• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ چھوٹا سا دل چسپ واقعہ23سال پرانا ہے۔ اُن دنوں خیرپور میں ہمارا ایک بڑا سا مکان ہوا کرتا تھا اور اس زمانے میں اس طرح کے مکانات عام تھے۔ ہمارے گھر کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا آنگن تھا، آنگن کے درمیان میں ہینڈ پمپ کے قریب ہی کہنہ سال نیم کا درخت بھی تھا، جس پر پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے تھے۔

بڑا ہی سادہ اور پرسکون دَور تھا اور اس سادگی میں جینے کا بھی اپنا الگ ہی مزہ تھا۔ چوں کہ عیدالاضحی قریب تھی، تو ہمارے گھر بھی قربانی کے لیے بڑے بڑے سینگوں والا قدآور، لحیم شحیم بکرا آچکا تھا، جسے صحن کے بیچوں بیچ درخت سے باندھ دیا گیا تھا۔ وہ قوی الجثہ بکرا جب گردن گھما کر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورتا، تو بہت خوف محسوس ہوتا تھا۔

خیر، عید الاضحی سے دو روز قبل کی بات ہے، شام کا وقت تھا اور بکرا حسب معمول گھاس کھانے کے شغل میں مصروف تھا۔ اُس وقت گھر میں مَیں تھی اور میرےچھوٹے بیٹے کے علاوہ ایک کمرے میں میری ساس اور دوسرے کمرے میں میرے شوہر سو رہے تھے۔ بڑے بچے پڑوس ہی میں ٹیوشن پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ بیٹا، بکرے کو گھاس کھلانے میں مشغول اور مَیں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی کہ اسی دوران میرا بیٹا دوڑتا ہوا میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ پریشانی اُس کے چہرے سے صاف عیاں تھی۔ 

مَیں ابھی اس سے کچھ پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ سامنے سے بکرا بھاگتا ہوا نظر آیا، نہ جانے اس کی رسّی کس طرح کھل گئی تھی۔ پھر وہ بھاگتا ہوا چشمِ زدن میں میری ساس کے کمرے میں جادھمکا۔ مَیں بھی حواس باختہ ہوکر اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں پہنچی تو دیکھا کہ میری ساس خوف کے مارے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں۔ مَیں نے بمشکل تمام ایک موٹی لکڑی کی مدد سے اُسے باہر نکالا، تو وہ اس کمرے کی طرف لپکا، جہاں میرے شوہر محوِ استراحت تھے۔ 

وہ دروازے سے کمرے میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ شوہر نے خطرہ بھانپ کر کمال ہوش یاری سے کمرا بند کرکے خود کو محفوظ کرلیا اور دروازے پر لگی جالیوں سے تماشا دیکھنے لگے۔ ان کی اس حرکت پر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ بیویاں تو اپنے شوہروں پر اپنی جانیں قربان کردیتی ہیں، مگر یہ کیسے ہیں کہ صرف خود کو بچانے کے لیے ہماری بھی پروا نہیں کی۔ (دراصل وہ جانوروں سے، عورتوں سے بھی زیادہ ڈرتے ہیں) خیر، دروازہ بند ہوتے ہی بکرا مڑا اور میرے پیچھے لگ گیا۔ 

اب صورتِ حال یہ تھی کہ آگے آگے مَیں اور پیچھے پیچھے بکرا اس طرح دوڑ رہے تھے، گویا دوڑ کا عالمی مقابلہ ہورہا ہو، مَیں اپنی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھی، خوف سے میرا برا حال تھا، بالآخر بپھرے ہوئے بے قابو بکرے کے نرغے میں آہی گئی، اس نے میرے قریب پہنچ کر ایک ایسی زور دار ٹکر ماری کہ مَیں ہینڈ پمپ سے جا ٹکرائی۔ 

میرا بیٹا یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا اور بھاگ کر پڑوس سے اپنے ظ بڑے بھائیوں کو بلا لایا، جنہوں نے بہ دقت تمام بکرے پر قابو پاکر مجھے کمرے میں پہنچایا۔ بہرحال، اُس کے بعد کافی عرصے تک مَیں پین کِلرز لیتی رہی، مگر مہینوں کمر اور پسلیوں میں تکلیف رہی۔ (نرجس مختار، خیرپورمیرس)