مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا، اپنے والد، ڈاکٹر سیّد عبدالحمید گیلانی نوناری کو ہمیشہ سائیکل ہی پر ملازمت پرجاتے دیکھا۔ وہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد گاؤں کی کچّی سڑک پر دُور تک سیر کے لیے نکلتے اور سیر سے واپس آنے کے بعد تیار ہوکر سائیکل سنبھالتے اور اپنے نواحی گائوں، سنکھترہ سے 5کلومیٹر دُور اسپتال چلے جاتے، جہاں وہ بحیثیت معالج تعیّنات تھے۔
وہاں سے سہ پہر تین بجے گھر آجاتے اور آخر دم تک اُن کی زندگی کا یہی معمول رہا۔ وہ ہمیں بتایا کرتے کہ وہ تقسیمِ ہند کے وقت کس طرح ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد گورداس پور سے پاکستان کے شہر نارووال پہنچے اور کیسے اپنے خاندان کا شیرازہ بکھرنے، اُن کے لُٹنے اور قتل و غارت گری کا مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
وہ ہندوؤں اور سِکھوں کے مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم و ستم کی اندوہ ناک داستان سُناتے تو ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ ملازمت کے چند سال انھوں نے مقبوضہ کشمیر کے ایک سرکاری اسپتال لیسرکلاں میں بھی گزارے۔ اس عرصے میں جب گرمیوں میں اسکول کی چھٹیاں ہوتیں، تو ہم اپنے والد صاحب سے ملنے اُن کے پاس مقبوضہ کشمیر چلے جاتے۔ وہاں کے دل کش اور خُوب صُورت مناظر آج تک ہماری نگاہوں میں بسے ہیں، خصوصاً وادئ کشمیر میں ہونے والی بارش کے مناظر اس قدر دل کش تھے کہ بھولے نہیں بُھولتے۔
والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ تقسیمِ ہند کے وقت اُن کے پورے خاندان کو شہید کردیا گیا، واحد وہی بچے، جو کسی نہ کسی طرح جان بچا کر پاکستان پہنچنے میں کام یاب ہوئے۔ وہ ہمیں اکثر اپنے بچپن کے واقعات بھی سنایا کرتے تھے کہ گورداس پور کے گاؤں، جیٹھوال میں ایک نہربہتی تھی، جہاں وہ اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ نہاتے اور خُوب شرارتیں کرتے۔ گورداس پور میں اُن کا خاندان حکمت کے شعبے سے وابستہ تھا، جب کہ ہمارے دادا، سیّد رمضان شاہ، گورداس پور کے تحصیل دار تھے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد والد صاحب نے یتیمی کی زندگی انتہائی کٹھن حالات میں بسر کی، تاہم ان مشکل حالات میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہمیں اُن کی گفتگو میں تصوّف اور اللہ سے قربت کا خاص درس ملتا تھا۔ سادہ لباس، سادہ خوراک زندگی بھر ان کا شیوہ اور معمول رہا۔ تصوّف کی منازل وہ زندگی ہی میں طے کرچکے تھے کہ ہمیشہ اللہ کی رضا میں راضی رہتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اپنانے کی کوشش کرتے۔
پاکستان ہجرت کے بعد تعلیم و تربیت عثمان گنج لاری اڈا، لاہور سے حاصل کرنے کے بعد مَری، ٹیکسلا بہاول پور، سیال کوٹ سمیت دیگر شہروں میں ملازمت کی۔ والد صاحب کی یادداشتیں تو بے شمار ہیں، لیکن ایک قابلِ فخر واقعے کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گا کہ وہ جب لیسرکلاں، شکرگڑھ میں ملازمت کی غرض سے مقیم تھے، تو اکثر گرد و نواح کے عقیدت مند انھیں اپنے گھر لے جاکر اُن سے دین کی باتیں سنتے۔ وہ جب تک اسپتال میں رہے، یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح کی دینی محافل میں بعض اوقات ہندو خاندانوں کے لوگ بھی شریک ہوجاتے اور اُن سے دینِ اسلام اور تصوّف کی سنتے، اور پھرایک وقت ایسا بھی آیا کہ والد صاحب سے دینِ اسلام کی باتیں سن کر تین ہندو خاندانوں نے اسلام قبول کرلیا۔
تقسیم ِہند کے وقت چوں کہ میرے والد کا پورا خاندان شہید ہوگیا تھا، لہٰذا وہ اپنی اولاد ہی کو اپنی کُل متاع تصوّر کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وفات سے چند ماہ قبل جب انھیں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، لاہور میں داخل کروایا گیا، تو پروفیسرز اور ڈاکٹرز کی ٹیم ہارٹ سرجری کے لیے تمام چیک اَپ کے بعد کہتی کہ ’’شاہ صاحب! صبح آپ کی سرجری ہے۔‘‘ تو والد صاحب فرماتے کہ ’’جو دل اللہ کی یاد میں مشغول رہے، وہ خراب کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
بہرحال، ڈاکٹرز، انھیں صبح آپریشن تھیٹر لے جانے کے لیے قرار دے دیتے، لیکن جوں ہی اندر لے کر جاتے، تو اُن کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا اور آپریشن ملتوی کرنا پڑتا۔ جب تین روز تک مسلسل آپریشن کے لیے فِٹ قرار دینے کے باوجود ڈاکٹرز آپریشن میں نا کام رہے، تو بالآخر ڈسچارج کردیا۔ گھر آکر وہ معمول کے مطابق زندگی گزارتے رہے اور یکم اپریل2003ء کو بہت سکون و اطمینان کی حالت میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ عزم و ہمّت کے پیکر میرے عظیم والد کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (سیّد عارف نوناری ،لاہور)