیثیت کے حامل ہیں ۔

اب اس ادارےکے دائرہ کار میں پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کے علاوہ، نرسنگ کا چار سالہ بی ایس پروگرام، لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کا دوسالہ پروگرام اور نرسنگ ڈپلومہ بھی شامل کر دئیے ہیں ۔ ان کے داخلوں سے وظائف تک ،سب کچھ یہیں ہو گا۔ سنٹر لائزڈ ڈیجیٹل ڈیٹا بیس کے سبب ایچ آر سے متعلق مسائل سے نمٹنے میں آسانی ہو گی، کیرئیر کی منصوبہ بندی اور ایڈمن کے معاملات بہتر ہونگے۔ کوئی غیر حاضر نہیں رہ سکے گا، دہری ملازمت نہیں ہوسکے گی۔ شاید وقت آگیا ہے کہ وہ فنڈز کی دستیابی اور حکومتی تعاون سے مستقلاً غیر منافع بخش تنظیم میں اپنے آپ کو بدل لے اور ہیلتھ کے ہر شعبے میں ایک فعال ریاستی ایجنٹ کے طور پر کام کرے۔ اس نےکئی سال میں ریکوری ریشومیں اپنا نام بنایا ہے اور ایچ آر کے مسائل کے باوجود نئی ٹیکنالوجی میں مؤثر طور پر سنبھالا ہے۔ سپورٹ کی جائے تو ٹیم اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ خود کار ادارہ ہے مگر دیگر خود مختار تنظیم کے برعکس اسے گرانٹ یا امداد کی اجازت نہیں، جہاں منافع کی توقع نہیں ہوتی وہاں قرض کے دائرے کو حرکت میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ بغیر منافع کے 8 سال کی مدت بھی زیادہ ہے کیونکہ ڈالر اور سونے کے نرخ دوگنا ہو جاتے ہیں۔ ریگولر ملازمین کو یہاں پنشن کی سہولت نہیں، بورڈ اور حکومت کو اس ادارے کے لیے ایسے فیصلے کرنےچاہئیں جس کے نتیجے میں خود حکومتی صحت کے شعبے کی بنیادیں مضبوط ہوں۔بے شک محکمہ ہیلتھ سب سے بہتر جا رہا ہے، سیکریٹری ہیلتھ علی جان کے ساتھ جو راجہ منصور احمد سپیشل سیکریٹری ہیلتھ ہیں وہ بھی بڑے کمال آدمی ہیں۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کے غلط آرڈر ماننے سے انکار کر دیا، میں ان کے دفتر گیا اور کہا کہ سیٹ مت چھوڑیں کوشش کر لیتے ہیں کہ معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو جائیں مگر انہوں نے صاف الفاظ میں کہا ’’میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ کام کرنا ہی نہیں چاہتا‘‘۔ یہ خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کی خوش قسمتی ہےکہ انہیں ایسے شاندار اور دیانت دارافسر ملے ہیں اور اس کےلئے وزیر اعلیٰ مریم نواز کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ بہر حال تمام معاملات بخوبی سمجھنے والے وزیر، تجربہ کار سیکرٹری اور متحرک ٹیم نے وزیر اعلیٰ کے چیلنج کو قبول کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے تقریباً تمام اینی شیٹو آگے بڑھ رہے ہیں۔ ’’بیسک ہیلتھ یونٹس کےساتھ پنجاب بھر کے بڑے ہسپتالوں کی تعمیر اور ری ویمپنگ کا کام تیزی سے جاری ہے، اسے اگلے سال جون تک مکمل ہونا ہے، دور دراز علاقوں میں صحت کے مراکز اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو خصوصی الاؤنس دیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کینسر کیئر ہسپتال کے فیز ون کی تعمیر شروع ہے۔ تمام مراکز صحت اور ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بون میرو کی پیوند کاری کے لیے پنجاب میں ایک خصوصی ہسپتال پر غور ہو رہا ہے۔ مفت انسولین پروگرام بھی ہے۔ نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سرگودھا کا کام بھی جاری ہے۔ انجیو گرافی سروسز کی آؤٹ سورسنگ ہونے والی ہے۔ ہسپتالوں کی مسلسل نگرانی کا نظام تیار ہے۔ مریضوں کے رش کے مطابق ہسپتالوں میں دستیاب سہولیات کا تعین کیا جا رہا ہے۔ بھکر کے قطر ہسپتال میں کینسر کے علاج کے یونٹ کے قیام اور معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضاء لگانے کے خصوصی منصوبے کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ راجن پور میں ایک بڑا ہسپتال بنایا جا رہا ہے۔ فیلڈ ہسپتال کی سہولت پنجاب کی ہر تحصیل تک یقینی بنانے کی کوشش جاری ہے، دو سو فیلڈ ہسپتالوں نے کام شروع کر دیا ہے۔ ان میں ڈاکٹرز، ایل ایچ ویز اور ویکسی نیٹرز کا عملہ ہو گا۔ ان فیلڈ ہسپتالوں میں مفت ادویات اور الٹرا ساؤنڈ کی سہولت بھی ہے۔ یعنی علاج معالجہ کی سہولت دروازے تک پہنچ گئی۔ سملی ٹی بی ہسپتال کو جنرل ہسپتال میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ہر ضلع میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر میڈیکل کالجز کے قیام۔ ”ان میڈیکل کالجز میں 50فیصد طلباء کو سرکاری میرٹ پر داخلہ دیا جائے گا۔ بنیادی اور دیہی مراکز صحت میں ڈیجیٹل سسٹم کی تنصیب مکمل ہو چکی ہے۔ تھیلی سیمیا کے بچوں کو انتقال خون کی سہولیات کیلئے ہر ڈویژن میں اسٹیٹ آف دی آرٹ تھیلی سیمیا سنٹرز قائم کرنے کا پلان بھی ترتیب دیا ہے۔ اس میں میرا خیال ہے کہ سندس فائونڈیشن جیسے اداروں کے ساتھ مل کر اس کام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ ان کے علاوہ بھی عوام کی صحت کیلئے بہت سے پرجیکٹس شروع کیے گئے ہیں۔

مجھے پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن کے دفتر میں جا کر احساس ہواکہ محکمہ ہیلتھ میں سچ مچ کوئی بڑا کام ہونے والا ہے۔ میرے خیال میں ہیلتھ فائونڈیشن پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ پر پنجاب بھر میں کلینکس بنانا شروع کرے تو بہت کم وقت میں صحت کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل ہو سکتے ہیں ویسے بھی، پرائیویٹ سیکٹر میں آٹھ سال کی سرمایہ کاری اور معاملات میں سو فیصد سپورٹ کا مطلب بزنس پارٹنرشپ ہی ہے۔ یہ تقریباً 2000 ہیلتھ کلینک ہسپتال اور سنٹر ہیں جو فائونڈیشن کی مدد سے دور دراز کے علاقوں میں روزگار کی فراہمی کے ساتھ جعلی پریکٹس کرنے والوں سے نمٹنے میں مدد دیتے ہیں۔

تازہ ترین